کینیڈا سے آئے شیخ السلام اور بقراط عصر کی فراست


گزشتہ ہفتے آئی ایس پی آر کے ڈائریکٹر جنرل آصف غفور صاحب نے اپنی پریس کانفرنس کے دوران صحافیوں کو محتاط رہنے کی ہدایت کی تھی۔ ان کی دانست میں جنگیں اب 5-G ہو چکی ہیں۔ دفاعی معاملات کے بارے میں قطعاً لاعلم ہونے کی وجہ سے میں اس اصطلاح کو ہرگز نہیں سمجھتا۔ جنرل صاحب کی باتوں سے البتہ اندازہ یہ ہوا کہ اس نوعیت کی جنگ میں میڈیا اہم کردار ادا کرتا ہے۔ سوال اگرچہ یہ بھی اٹھتا ہے کہ کونسی جنگ میں میڈیا اور اس سے قبل پراپیگنڈے کے دوسرے ذرائع کا کردار اہم نہیں ہوا کرتا تھا۔ پہلی جنگ عظیم ہوئی تو انگریزوں نے اپنے مقبوضہ برصغیر میں ”وارپبلسٹی ڈیپارٹمنٹ“ بنایا۔ مسلمانوں کی اکثریت کو یہ فکر لاحق تھی کہ ان کی ہر دلعزیز ”خلافتِ عثمانیہ“ بھی اس جنگ کا نشانہ ہے۔ مسلمانوں کو لہٰذا اس جنگ میں برطانوی سامراج کا ساتھ نہیں دینا چاہیے۔ اس ضمن میں اس کی فوج میں بھرتی کے خلاف فتوے بھی جاری ہوئے۔ مولانا محمد علی جوہر کی تحریکِ خلافت چلی۔ کئی سادہ لوح مسلمانوں نے انگریزوں کے زیر نگیں علاقوں کو ”دارالحرب“ سمجھتے ہوئے افغانستان کو ہجرت کرنے کی ٹھان لی۔

مذہبی جذبات کی بنیاد پر دہکائی آگ کو بجھانے کے لئے ”وار پبلسٹی ڈیپارٹمنٹ“ نے اہم کردار ادا کیا تھا۔ بعدازاں اسی محکمے نے دلی سے ریڈیو نشریات کا آغاز کیا۔ برطانوی حکومت کے پراپیگنڈے کو افغانستان تک پہنچانے کے لئے پشاور کو مرکز بنایا گیا۔”شاہنامہ اسلام“ لکھنے والے حفیظ جالندھری جنہیں بعدازاں پاکستان کا قومی ترانہ لکھنے کا اعزاز بھی حاصل ہوا، ”میں تو چھورے کو (برطانوی فوج) میں بھرتی کرا آئی رے“ جیسے ”ملی نغمات“ لکھتے رہے۔ دوسری جنگِ عظیم چھڑی تو ”انقلابی“ فیض احمد فیض بھی فوج کے شعبہ اطلاعات عامہ کے کرنل ہوگئے۔

میرے بچپن میں 65ء کی جنگ ہوئی تھی۔ ریڈیو پاکستان نے اس جنگ میں دفاع پاکستان کو ناقابلِ تسخیر دکھانے میں اہم کردار ادا کیا تھا۔ صوفی تبسم ہر وقت وہاں موجود تھے۔ ملکہ ترنم نور جہاں بلیک آﺅٹ کے اندھیروں میں ”میریا ڈھول سپاہیا“سے ہمارے جذبات گرماتی رہتیں۔ میرے محلے کے سب بزرگوں کو یقین تھا کہ ”سبز پوش“ لاہور کو محفوظ رکھنے کے لئے فضاﺅں میں تیر رہے ہیں۔ بموں کو زمین پر گرنے سے پہلے ہی انہیں اچک کر ناکارہ بنادیتے ہیں۔1971کی جنگ میں اگرچہ ان کا ذکر نہیں ہوا۔

