نورجہاں: تیری آواز آ رہی ہے ابھی


 نورجہاں کی گائیکی سراسر حسنِ ادائیگی سے عبارت ہے۔ ان کی آواز توانائی اور مسرت کی ایک ایسی مثال تھی جو فی زمانہ نایاب ہوچکی ہے اور ”ملکہ ترنم“ جیسا لقب بھی ان کے فن کا پورا احاطہ نہیں کرسکتا۔ وہ شاید برِصغیر کی واحد فطری گلوکارہ تھیں، یہ محض ان کی آواز کا کرشمہ تھا کہ سننے والے مبہوت رہ جاتے تھے۔ کوئی ہندوستانی یا پاکستانی گلوکارہ بمشکل ایسی بے پناہ گائکی کے قریب آسکی ہے۔ سننے والوں کے لیے وہ ایک گلوکارہ سے بڑھ کر مقام رکھتی تھیں۔ نورجہاں ایک صاحبِ طرز اور سحر انگیز مغنّیہ کے طور پر ابھریں اور اپنے فنی دور کی ابتدا ہی میں موسیقاروں کی ضرورت بن گئیں، وہ تمام موسیقاروں کے لیے غیر معمولی اہمیت رکھتی تھیں، یہاں تک کہ ہر موسیقار ان کے لیے دُھن بنانے میں فخر محسوس کرتا تھا، شاید اس لیے کہ وہ جانتے تھے کہ نورجہاں کے گلے کا نور ان کی دُھن کو رعنائی عطا کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔

 برصغیر میں ایک سے بڑھ کر ایک مغنّیائیں ہیں جنہیں لوگوں کی پسندیدگی حاصل ہے، لیکن یہ ایک عجیب حقیقت ہے کہ جب نورجہاں کی آواز بلند ہوتی ہے تو پھر لوگ کسی اور کو سننا نہیں چاہتے۔ نورجہاں میں غالباً ایک ابدی رومانیت پنہاں تھی اور ان کے نغموں کا ہر بول ان کے دل کی گہرائیوں سے اُبھرتا تھا، انہیں آواز کے اظہارمیں ایک نمایاں خصوصیت حاصل تھی۔ ان کا خاص انداز جو انہیں دوسری تمام گلوکاراؤں سے یکسر ممتاز کرتا ہے، ادائیگی کا وہ فطری اور پُرکشش اسلوب ہے جس کے ذریعے وہ ہرطرح کے جذبات اور کیفیات کو پیش کرنے کی صلاحیت رکھتی تھیں۔ انہوں نے فلمی تقاضوں کے تحت بنائے گئے ہلکے پھلکے نغموں میں اپنی فنکارانہ صلاحیتوں کو اس مہارت سے پیش کیا اور اس طرح اپنی گلوکاری کا حصّہ بنایا کہ سطحی معیار کے فلمی گانوں کو ایک فنی وقار عطا کردیا۔ گانے کا یہ اندازِ پیشکش ہی ان کی وہ مخصوص خوبی بن گیا جس کی بدولت دنیا انہیں ملکہ ترنم کہنے لگی۔ انہوں نے سیدھی سادی دُھنوں میں وہ فنّی کمالات دکھائے کہ کلاسیکی موسیقی کے بڑے بڑے اُستاد اور موسیقار حیران رہ گئے۔ وہ فنّی مہارتیں جو کوئی کلاسیکی گائک ڈیڑھ گھنٹے کے راگ میں ادا کرتا ہے، نورجہاں نے تین منٹ کے فلمی گانے میں ادا کر کے دکھا دیں۔ ان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ موسیقار اوّلاً اپنی دُھن کے بارے میں سوچتے تھے لیکن جب نورجہاں آجاتی تھیں تو صرف نورجہاں کے بارے میں سوچتے تھے۔ کسی بھی دُھن کو گاتے ہوئے وہ اپنی ادائیگی کی بدولت بعض ایسی خوبیاں پیدا کردیتی تھیں جو خود موسیقار کے ذہن میں بھی نہیں ہوتی تھیں۔ ان کے ساتھ سنگت کرتے ہوئے سازندوں کو غیر معمولی طور پر محتاط رہنا پڑتا تھا، پاکستان میں موسیقار ان کی آواز کی پرستش کرتے تھے اور خاص ان کی صوتی قوّت کو مدِ نظر رکھ کر بلند آہنگ دُھنیں تخلیق کرتے تھے۔70 سے90 کے عشرے کے پنجابی فلمی گانے اس بات کا مدلّل ثبوت ہیں۔

