مجرم ہجوم کی نفسیات


دل تو نہیں چاہتا کہ ان واقعات کو دہراؤں کہ جن کو لکھتے ہوئے میرا قلم کانپنے لگے اور میرے دل کی دھڑکن رکنے لگے مگر لکھنا بھی ضروری ہے۔ یہ واقعہ 15 اگست 2010 کا ہے جب سیالکوٹ کے گاؤں بٹار میں سترہ سالہ معز اور پندرہ سالہ منیب (جو دو سگے بھائی تھے) کے لرزہ خیز قتل کی واردات کا ارتکاب ہوتا ہے۔ ان کو مشتعل افراد، بھرے ہجوم کے سامنے مار مار کر بالآخر قتل کر دیتے ہیں۔ اس دوران ہجوم وڈیو بنا رہا ہے اور پولیس بے بس کھڑی ہے۔

دوسرا واقعہ افغانستان کے شہر کابل میں پیش آیا۔ بتاریخ 19 مارچ 2015 کو جب ایک پڑھی لکھی، سوشل ایکٹیوسٹ ستائیس سالہ فرخندہ ملک زادہ کو بھرے مجمع کے سامنے مشتعل افراد نے ڈنڈوں، پتھروں سے مار مار کر قتل کر دیا۔ پھر اس پر کار چلائی گئی اور یہی نہیں پھر اس کی لاش کو جلایا گیا اور اس کے بعد سوختہ لاش کودریا برد کر دیا گیا۔ اس پر الزام تھا کہ اس نے قرآن کے صفحات جلائے تھے۔ بعد میں یہ الزام یکسر غلط ثابت ہوا۔

13 اپریل 2017 میں ذھین نوجوان مشال خان کے ساتھ جو کچھ ہوا وہ بھلا ہمارے حافظے سے بھلا کیسے محو ہو سکتا ہے؟ اس کو بھی شقی القلبی سے ہجوم کے سامنے قتل کر دیا گیا۔ اس پر لگایا الزام بھی غلط ثابت ہوا۔ ہجوم اس موقع پر بھی وڈیو بناتا رہا۔ ان تمام لرزہ خیز وارداتوں میں ماضی میں ایک قسم کی واردات کے زخم کو دوبارہ ہرا کر دیا ہے۔ جو آج بھی میرے وجود میں کہیں رس رہا ہے۔ 18 سال قبل ہونے والے اس واقعہ کی، جس کی میں عینی شاہد ہوں آپ کے گوش گزار ہے۔

افغان عورتوں نے فرخندہ ملک زادہ کا جنازہ خود اٹھایا

کراچی میں نسلی اور صوبائی فسادات کی آگ نے سارے شہر کو اپنی لپیٹ میں لے لیا تھا۔ شہر میں جزوی کرفیو لگ چکا تھا۔ میں ایک منی بس کے اگلے حصے میں تمام مسافروں کی طرح خوفزدہ اور سراسمیگی کے عالم میں بیٹھی گھر پہنچنے کی منتظر تھی۔ ہم سبھوں میں سب سے زیادہ بہادر نوجوان ڈرائیور تھا۔ جو راستے میں نفرتوں کی لگائی آگ اور مشتعل ہجوم کی جلائی گاڑیوں کے شعلوں سے کسی نہ کسی طرح بچتا بچاتا، مسافروں کو محفوظ مقامات پر اتارتا جا رہا تھا اور ساتھ ہی اپنے غیر مقامی لہجے میں دلاسے دے رہا تھا۔ تم فکر نہ کرو، ہم سب کو حفاظت سے پہنچائے گا۔

تاہم فیڈرل بی ایریا، یاسین آباد کے علاقے میں ہمارا یہ حوصلہ مند ڈرائیور ایک مشتعل ہجوم کے سامنے بے بس ہوگیا۔ گاڑی روکو، گروہ نے بندوقوں کی بٹ سے وحشیانہ طاقت لگاتے ہوئے گاڑی روک کر بے رحمی سے ڈرائیور کی سیٹ سے کھینچ کر نکالتے ہوئے ماں بہن کی ننگی گالیوں کی بوچھاڑ کر دی۔ وہ کہ جس کی ماں شاید کسی دور دراز گاؤں میں بیٹھی اپنے جگر گوشے کی سلامتی کی دعا مانگ رہی ہو گی۔ ’’حرامزادے۔ تیری ماں۔ ۔ تیرے ہی بھائی بندوں نے۔ ہمارے لوگوں کو مارا ہے۔ ‘‘یہ کہتے ہوئے وہ سب ایک بپھرے ہوئے جانوروں کی طرح اس نہتے شیر پہ ٹوٹ پڑے۔ بندوقوں کے بٹوں، لاتوں، گھونسوں اور ڈنڈوں سے میں نے ان کی آنکھوں میں بے رحمی اور شدید نفرت کی آگ رقصاں دیکھی۔ خوفزدہ مسافروں کا ہجوم خموشی سے اپنے گھروں کی جانب رواں تھا۔