بہرحال 5-Gجنگ میں شاید میڈیا کا کردار مزید اہم ہوگیا ہوگا اور اس اہمیت کو ذہن میں رکھتے ہوئے میجر جنرل غفور صاحب صحافیوں کو یہ سمجھاتے رہے کہ بھارتی میڈیا میں کوئی خبر چھپ جائے تو اسے فوراً ری پروڈیوس یا شیئر کرکے دانستہ یا نادانستہ انداز میں قابلِ اعتبار نہ بنائیں۔ صبرواحتیاط سے کام لیں۔

جنرل صاحب کا حکم سرآنکھوں پر۔ میری بدقسمتی مگر یہ ہے کہ اتوار کی صبح میرے صحافتی کام کا آغاز ہوجاتا ہے۔ پیر کے اخبار میں چھپنے والے کالم کو میں زیادہ سے زیادہ صبح گیارہ بجے تک ختم کرنے پرمجبور ہوتا ہوں۔ یہ کالم لکھنے بیٹھا تو خاموش کئے فون پر Blinkشروع ہوگئی۔ سوچا کہ شاید کوئی ضروری فون ہوگا۔چیک کرنے کو مجبور ہوا۔ مسڈ کال کے بجائے مگر ایک ای میل تھی۔ بھارتی اخبار ”انڈین ایکسپریس“ میں چھپی ایک خبر کا تذکرہ تھا۔ مزید تصدیق کے لئے اس اخبار کی ویب سائٹ پر جانا پڑا۔ ٹویٹرپر بھی مذکورہ خبر کا بہت چرچا تھا۔ کئی بڑے نام والے معتبر بھارتی صحافی اسے “Biggest Scoop”بتاکر آرٹی کررہے تھے۔

کل وقتی رپورٹنگ سے عرصہ ہوا ریٹائر ہوچکا ہوں۔ جن لوگوں سے ”حساس“ خبروں کی تصدیق حاصل کرنا ہوتی ہے ان کے نام اور فون نمبر تک معلوم نہیں۔ سوچا گول کر جاﺅں۔ اس “NRO”کی بابت دانشوری سے کام چلاﺅں جو سنا ہے کہ سعودی حکومت کی کاوشوں سے ایک بار پھر شریف خاندان کو فراہم کرنے کی تیاری ہورہی ہے۔ شاید اسی خاطر شہباز صاحب کو گزشتہ ہفتے لاہور سے لے کر حجازمقدس پہنچانے سعودی حکومت نے ایک خصوصی طیارہ بھیجا تھا۔ وہ اس دن کے بعد سے اسی ملک میں موجود ہیں۔ ہفتے کی شام نواز شریف صاحب بھی سعودی عرب چلے گئے۔ سپریم کورٹ کے ہاتھوں نااہل ہوئے وزیر اعظم کو لیکن ایک کمرشل پروازکے ذریعے جانا پڑا۔ دونوں بھائیوں میں فرق صاف ظاہر ہوگیا۔ ”چھوٹے“ کے لئے خصوصی جہاز آتا ہے۔ بڑے کے نصیب میں اب ایک عوامی کمرشل فلائٹ۔ اس طرح تو ہوتا ہے اس طرح کے کاموں میں ۔ سردیوں کی شامیں ویسے بھی بہت اداس ہوچکی ہیں۔ ان کی نازل کردہ تنہائی بہت تکلیف دہ ہوتی ہے۔”NRO”کی کہانی مگر میرے شک وشبہات سے بھرے دل میں جا ءنہیں کرپائی ہے۔ ذہن عقل کا غلام ہوچکا ہے۔ ”حیف ہے اس قوم پر….“پکارنے والے سپریم کورٹ سے ”گاڈفادر“ کو “NRO”دلوانا ناممکن نظر آرہا ہے۔