اپنے صاف ستھرے نستعلیق اُردو تلفظ میں نورجہاں نے40ء سے 60ء تک کی دہائی میں جو فلمی گانے گائے وہ آج تک ان کا بہترین کام سمجھے جاتے ہیں، پھر اس کے بعد نورجہاں کے پنجابی نغموں کے جہان کا آغاز ہوتا ہے۔ یہ ایک حیران کُن دنیا تھی جس پر اوّل و آخر نورجہاں کی حکمرانی تھی اور مرتے دم تک رہی۔ ان کی توانا آواز نے پنجاب کے کھلے ماحول اور نسبتاً سادہ اور بے باک روّیوں کی عکاسی جس طرح اپنی گائیکی میں کی ہے، کوئی اور نہ کرسکا۔ اس کا آغاز ساٹھ کی دھائی کے آخری برسوں میں ہوا جب ان کی آواز میں ملائمت اور نرمی کی کمی واقع ہونا شروع ہوگئی تھی، شاید آواز کا یہ بھاری پن ان کی بڑھتی ہوئی عمر کا تقاضہ تھا لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ چیز پنجابی نغموں کی گائکی میں ان کے بہت کام آئی۔ چونکہ وہ اپنی آواز کو کیفیات کے مطابق تبدیل کرنے کا ہنر جانتی تھیں اور گانے میں پوری فنّی چابکدستی کا مظاہرہ کیا کرتی تھیں اس لیے پنجابی گانوں میں ان کی آواز کی توانائی اور نچلے سروں کے ساتھ ساتھ انتہائی اونچے سروں پر ان کی مکمل گرفت نے ایسا رنگ جمایا جسے یکتائی کا حامل کہا جاسکتا ہے، اور صرف کیفیات کا اظہار ہی نہیں بلکہ وہ الاپ، تان اور مرکیوں میں بھی ایسا تنوع پیدا کردیتی تھیں جس کی مثال فلمی گائیکی میں کہیں نہیں ملتی۔ ان کا گانا کلاسیکی نہ ہوتے ہوئے بھی اسی فریم میں جڑا ہوا محسوس ہوتا تھا۔

سازوں کے ساتھ اپنی آواز کا تال میل بنائے رکھنے میں انہیں غضب کی مہارت حاصل تھی۔ استھائی کے بیان اور انترے کی اٹھان میں انہیں ملکہ حاصل تھا۔ انہیں پنجابی اور اُردو پر یکساں قدرت حاصل تھی اور وہ دونوں زبانوں میں ایک جیسی مہارت سے گایا کرتی تھی۔ بالخصوص پنجابی میں انہوں نے سُننے والوں کو نئے نئے لہجوں اور کیفیتوں سے روشناس کرایا ان کے پنجابی طربیہ نغمے پُر جوش مسرت سے لبریز محسوس ہوتے ہیں۔ انہوں نے آواز میں شوخی اور چنچل پن پیدا کرکے ان نغموں میں مسرت کے غیر معمولی تاثر کو پیش کیا ہے، بعض مقامات پر یہ پُر جوش کیفیت بڑھ کر وجد میں تبدیل ہوجاتی ہے اور سننے والے کو نئی نئی حیرتوں سے دوچار کرتی ہے۔

ان کے گلے میں ایک قدرتی سوز تھا جو کہ المیہ نغموں کے لیے نہایت موزوں تھا، اور انہوں نے اپنے المیہ نغموں میں اس کا نہایت خوبی سے استعمال کیا۔ ان نغموں میں انہوں نے اپنی آواز کے فطری گداز اور بے مثل ادائیگی کی بدولت، حزن اور ملال کے تاثرات کو گہرا کرکے دکھایا اور نا اُمیدی، بے چارگی اور بے بسی جیسی کیفیات کی ایسی منظر کشی کی ہے جو سننے والوں کو ایک گہری یاسیت میں مبتلا کردیتی ہے۔