میں ہسٹیریکل انداز میں چیخ رہی تھی۔ اسے مت مارو یہ تو ہمیں حفاظت سے گھر پہنچا رہا تھا۔ میں ان بے رحم وحشیوں سے رحم کی بھیک مانگ رہی تھی۔ صدمہ سے میرے حلق میں آواز بیٹھنے لگی۔ اور نمکین آنسوؤں کا ریلہ بے قابو ہو کر میرے چہرے کو تر کر رہا تھا۔ تب میری دوست مجھے گھر کی جانب گھسیٹتی ہوئی لے جانے لگی۔ ’’پاگل ہو گئی ہو؟ جلدی چلو یہاں سے۔ ‘‘۔ اس وقت آسب زدہ شہر میں گولیوں کی ٹھائیں ٹھائیں، فضا میں بارود کی بو اور موت کا رقص زوروں پر تھا۔ میں کسی ہارے ہوئے جواری کی مانند بے بس اور غمزدہ گھر پہنچ گئی تھی۔ اگلی صبح اخبار میں دو تین سطروں کی مختصر خبر تھی۔ ’’ یاسین آباد کے علاقے میں مشتعل ہجوم نے منی بس کے ڈرائیور کو بندوق کی بٹوں سے مار مار کر نیم مردہ حالت میں لاش کو جلا دیا۔ مسخ شدہ لاش کی شناخت نہ ہو سکی‘‘۔

مشال خان کا جنازہ اٹھانے ان کے ساتھی قریبی دیہات سے آئے

ان تمام واقعات کا جتنا بھی ماتم ہو وہ کم ہے۔ لیکن میں نے جس مقصد سے قلم اٹھایا ہے۔ اس کی بنیادی وجہ اس ہجوم کی نفسیات کا مشاہدہ ہے۔ کہ جس کی خاموشی نے اس کے اثبات پر مہر لگا کر اس کریہہ عمل کی اجازت دی۔ آخر یہ مجمع ساکت کیوں رہا اور کوئی صدائے احتجاج کیوں نہ بلند ہوئی۔ دیکھا جائے تواجتماعی درندگی کا مظاہرہ اپنی نوعیت کا کوئی انہونا عمل نہیں۔ انسانی تاریخ ابتدائے آفرینش ہی سے اس قسم کے خونی ان گنت واقعات سے رنگین ہے۔
ہمیں اس عہد کی تاریخ لکھتے شرم آئے گی
جہاں خونِ مسیحا، دامنِ بیمار پہ چمکے

ہزاروں سال قبل رومیوں کی سلطنت میں قائم ہونے والے اولمپک مقابلوں کا پسندیدہ کھیل سب سے بہادر انسان اور خونخوار جانور کے درمیان ہوتا تھا۔ کہ جس میں شکست یا فتح کا مطلب انسانی جان کی قربانی بھی ہو سکتا تھا۔ اس خونی ڈرامہ کو ہزاروں خاص و عام کا مجمع بہت ذوق و شوق سے تالیاں پیٹ کر دیکھتا تھا۔ خود اسلامی تاریخ بھی خونچکاں واقعات سے رقم ہے کہ جس میں جس میں مظلومیت سر برھنہ کھڑی ہے۔ کہ جس کی انتہا داستانِ کربلا ہے۔ جس میں رسول زادوں کے سر نیزوں پر برھنہ تھے اور مخالفین میں ڈھول تاشے سے فتح مندی کا جشن منایا جا رہا تھا۔
یورپ میں جرمن نازیوں کا یہودیوں اور دوسری اقلیتوں کو پست نسل قرار دینے کے بعد ہولو کاسٹ کی قیامت برپا کرنا، امریکہ میں نسلی فسادات، پاکستان میں اجتماعی زنا کے واقعات وغیرہ، ایسے ہی جرائم کی تو کڑیاں ہیں جو بھرے مجمع میں انجام دیے گئے۔ آخر اجتماعی درندگی میں ہجوم کی فکر، فرد کی فکر سے جدا کیوں ہوتی ہے؟