شہباز شریف کے ساتھ بھی ”نماز بخشوانے گئے تو روزے گلے پڑگئے“ والا معاملہ ہوسکتا ہے۔ کینیڈا سے آئے ”شیخ السلام“ نے بالآخر تحریک انصاف اور پیپلز پارٹی کو اپنے دائیںاور بائیں بٹھالیا ہے۔” سب پہ بھاری“ کو اب راولپنڈی کی لال حویلی سے اٹھے بقراطِ عصر کی فراست سے رجوع کرنا پڑرہا ہے۔ بہت منت سماجت کے بعد قومی اسمبلی میں ایک نشست والے یہ بقراط عمران خان اورآصف علی زرداری کو ایک ہفتے کی مہلت دینے پر آمادہ ہوئے تاکہ وہ اپنی سپاہ کو کینیڈا سے آئے شیخ السلام کی قیادت میںشریفوںکو آخری دھکا دینے کے لئے تیار کرسکیں۔

”انڈین ایکسپریس“ میں چھپی خبر لیکن مجھے پریشان کئے ہوئے ہے۔ خوف یہ بھی لاحق ہے کہ اگرمیں اپنی کوئی رائے دئیے بغیر اس کا محض ذکر ہی کردوں تو 5-Gکے اصولوں کے مطابق کہیں اپنے ازلی دشمن کی جانب سے پھیلائی غلط اور بے بنیاد خبر کو معتبر گردانتے ہوئے اپنے لوگوں کو گمراہ کرنے کا مرتکب تو قرار نہیں پاﺅں گا۔

پنجابی کا لفظ ”بھمبل بھوسا“۔ اس کا شکار ہوا میرا ذہن یاد رکھے ہوئے ہے تو صرف اتنا کہ بدھ کی شام ٹی وی ٹِکروں کے ذریعے اطلاع ملتی رہی کہ پاکستان کے مشیر برائے امورِ قومی سلامتی،جنرل ناصر جنجوعہ صاحب نے رائے ونڈکے جاتی امراءمیں سپریم کورٹ کے ہاتھوں نااہل ٹھہرائے وزیر اعظم سے پانچ گھنٹوں تک پھیلی ایک طویل ملاقات کی تھی۔

اس ملاقات کی خبر لیک کرنے والوں نے بہت مہارت سے سمجھایا یہ بھی تھا کہ ”عسکری قیادت کے قریبی“ جنجوعہ صاحب نے نواز شریف کو ”طوطیا من موتیا….“ جیسی باتیں سنائیں۔ اس ملاقات میں اگرچہ انگریزی اخباروں کے رپورٹروں کو مہیا کئے Quotesکے مطابق نواز شریف صاحب ”ہمسایہ ممالک“ سے تعلقات پُر امن اور بہتر بنانے کی خواہش کا اظہار کررہے ہیں۔

مجھے خبر نہیں کہ جنجوعہ صاحب کی یہ ملاقات ہوئی بھی یا نہیں اور اگر ہوئی توکس کی خواہش یا حکم پر ہوئی ۔ فی الوقت اہم سوال یہ بھی ہے کہ کیا وہ اس مبینہ ملاقات کے لئے اسلام آباد سے لاہور پہنچے یا کسی غیر ملک،مثال کے طورپر تھائی لینڈ،سے لاہور ایئرپورٹ اترکر اسلام آباد روانہ ہونے لگے تو ذہن میں خیال آیا کہ نواز شریف صاحب سے بھی ہیلو ہائے کرلی جائے۔آخر کو نواز شریف صاحب ان کے ”باس“ رہے ہیں۔ رسم دنیا ہوا کرتی ہے۔ ”موقعہ“ مگر کیا ہوا؟یہ کم از کم مجھ ایسے دو ٹکے کے رپورٹر کوبتانے کے لئے کوئی تیار نہیں ہوگا۔ میری ”اوقات“ تو یہ ہے کہ پورا کالم لکھ دیا اور یہ بتانے کی جرا¿ت نہ کر پایا کہ اتوار کی صبح بھارت کے ”انڈین ایکسپریس“ میں کیا خبر چھی ہے جس نے سوشل میڈیا پر بہت ہلچل مچارکھی ہے۔ آپ سے رخصت طلب کرنے سے قبل جان کی امان پاتے ہوئے اطلاع یہ دیتا چلوں کہ مذکورہ خبر جنرل جنجوعہ کے بارے میں ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).