ماہر نجوم سٹیفن ہاکنگ سے مرعوب دیسی لبرل


چودہ مارچ 2018 کو ایک مشہور ماہر علم نجوم سٹیفن ہاکنگ کی وفات ہوئی ہے اور سوشل میڈیا پر ایک طوفان بدتمیزی برپا ہو گیا ہے۔ یہ صاحب معذور تھے اور پہیوں والی کرسی استعمال کرتے تھے۔ ہمارے پیر مولانا خادم رضوی کو محض اس مشابہت کی بنیاد پر بعض افراد نے نشانہ بنانا شروع کر دیا کہ وہ بھی ویسی ہی سی دیسی کرسی استعمال کرتے ہیں۔ یہ بدطینت ناقدین کہنے لگے کہ ولایت میں سٹیفن ہاکنگ پیدا ہوتے ہیں جو بہت بڑے عالم ہیں اور ہمارے ہاں پیر خادم رضوی پیدا ہوتے ہیں جن کی علمی خدمت محض اردو اور پنجابی زبان میں چند نئے الفاظ کو رواج دینے کی ہے۔ یہ تقابل صریحاً غلط ہے۔ اگر پیر صاحب سے تقابل کرنا ہی ہے تو کسی پوپ یا بشپ سے کرنا جائز ہے۔ اگر سٹیفن ہاکنگ سے تقابل کرنا مقصود ہے تو کسی دیسی ماہر نجوم سے کرنا روا ہو گا۔

ہم نے تیسری جماعت کے بعد سائنس نہیں پڑھی ہے لیکن ایسا نہیں ہے کہ ہم سائنس کا علم نہیں رکھتے۔ نہ صرف وہ کتاب اب تک ذہن پر نقش ہے، بلکہ ہم روزنامہ امت کے رنگین صفحات پر موجود سائنسی مضامین کے حافظ بھی ہیں۔ یوں باقاعدگی سے روزنامہ امت پڑھنے کی وجہ سے ہم کسی بھی چھوٹے بڑے سائنسی معاملے پر عالمانہ رائے دے سکتے ہیں۔

اب پہلے تو ہم سٹیفن ہاکنگ کے نجوم کے علم کا جائزہ لے لیں۔ سٹیفن ہاکنگ نے کیا بتایا ہے؟ ماضی کے چند واقعات کے بارے میں کچھ باتیں کی ہیں۔ ماضی کے بارے میں بتانا کون سی بڑی بات ہے؟ ماضی کا حال تو ہر ایک بتا سکتا ہے۔ ماہرین نجوم کا اصل کمال تو یہ ہوتا ہے کہ ستاروں کو دیکھ کر مستقبل کا حال بتا دیں۔ اور یہ حال بھی بس ایسا نہیں کہ اب مریخ برج جوزا میں داخل ہو رہا ہے اور قمر پر زحل کا سایہ ہے، یا یہ کہ سیارے ستارے سفر کر رہے ہیں اور کائنات پھیل رہی ہے۔ بلکہ ایسا کہ ماہر نجوم واضح طور پر چھوٹی سے چھوٹی بات بتا دے کہ آج کا دن اچھا ہو گا یا برا، سائل کس کام میں ہاتھ ڈالے اور کس سے اجتناب کرے، ریس میں کون سا گھوڑا جیتے گا، لاٹری میں کون سا نمبر نکلے گا، کس کرکٹ ٹیم پر جوا کھیلنا مفید رہے گا، وغیرہ وغیرہ۔ کیا اس انگریز ماہر نجوم سٹیفن ہاکنگ کی ایسی کوئی پیش گوئیاں موجود ہیں؟ بالکل بھی نہیں۔ پھر دیسی لبرل اسے کس وجہ سے سر پر اٹھائے پھرتے ہیں؟

یہ بھی یاد رہے کہ بڑا سائنسدان وہ ہوتا ہے جو کچھ ایجاد کرتا ہے۔ ہمارے دیسی لبرلوں کے ہیروز پر نظر ڈالیں تو ان کی بس باتیں ہی باتیں ہیں، ایک سوئی تک ان سے ایجاد نہیں ہو سکی۔ نہ تو پروفیسر ہود بھائی نے کوئی شے ایجاد کی ہے اور نہ ہی سٹیفن ہاکنگ نے۔ پھر یہ کاہے کے بڑے سائنسدان ہیں؟

