کیا قاتل کو سزائے موت دینا سماج میں بہتری لاتا ہے؟


بخشؔ لائلپوری کا شعر ہے
ہمارا شہر تو چھوٹا ہے لیکن
ہمارے شہر کا مقتل بڑا ہے

آج سے اٹھارہ برس قبل ایک شام کینیڈا کی ٹی وی کی خبروں میں میں نے دیکھا کہ لاہور کی ایک عدالت میں جاوید اقبال مغل نے اعترافِ جرم کیا ہے کہ اس نے سو بچوں کا قتل کیا ہے اور ایک جج نے یہ حیرت انگیز فیصلہ سنایا ہے کہ نہ صرف جاوید اقبال مغل کو مینارِ پاکستان کے سامنے سولی پر چڑھایا جائے بلکہ اس کی لاش کے سو ٹکڑے کیے جائیں اور ان ٹکڑوں کو اسی تیزاب کے ڈرم میں ڈالا جائے جس میں وہ بچوں کو ڈالتا تھا۔

مجھے وہ خبر دیکھ کر اپنے آنکھوں پر یقین نہ آیا اور میرے اندر کا سویا ہوا ماہرِ نفسیات انگڑائی لے کر جاگ گیا۔ میں نے اپنے بزرگ وکیل دوست عابد حسن منٹو کو لاہور فون کیا اور ان سے پوچھا کہ کیا وہ میری مدد کر سکتے ہیں کہ میں ایک ماہرِ نفسیات کے طور پر جاوید اقبال مغل کا انٹرویو کروں۔ منٹو صاحب نے بڑی محبت اور شفقت سے کہا ’ڈاکٹر صاحب آپ لاہور تشریف لے آئیں میں آپ کی مدد کرنے کی پوری کوشش کروں گا‘۔ منٹو صاحب مجھے اپنے شاگرد وزیر خالد رانجھا کے پاس لے گئے جنہوں نے میرے پروجیکٹ میں میری مدد کی۔ میں نے نہ صرف جاوید اقبال مغل کا پھانسی گھاٹ میں انٹرویو لیا بلکہ اس کے گھر جا کر اس کے بھائیوں، بھتیجوں اور ہمسایوں کے انٹرویو بھی لیے اور سیریل کلرز کی نفسیات پر ایک انگریزی میں کتاب لکھی جس کا اردو ترجمہ بعد میں لاہور کے ’مشعل پبلشرز‘ نے ’اپنا قاتل‘ کے نام سے چھاپا۔

آج کے مہذب دور میں ہم سب کے لیے ایک اہم سوال یہ ہے کہ کیا سزائے موت انسانی حقوق کی خلاف ورزی کرتی ہے؟
انسانی تاریخ میں ایک ایسا دور بھی تھا جب قاتلوں اور مجرموں کو برسرِ عام سنگسار کیا جاتا تھا،سولی پر لٹکایا جاتا تھا اور ان کی لاش کی بے حرمتی بھی کی جاتی تھی۔ آج کے مہذب انسان اس روایت سے بہت آگے نکل آئے ہیں۔

اکیسویں صدی میں انسانی حقوق کا احترام کرنے والے یہ سمجھتے ہیں کہ انسانوں کو انفرادی یا اجتماعی طور پر کسی اور انسان کی جان لینے کا کوئی حق نہیں ہے۔ اگر ایک انسان دوسرے انسان کو قتل کر دیتا ہے اور پھر حکومت یا عدالت یا روایت اس قاتل کو قتل کرنے کا فیصلہ کرتی ہے تو وہ اجتماعی طور پر اسی جرم کی مرتکب ہو رہی ہوتی ہے جس کا وہ قاتل مرتکب ہوا تھا۔
ایک وہ زمانہ تھا جب دنیا میں محفوظ جیلیں نہیں ہوتی تھیں اور قاتلوں اور مجرموں سے معاشرے کے معصوم شہریوں کو نہیں بچایا جا سکتا تھا لیکن اب حالات بدل چکے ہیں۔