آسٹرین نیوروجسٹ سگمنڈ فرائیڈ (1939۔ 1856) کے نظریہ کے مطابق مجمع یا گروہ میں افراد کا رویہ انفرادی رویے سے مختلف ہوتا ہے۔ گروہ میں موجود افراد کے دماغ جب ایک دوسرے کے دماغ میں ضم ہو جاتے ہیں۔ تو وہ ایک مختلف فکر کو جنم دیتے ہیں۔ اسی طرح مشہور نفسیات دان گیسٹو لی بون (1931۔ 1841)نے اپنی مشہور زمانہ کتاب، ڈی اسٹڈی آف دی پاپولر مائنڈ، میں لکھا ہے کہ ہر چند کہ مجمع کی سوچ اس کی انفرادی سوچ کی آئینہ دار ہوتی ہے۔ تاہم جب اسی قوم کے افراد مجتمع ہو کر کسی خاص عمل کی انجام دہی کریں تو اکھٹا ہونے سے ان کے نفسیاتی خدوخال کچھ اور ہی شکل اختیار کر لیتے ہیں۔ جو اس قوم کے مخصوص خواص میں اضافہ کا سبب بنتے ہیں۔

برطانوی نیوروسرجن ولفریڈ بیٹر لوئیس ٹرونر (1938۔ 1872)کا بیشتر کام ریوڑ کی جبلت کی نفسیات پر تھا۔ یعنی مویشیوں کے ریوڑ یا گروپ کس طرح بغیر کسی منظم سمت کے بھی ایک ساتھ عمل کرتے ہیں۔ یہ عمل انفرادی جانور کے عمل سے مختلف ہوتا ہے۔ یہ وہی رویہ ہے جو جانوروں کے علاوہ انسانوں میں اسٹاک مارکیٹ کی خرید و فروخت کے وقت، سڑکوں پہ مظاہرے، مذہبی یا ثقافتی تقاریب، پرتشدد لسانی یا مذہبی اجتماعات میں دیکھا جا سکتا ہے۔

ایڈورڈ ڈیبر نے انسانی نفسیات کے ان خواص کو بروئے کار لاتے ہوئے بیسویں صدی میں صنعتی انقلاب پیدا کر دیا۔ اس نے ہجوم کی نفسیات سے آگہی کے بعد عوامی ذہنوں سے کھیلنے یا (manipulate) کرنے کا گر سیکھ لیا۔ جس نے مغربی معاشرے میں اعتدال سے بڑھتی ہوئی غیر ضروری خریداری سے لے کر عورتوں میں سگریٹ کے استعمال تک محض خواہشات کا غلام بنانے میں اہم کردار ادا کیا

ہجوم یا اجتماع میں انفرادی ذھانت کمزور ہو کر اس پر اکثریت کی سوچ کا اثر غالب آ جاتا ہے۔ ایسا کیوں ہوتا ہے؟ اس کے لیے ہمیں مجمع کے خواص کو دیکھنا ہو گا۔ چند خواص مثلا تعداد، جذبات پر قابو پانے کی طاقت اور ان پر عمل ہے جو وبائی شکل اختیار کر لیتے ہیں۔ اور فرد واحد اپنے ذاتی منافع کو تج کر اکثریت کے مفاد کا غلام بن جاتا ہے۔ اس طرح کہ جیسے ایک غیر مرئی قوت اس کو اپنے اثر کے تحت زیر کر رہی ہو۔ یوں وہ ہپنا ٹائزڈ ہو کر اپنی فکری طاقت مجمع کو دان کر دیتا ہے۔ اور اس کے احکامات اور منشا کا تابع ہو جاتا ہے۔

یہاں وہ عوامل اہم ہیں کہ جو مجمع کے عقائد اور آرا پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ کہ جن میں سماجی روایات، نسل، سیاسی اور سماجی ادارے، مجمع کی اخلاقی اور جذباتی کیفیت اورتعلیم کی شرح اور وقت وغیرہ ہیں۔ تبدیلی کا عمل سست رفتاری سے ہوتا ہے۔ پاکستان کے قبائلی اور جاگیردارانہ نظام سے جڑی روایات مروج رسومات اور قیود اس کیمثالیں ہیں۔