اوپر ہم نے اپنی سائنس میں مہارت کا ذکر کیا ہے۔ لیکن جاننے والے جانتے ہیں کہ سائنس کے ساتھ ساتھ ہماری انگریزی زبان کی لیاقت بھی کم نہیں ہے۔ بلکہ بسا اوقات تو ہم کسی انگریز سے مخاطب ہوں تو وہ ہماری مسجع و مقفیٰ زبان سن کر اپنی کم علمی پر ایسا شرمندہ ہوتا ہے کہ کہنے لگتا ہے کہ یہ تو انگریزی لگتی ہی نہیں ہے، آپ ویسی انگریزی میں بات کریں جیسی میں ہم کرتے ہیں۔

ہم نے سٹیفن ہاکنگ کی اپنی سائٹ پر جا کر یہ سمجھنے کی کوشش کی کہ اسے کیوں اتنا مشہور کر دیا گیا ہے۔ ہمیں یہ علم ہوا کہ اس ماہر نجوم کے پاس ایک ایسا کمپیوٹر تھا جس کا وہ بٹن دباتا تھا تو وہ کمپیوٹر عالمانہ باتیں کرنے لگتا تھا۔ سننے والے یہ سمجھتے تھے کہ یہ باتیں سٹیفن ہاکنگ کر رہا ہے حالانکہ انگریزوں نے اس کے کمپیوٹر کی ہارڈ ڈسک میں یہ ساری معلومات جمع کر رکھیں تھیں۔ کمپیوٹر ظاہر ہے کہ ہارڈ ڈسک سے پڑھ کر سب کو سناتا ہو گا۔

چند افراد یہ اعتراض کریں گے کہ وہ کمپیوٹر انسانوں کی باتیں سن کر جواب کیسے دے دیتا تھا۔ دیکھیں یہ ٹیکنالوجی اب تو اتنی عام ہو گئی ہے کہ گوگل کی موبائل ایپلیکیشن بھی مارکیٹ میں آ گئی ہے جو انسانوں سے باتیں کر سکتی ہے۔ بلکہ آپ اس سے انگریزی میں کچھ کہیں تو وہ چینی میں وہ بات بول کر سنا سکتا ہے اور فارسی میں آپ کو سوال کا جواب بھی دے سکتا ہے۔ سوچیں کہ اگر ایک موبائل فون کی ایپلیکیشن یہ کر سکتی ہے تو ایک بڑا کمپیوٹر کیسی کیسی باتیں بنا سکتا ہو گا؟

سٹیفن ہاکنگ کی ویب سائٹ پر چند دوسری معلومات بھی موجود ہیں۔ آپ نے آئن سٹائن کے نظریہ اضافیت اور میکس پلانک کے کوانٹم فزکس کے نظریے کا نام شاید سن رکھا ہو۔ سٹیفن ہاکنگ نے بس ان دونوں نظریات کو اٹھایا اور اپنی کتاب میں اکٹھا لکھ دیا۔ مغرب سے مرعوب افراد اس پر یہ چرچا کرنے لگے کہ اس نے دونوں نظریات کو ملا کر بڑا کارنامہ کیا ہے۔ اس میں کیا بڑی بات ہے؟ ہم چاہیں تو ایسے تین چار نظریات اکٹھے کر کے خود بھی ایک مجموعہ ترتیب دے سکتے ہیں۔

سائٹ پر یہ بھی لکھا ہے کہ سٹیفن ہاکنگ نے انکشاف کیا ہے کہ آسمان موجود بلیک ہولز میں سے تابکاری نکلتی ہے۔ یہ بھی کوئی بڑی بات نہیں ہے۔ ہمارے دیسی ماہرین نجوم تو یہ بھی بتا دیتے ہیں کہ اجرام فلکی کی خوشی غمی کے انسانوں کی تقدیر پر کیا اثرات پڑتے ہیں۔ جہاں تک خلا میں تابکاری وغیرہ کی موجودگی کی بات ہے تو یہ بھی کوئی انکشاف نہیں۔ کئی سو سال پہلے ہی سائنسدان بتا چکے ہیں کہ خلا میں ایتھر ہوتا ہے جس میں یہ سارے اجسام فلکی تیر رہے ہیں۔ جب ایتھر ہو سکتا ہے تو تابکاری کا ہونا کون سی اچنبھے کی بات ہے؟