جو لوگ سزائے موت کے حق میں ہیں ان کا موقف ہے کہ قاتل کو بر سرِ عام سزا دینے سے دوسرے لوگوں کو عبرت ہوگی اور معاشرے میں قاتلوں کی تعداد میں کمی ہوگی لیکن محققین اس موقف سے متفق نہیں ہیں بلکہ بعض ماہریںِ سماجیات یہ سمجھتے ہیں کہ تشدد کو برسرِ عام کرنے اور دکھانے سے تشدد اور بڑھتا ہے اور کچھ لوگ جو بیمارانہ ذہنیت رکھتے ہیں وہ مشہور ہونے کے لیے یا قتل کرتے ہیں اور یا قتل کیے بغیر اس کا اعتراف کر لیتے ہیں۔ جاوید اقبال مغل نے بھی مشہور ہونے کے لیے بہت سے جھوٹے اعتراف کیے تھے۔ اب تو کینیڈا کے ماہرین یہ مشورہ دے رہے ہیں کہ سیریل کلرز کی ٹی وی پر تصویریں بھی نہ دکھائی جاتیں تا کہ نوجوانوں کو مشہور ہونے کے لیے کہیں قتل کی ترغیب نہ ہو۔

جو لوگ سزائے موت کے خلاف ہیں ان کا کہنا ہے کہ کوئی عدالت کتنی بھی کوشش کرے وہ مثالی نہیں ہو سکتی۔ بہترین عدالت سے بھی غلطیاں ہو سکتی ہیں۔ لوگ جھوٹی شہادتیں دے سکتے ہیں اور ایک معصوم شخص کو سزائے موت ہو سکتی ہے۔ امریکہ کی ایسی بیسیوں مثالوں میں سے ایک مشہورِ زمانہ اور بدنام مثال ٹموتھی جان ایوانز کی تھی جسے 1950 میں سولی پر چڑھا دیا گیا تھا اور اس کی موت کے بعد یہ راز فاش ہوا تھا کہ اصل قاتل وہ نہیں تھا بلکہ اس کا ہمسایہ تھا۔

سزائے موت کے خلاف ایک نفسیاتی دلیل یہ ہے کہ سزائے موت کے پیچھے اور جذبوں کے ساتھ ساتھ بدلہ لینے کا جذبہ بھی کارفرما ہوتا ہے جو ایک نیک جذبہ نہیں ہے اور بدلہ لینے سے مقتول بھی تو واپس نہیں آتا۔ بعض انسان دوست ماہرین کا خیال ہے کہ قاتلوں اور مجرموں کو سزائے موت دینے کی بجائے ان کا نفسیاتی مطالعہ کرنا چاہیے تا کہ ہم تحقیق کر سکیں اور آئندہ کے قاتلوں کی روک تھام کر سکیں۔

بعض ماہرین کا کہنا ہے کہ ایک مہذب معاشرے کا قاتلوں اور مجرموں کے بارے میں رویہ ظالمانہ اور بدلہ لینے کا نہیں بلکہ اصلاح کرنے کا اور ہمدردانہ ہونا چاہیے۔ ان کا کہنا ہے کہ قتل کا مجرم صرف ایک شخص نہیں ہوتا اس کے جرم میں اس کا خاندان اور اس کا معاشرہ بھی شامل ہوتا ہے۔ انگریزی کا ایک قول ہے۔
IT TAKES THE WHOLE VILLAGE TO RAISE A CHILD
ایک شخص کو سولی پر چڑھا کر ہم اپنے ضمیر کو تسلی دے دیتے ہیں کہ خس کم جہاں پاک۔ جاوید اقبال مغل کی کتاب لکھتے وقت مجھے اس تکلیف دہ حقیقت کا اندازہ ہوا کہ پاکستان میں برسوں سے ہزاروں بچے لا پتہ ہیں وہ ایک دن سکول گئے اور پھر لوٹ کر نہ آئے اور ان کے والدین کی نہ ختم ہونے والی دکھ بھری تاریک رات شروع ہو گئی۔ وہ نہیں جانتے کہ ان کے بچے زندہ ہیں، مار دیے گئے ہیں، ان پر مظالم ڈھائے جا رہے ہیں یا انہیں سستے داموں بیچ دیا گیا ہے۔ کینیڈا میں والدین، اساتذہ، پرنسپل اور پولیس مل کر کام کرتے ہیں تاکہ بچے محفوظ رہیں۔

