نواز شریف کی تحریک عدل کیوں؟


بسا اوقات تاثر حقیقت پر غالب آ جاتا ہے یا کم از کم عارضی طور پر دھوئیں کے بادلوں میں حقیقت چھپ جاتی ہے۔ جو فرد سے لے کر قوم تک غیر معمولی نقصان کا باعث بن سکتی ہے۔ اسی نوعیت کا تاثر28 جولائی کے فیصلے کے بعد مسلم لیگ (ن) کے حوالے سے اس کے مخالفین قائم کر رہے ہیں کہ یہ تو دونوں مقتدر اداروں سے لڑ بھڑ چکے ہیں اور ان کے خلاف ہی مہم کو جاری رکھے ہوئے ہیں۔ حالانکہ حقیقت اس کے برخلاف ہے۔ نواز شریف ریاست کے انتظامی سربراہ کی حیثیت سے فرائض سر انجام دے چکے ہیں۔ اور اچھی طرح سے جانتے ہیں کہ ریاست کی مضبوطی اور فعال حیثیت کو قائم کرنے اور رکھنے کے واسطے عدلیہ اور فوج کی مضبوطی بنیادی عناصر میں سے دو عناصر ہے۔ پھر نوازشریف کا مقدمہ کیا ہے؟

نوازشریف کا مقدمہ سمجھنے کی غرض سے ماضی کو کریدنا ہو گا۔ یہ 2003؁ء کی بات ہے نواز شریف جلا وطنی کی زندگی کاٹ رہے تھے۔ میں ان سے ملاقات کی غرض سے جدہ پہنچا اور بار بار ملاقات رہی۔ گفتگو میں جب یہ پہلو آیا کہ سجاد علی شاہ کے منصفی کے عہد سے یہ تصور قائم ہو رہا تھا۔ یا دانستہ طور پر کیا جا رہا تھا کہ آپ کا عدلیہ سے ٹکراؤ ہو گیا ہے۔ تو نوازشریف نے اس تصور کو یکسر مسترد کر دیا اور انہوں نے کہا کہ معاملہ کسی تصادم کا نہیں تھا بلکہ معاملہ اس وقت بھی وہی تھا جو بعد میں پرویز مشرف کے ساتھ بنا۔

آئین نے ہر ادارے کی حدود و قیود متعین کر رکھی ہے۔ اس میں یہ طے شدہ امر ہے کہ آئین سازی اور قانون سازی کے جملہ حقوق عوام کی ملکیت ہے۔ اور عوام اپنے اس حق ملکیت کو اپنے منتخب نمائندوں کے ذریعے استعمال کرتی ہے اور کوئی دوسرا ادارہ چاہے کتنا بھی معتبر کیوں نہ ہو جائے وہ آئین پر فیصلہ ساز نہیں ہو سکتا۔ لیکن بدقسمتی سے سجاد علی شاہ یہ سب کچھ کر گزر رہے تھے۔ اور ان کے عزائم کیا تھے۔ اس کا اندازہ اس امر سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے کہ بحران کے آخر میں انہوں نے پارلیمنٹ کی جانب سے متفقہ طور پر تنسیخ شدہ 58۔ 2۔ B کو از خود ہی بحال بھی کر دیا۔

ملک کے انتظامی سربراہ اور سب سے بڑی سیاسی جماعت کے رہنماء کے طور پر قانونی فورمز پر جو ہونا چاہیے تھا وہ کیا گیا ورنہ آئین کا حلیہ بگاڑنے کا ایک چور دروازہ دھڑلے سے کھل جاتا۔ بات درست تھی۔ سعودی عرب سے واپسی پر اسلام آباد میں کتابیات پر لاجواب کام کرنے والے ماہر تعلیم محقق حسین عارف نقوی (مرحوم) سے ملاقات ہوئی۔ وہ ذاتی کتابوں کا ایک بہت بڑا ذخیرہ رکھنے والی شخصیت تھی۔ جب ان سے جدہ میں ہوئی ملاقاتوں کا ذکر ہوا تو انہوں نے کہا کہ نوازشریف کے حوالے سے یہ تصور کرنا کہ وہ فوج کو کمزور کرنے کی کوئی منصوبہ بندی کر رہے تھے درست نہ ہو گا۔ ان کی فیکٹریاں یا تو پاکستان کے لئے اس وقت سے اسلحے کے پرزے تیار کر رہی ہے جب پاکستان اس صنعت میں ابھی نوزائیدہ ہی تھا۔ وہ اپنی لائبریری سے 1960؁ء میں واہ فیکٹری کے چیئرمین میجر جنرل امراؤ خان کی خود نوشت ”ایک جرنیل کی سرگزشت“ اٹھا لائے کہ جس میں تحریر تھا کہ 1960؁ء سے واہ فیکٹری اتفاق فاؤنڈری سے اسلحہ کے پرزے تیار کروا رہی تھی۔ اس سے کاروبار کی وسعت کا بھی اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔

کارگل کے مس ایڈونچر سے لے کر 12 اکتوبر 1999؁ء کے واقعات کیوں پیش آئے تو اس کو سمجھنے کے لئے اس وقت کے ہی دو جرنیلوں جنرل جمشید گلزار کیانی (مرحوم) کے ٹی وی انٹرویو اور جنرل شاہد عزیز کی کتاب ”یہ خاموشی کہاں تک“ کا مطالعہ سب کچھ سامنے لا کھڑا کر دیتا ہے۔ کہ کارگل نوازشریف کی لاعلمی میں ہوا اور کیسے جمہوریت پر شب خون مارنے کی منصوبہ بندی وزیر اعظم کو ہائی جیکر قرار دینے سے کہیں پہلے کی تھی۔ اس لئے ماضی بھی گواہ ہے کہ معاملہ آئین کی بالا دستی کا تھا اور معاملہ ابھی بھی وہی موجود ہے۔

28جولائی کو ایک فیصلہ آیا اس کو سمجھنے کی غرض سے ہم نوازشریف کے حامی اور مخالفین کے تجزیے ایک طرف رکھ دیتے ہیں۔ غیر جانبدار افراد کا تعلق چاہے اہل صحافت سے ہو یا ماہرین قانون ہو آپ کو آٹے میں نمک کے برابر بھی ایسے افراد نہ مل سکیں گے جو اس فیصلے کو حق بجانب اور قانونی اصولوں کے مطابق قرار دے رہے ہیں۔ یقینا مستقبل میں پاکستان کی اپنی عدالتوں اور دنیا میں یہ فیصلہ کبھی بھی عدالتی نظیر نہیں بنایا جا سکے گا۔ اور مزید سونے پر سہاگہ عمران خان کے فیصلے میں آیا کہ جس کے بعد نوازشریف کا یہ بیان درست ثابت ہو گیا کہ کہیں ان کے کیس میں بھی مجھے ہی نا اہل نہ کر دیں۔ اور فی الواقعہ ہوا بھی ایسا ہی۔

مزید حیرتوں کا سمندر اس وقت مؤجزن ہوا۔ جب یہ پیغام الا اعلان دیا گیا کہ اگر کہیں کوئی خلا پیدا ہوا تو ہم اس وقت پورا کریں گے۔ خلا کا تعین بھی خود کیا جائے گا اور پھر اس کو بھرنے کے لئے اقدامات بھی خود ہی کیے جائیں گے۔ سبحان اللہ۔ جہاں آئین کی بالا دستی ہوتی ہے۔ وہاں پر اگر کوئی خلاء پیدا بھی ہو جائے تو اس خلاء کو ماضی بنا دینے کی غرض سے قانون ساز ادارے کردار ادا کرتے ہیں۔ نہ کہ کوئی دوسرا ادارہ از خود ہی یہ اختیارات سنبھال لیتا ہے۔ جیسے بالکل درست کہا گیا کہ فوج کے خود ساختہ ترجمان ہمارے لوگ نہیں ہیں۔ یعنی ISPR کا بدل نہیں۔ کیا ہی اچھا ہو کہ ان خود ساختہ ترجمانوں کو، جو یہ کہتے تھکتے نہیں کہ میری چار گلیاں چھوڑ کر سپہ سالار رہتے تھے اور میں سب جانتا ہوں، آئی ایس پی آر شٹ اپ کال دے دے۔ بہرحال اگر رویے نہ بدلے تو تحریک عدل تو بنتی ہے جو کسی بھی ادارے کے خلاف نہیں بلکہ آئین کے حق میں ہو گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).