وقت بھی اہم ہے کہ جو سست رفتاری سے ہی سہی ریخت کے عمل سے مٹی کے تودوں اور چوٹیوں کو مسمار کر دیتا ہے۔ اور یہ وقت ہی ہے جو سوچ اور عقائد کی بنیاد پر ذہنوں کی ایسی تخلیق کرتا ہے جس پر حسبِ منشا آبیاری کی جا سکے۔ اسی طرح سماجی اور سیاسی ادارے اور ملکی شرح خواندگی کا تناسب بھی اہم کردار ادا کرتا ہے کہ جو ذہنی سوچ کی تشکیل میں معاونت کرتا ہے۔
ہجوم کی اخلاقی کیفیت بھی بہت اہم ہے جو ان افراد کے مقابلہ میں کم یا زیادہ ہو سکتی ہے کہ جنہوں نے ہجوم تشکیل دیا ہے۔ انسان کا فطری رجحان عموما انفرادی طور پر مکمل اظہار سے قاصر ہوتا ہے۔ لہذا وہ کام جو ہم انفرادی طور پر انجام نہیں دے پاتے، ہجوم میں آزادی سے کر گزرتے ہیں۔

مثلا تقسیمِ ہند کے وقت قتل و غارت اور زناکاری کا مظاہرہ یا سقوطِ ڈھاکہ کے وقت فوجیوں کے ہاتھوں بہیمانہ انداز میں عورتوں کی عصمتیں لوٹنے کی وارداتیں۔ ان تمام کریہہ اعمال کی انجام دہی انفرادی طور پر اتنی آسان نہ تھی کہ جب انسان اپنے اندر کے وحشی جانور کو باندھنے کا پابند محسوس کرتا ہے۔ مجمع میں یہی درندگی بظاہر فخریہ طور پر قائدانہ فریضہ گردانی جاتی ہے کہ جس کا مظاہرہ ہم نے مشال، فاخرہ اور منیب و مغیز کے قتل میں دیکھا۔

جہاں ہجوم نے قانونی اداروں کی ناکامی میں قانون کی ذمہ داری کو اپنے ہاتھوں میں لے کر مجرم کو کیفر ِکردار تک پہنچانے کی قائدانہ ذمہ داری لی۔ اور پورے ہجوم نے لاشعوری طور پر اخلاقیات کا درس بھلا کر اپنی دم سادھے عقلوں کو مجرموں کے حوالے کر دیا۔

اس طرح ان کے جذبات خود اپنے نہیں بلکہ ہجوم کے لیڈران کی آواز بن گئے۔ واضح ہو کہ اجتماعی جذبات کا اہم تعلق جلد بازی، شدت پسندی، غیر منطقی رویے، رواداری کے فقدان اور آمرانہ رویہ سے ہے۔ غور کریں تو یہ تمام خواص ان مجمعوں میں بدرجہ اتم موجود تھے۔ لاشوں کو جلانا، لٹکانا وغیرہ آمرانہ رویے کی دلیل ہے۔ اس ظالمانہ عمل کا براہ ِ راست تعلق پاکستان اور افغانستان کے آمرانہ اور جاہلانہ نظام سے ہے جو عوامی سطح پر سکون قائم کرنے میں ناکام رہا ہے۔ البتہ ہجوم مثبت اور منفی دونوں ہی قسم کی تبدیلیوں کا مظہر بن سکتا ہے۔ دنیا میں لائے گئے عظیم انقلابات ایسے ہی ہجوم کی کاوشوں کا مظہر ہیں۔ کہ جہاں عوام کی آواز کی طاقت یکجہتی کا باعث تھی۔ جس کا مظاہرہ ہم نے 2005 کے پاکستان میں آئے زلزلے اور 1965 کی پاک بھارت جنگ کے دوران دیکھا۔

یہ ضروری ہے کہ ہمارے نظام میں طبقاتی تفریق کم، سماجی حالات اور خواندگی کی شرح میں بہتری ہو۔ اس کے علاوہ قوانین کی بالادستی، اقلیتوں، عورتوں اور بچوں کے حقوق کا احترام، غربت کا خاتمہ اور جمہوری اداروں کی بالادستی ہو۔ اگر ایسا نہ ہو گا تو انارکی کا غلبہ طاری رہے گا۔ اور ان واقعات سے مشابہہ واقعات جنم لیتے رہیں گے۔ اور یہ کام فردِ واحد کا نہیں۔ اس کے لئے اجتماعی فکر و تدبر ضروری ہے۔

اشاعت اول: Jan 4, 2018 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).