 انہوں نے ہر سطح کے گانے گائے اور ہر بڑے گلوکار کی طرح ان کے حصے میں اچھا اور برا، دونوں طرح کا کام آیا، لیکن انہوں نے دونوں طرح کے کاموں سے انصاف کیا۔ بدقسمتی سے پنجابی فلموں کے لیے گائے گئے لچر شاعری پر مشتمل بعض فلمی گانوں کی امیج، عوام کی نفسیات سے ایسی چپک کر رہ گئی ہے کہ لوگوں کا دھیان ان کے شاندار کام کی طرف کم ہی جاتا ہے۔ عام طور پر سنجیدہ حلقوں میں ان ’غیر شائستہ“ مجرے کے نغموں پر سخت تنقید کی جاتی ہے، اگرچہ یہ مبتذل اور کچھ مخصوص طرزِ ادا کے نغمے مقبول تو ہوئے، مگر معیار کے دائرے کو محدود کرگئے۔ لیکن یہ بھی ایک عجیب و غریب حقیقت ہے کہ ان ”سستے اور بازاری“ نغموں میں بھی نورجہاں نے جو فنی کمالات دکھائے ہیں وہ کسی عام مغنیہ کے بس کی بات نہیں تھی۔ سب سے پہلی چیز تو وہی حسن ادائیگی والی خوبی ہے، محض لفظوں کی ادائیگی سے وہ ماحول کی جو تصویر کھینچتی ہیں اس میں اُس کردار کی ،کہ جس پریہ گانا فلمایا جانا ہے، ساری شخصیت مصوّر ہو کر سامنے آجاتی ہے۔ ان گانوں میں جو عشوہ گری اور الہڑ پن کا تاثر ہے وہ بلاشبہ ایک فنّی مہارت ہے۔

 ان کی آواز میں ایک عجیب و غریب قوّت اور کرشماتی کیفیت کا اظہار تھا اور انہوں نے اس قوت اور کیفیت کو بڑی محنت اور تندہی سے برقرار رکھا اور اس میں اضافہ کیا تھا، اس کا ایک ثبوت80 اور90 کی دہائی میں پاکستان ٹیلی ویژن کا پروگرام ”ترنم“ ہے جس میں انہوں نے اپنے پرانے گانوں کو ازسر نو گایا اور سننے والے حیران رہ گئے کہ انہوں نے اپنے بعض نغموں کو پہلے سے زیادہ خوبصورت بنادیا تھا۔

 سماجی سطح پر بھی وہ ایک صاحب طرز شخصیت تھیں اور انہوں نے شوبز کے حوالے سے پاکستانی سوسائٹی پر گہرے اور انمٹ نقوش مرتب کیے۔ انہیں بچّوں سے لے کر بوڑھوں تک کی پسندیدگی حاصل تھی۔ وہ اپنے بناؤ سنگھار کے بارے میں ہمیشہ بہت حسّاس رہتی تھیں، ان کے ٹیلی ویژن پروگراموں کے ذریعے سے ان کی جھلملاتی ساڑھیاں، جگمگاتے زیورات اور شوخ میک اپ، لوگوں کے نزدیک ان کی شخصیت کا حصّہ بن گئے۔ یہ ایک عجیب بات تھی کہ عمر رسیدگی کے باوجود ان کے بھڑک دار کپڑے، لوگوں کو کبھی اوپرے نہیں لگے، غالباً اس کے پیچھے خود نورجہاں کے ساتھ پاکستانی عوام کی گہری محبت اور عقیدت وابستہ تھی۔ وہ ایک حسین عورت تھیں اور اس بات کو ہمیشہ یاد رکھتی تھیں۔ اپنے فن کے علاوہ وہ اپنی شخصیت کو نکھارنے کے لیے بھی ہمیشہ کوشاں رہتی تھیں۔

انہیں ایک صاحبِ طرز اور طرحِ نو ڈالنے والی گلوکارہ مانا گیا اور اپنی زندگی ہی میں انہیں، ایک گلوکارہ کے طور پر، اپنی ذات میں ایک ادارہ تسلیم کیا گیا۔ آج ہم ہندوستان اور پاکستان میں نئی گلوکاراؤں کی گائیکی کے بارے میں بہت کچھ سنتے ہیں لیکن کیا ان سب کی گائیکی کا نورجہاں کی آواز اور ادائیگی سے کوئی مقابلہ ہے؟ ہندوستان کے ممتاز موسیقار سجاد حسین نے ایک بار کہا تھا کہ ”خدا نے نورجہاں اور لتا کو گانے کے لیے پیدا کیا ہے، پھر میں یہ نہیں سمجھ پاتا کہ اس نے دیگر گلوکاراؤں کو پیدا کرنے کی زحمت کیوں کی؟“ نورجہاں برِصغیر پاک وہند کی واحد گلوکارہ تھیں جن کی بہت کم لوگ نقالی کرسکے اگر چہ ان کی طرح گانے کی سینکڑوں نے کوشش کی۔ بہت سوں نے ان کی تقلید کی اور گمنام ہوگئیں، کچھ اب بھی ان کی نقل کرتی ہیں اور عزت پاتی ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).