لیکن دیسی لبرلوں کو سب سے زیادہ یہ انکشاف شرمندہ کرے گا کہ سٹیفن ہاکنگ جس کرسی پر بیٹھتا تھا وہ ایک مذہبی عالم نے خرید کر دی تھی۔ یہ بات ہم اپنی طرف سے نہیں بنا رہے ہیں بلکہ سٹیفن ہاکنگ کی اپنی ویب سائٹ پر یہ اعتراف موجود ہے کہ سنہ 1979 سے لے کر 2009 تک سٹیفن ہاکنگ کیمبرج میں اس کرسی پر بیٹھتا رہا ہے جو 1663 میں مسیحی پادری ریورنڈ ہنری لوکس نے اپنی وراثت سے خرید کر کیمبرج یونیورسٹی کو دی تھی اور آج تک یہ کرسی اسی کے نام پر لوکاسین چیئر آف میتھمیٹکس کہلاتی ہے۔ سائٹ پر کرسی خریدنے کی بجائے کرسی کے ”قیام“ کا ذکر کیا گیا ہے، یعنی فاؤنڈڈ ۔ اس لفظ کے استعمال کی وجہ غالباً قرون وسطی کا متروک انگریزی محاورہ ہو گا۔ مغرب سے مرعوب دیسی لبرل یہ سن کر مزید پریشان ہوں گے کہ اسی کرسی کو آئزک نیوٹن بھی استعمال کیا کرتا تھا۔

تو صاحبو، بات یہ ہے کہ جس کمپیوٹرائزڈ کرسی کے بل پر سٹیفن ہاکنگ کو مشہور کیا گیا ہے، وہ تو خریدی ہی ایک مسیحی مذہبی عالم نے تھی۔ اس کو لے کر اب مذہبی علما سے ہی پوچھا جا رہا ہے کہ تم نے کیا کیا ہے، سٹیفن ہاکنگ نے تو یہ کیا ہے اور وہ کیا ہے۔ حالانکہ ہم دیکھ چکے ہیں کہ بطور ماہر علم نجوم سٹیفن ہاکنگ کی اپنی کوئی علمی صلاحیت نہیں تھی۔

اب چند ذی شعور افراد یہ پوچھیں گے کہ پھر سٹیفن ہاکنگ اتنا مشہور کیوں ہے؟ اس کی وجہ بھی انگریزی زبان کا کوئی بھی ماہر شخص اس کی ویب سائٹ پر موجود مواد سے اخذ کر سکتا ہے۔ نوٹ کریں کہ ہاکنگ نے اپنی دو کتابیں ”جنرل ریلیٹیوٹی: این آئن سٹائن سینٹینری سروے“ اور ”300 ائیرز آف گریویٹیشن“ اسرائیل کے ساتھ مل کر لکھی تھیں۔ سائٹ پر صاف صاف اسرائیل کا نام لکھا ہوا ہے۔ اب آپ جانتے ہی ہیں کہ دنیا بھر کے دجالی میڈیا کو اسرائیل کنٹرول کرتا ہے۔ اس میڈیا نے ہی سٹیفن ہاکنگ کو پچھلی صدی کا دوسرا جینئس سائنسدان بنا کر پیش کیا ہے۔ اب آپ پوچھیں گے کہ پہلا سائنسدان کون تھا؟ وہ ایک اور یہودی آئن سٹائن تھا۔ وہ بھی بس خواب و خیال کی باتیں کیا کرتا تھا۔ ایجاد اس نے بھی کچھ نہیں کیا۔

عدنان خان کاکڑ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عدنان خان کاکڑ

عدنان خان کاکڑ سنجیدہ طنز لکھنا پسند کرتے ہیں۔ کبھی کبھار مزاح پر بھی ہاتھ صاف کر جاتے ہیں۔ شاذ و نادر کوئی ایسی تحریر بھی لکھ جاتے ہیں جس میں ان کے الفاظ کا وہی مطلب ہوتا ہے جو پہلی نظر میں دکھائی دے رہا ہوتا ہے۔ Telegram: https://t.me/adnanwk2 Twitter: @adnanwk

adnan-khan-kakar has 1541 posts and counting.See all posts by adnan-khan-kakar