سکنڈے نیوین ممالک نے اب ایسی جیلیں بنائی ہیں جہاں مجرموں کے بارے میں رویہ ہمدردانہ ہے اور ان کو جیل میں ایک بہتر زندگی گزارنے کے مواقع فراہم کیے گئے ہیں۔ اس تبدیلی سے معاشرے میں مجرموں کی تعداد میں کمی آئی ہے۔ وہ سمجھ گئے ہیں کہ ہر جرم اور قتل ایک فرد کا نہیں پورے معاشرے کا مسئلہ ہے۔

ہم سب جانتے ہیں کہ بعض مجرموں نے جیل میں بیٹھ کر اہم کتابیں لکھی تھیں اور بعض نے معاشرے کے لیے بہت اہم رفاہی کام کیے تھے۔ اس کی ایک مثال امریکہ کے کالوں کے لیڈر سٹینلے ٹوکی ولیمز تھے جنہوں نے نوجوانی میں قتل کیا تھا۔ جیل میں جب انہیں اپنے نفسیاتی اور سماجی مسئلے کی شدت کا احساس ہوا تو انہوں نے نوجوانوں کے لیے عام فہم زبان میں کتابیں لکھنی شروع کیں جن میں کالے بچوں اور نوجوانوں کو بتایا گیا تھا کہ اگر وہ جرائم پیشہ زندگی گزاریں گے تو ایک دن جیل کی صعوبتیں برداشت کریں گے۔ ٹوکی ولیمز نے جیل سے لیکچر بھی دیے اور کالوں کے کئی دشمن گینگز کی صلح بھی کروائی۔ ٹوکی ولیمز کی سزائے موت کے خلاف ونی منڈیلا سمیت کئی انسانی حقوق کی حمایت کرنے والے رہنماؤں نے بھرپور کوشش کی لیکن حکومت نے کسی کی نہ سنی اور اسے 13 دسمبر 2005 میں ایک زہر آلود ٹیکہ دے کر جیل میں سزائے موت دی اور کالوں کی ایک شمع کو بجھا دیا۔

پچھلی صدی میں ایک سو سے زیادہ ممالک نے سزائے موت کو غیر قانونی اور غیر اخلاقی قرار دے دیا ہے۔ امید کی جا سکتی ہے کہ اگلی صدی میں ساری دنیا کی قومیں اور ممالک سزائے موت کے خلاف قانون پاس کر دیں گے تا کہ ہم یہ کہہ سکیں کہ اب کوئی انسان دوسرے انسان کو نہ قتل کرے گا نہ سولی پر چڑھائے گا اور نہ اسے زہر بھرا ٹیکہ لگائے گا۔ امریکہ کے بہت سے ڈاکٹروں نے مجرموں کو زہر بھرا ٹیکہ لگانے سے انکار کر دیا ہے۔ ان کا موقف ہے کہ ہم مسیحا ہیں قاتل نہیں ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ہمیں آج کے جلاد، چاہے وہ سر قلم کریں، پھانسی دیں، گولیاں ماریں یا زہر کا ٹیکہ دیں، زمانہِ جاہلیت کی یاد دلاتے ہیں۔

اس مضمون کے آخر میں میں صرف اتنا کہوں گا کہ ایمنیسٹی انٹرنیشنل جیسے مستند محترم اور معتبر ادارے کا موقف ہے کہ سزائے موت انسانی حقوق کی شدید خلاف ورزی کرتی ہے
AMNESTY INTERNATIONAL CONSIDERS CAPITAL PUNISHMENT TO BE THE ULTIMATE, IRREVERSIBLE DENIAL OF HUMAN RIGHTS
ایمنسٹی انٹرنیشنل کا یہ موقف ہم سب کے لیے لمحہِ فکریہ ہے۔

ڈاکٹر خالد سہیل

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ڈاکٹر خالد سہیل

ڈاکٹر خالد سہیل ایک ماہر نفسیات ہیں۔ وہ کینیڈا میں مقیم ہیں۔ ان کے مضمون میں کسی مریض کا کیس بیان کرنے سے پہلے نام تبدیل کیا جاتا ہے، اور مریض سے تحریری اجازت لی جاتی ہے۔

dr-khalid-sohail has 683 posts and counting.See all posts by dr-khalid-sohail