وسعت اللہ خان بتاتے ہیں کہ اب بڑے ادیب نایاب کیوں ہیں؟


وجاہت مسعود : 1935اور 36 ء بالکل ایک انفرادی وقت تھا ہمارے اردو ادب میں، اردو نثر میں، افسانہ ہے، ایسے لگتا ہے کہ جیسے راتوں رات ایک پوری کھیپ آگئی اور آگے بڑھا کام اس سے۔ کچھ ایسے احساس ہو رہا جیسے بیس پچیس برس سے، ہمارا جو تخلیقی ذہن تھا کیا اس نے اپنے ابلاغ کے لیے افسانے کو ایک طرف کر کے کالم میں اپنی انرجی دینا شروع کر دی ہے۔

وسعت االلہ خان : 1936 ء کی موومنٹ کے آپ جو نام دیکھیں جیسے میرا جی ہیں، منٹو صاحب ہیں،

وجاہت مسعود : راشد، فیض، کرشن چندر، چغتائی، بیدی۔

وسعت االلہ خان :یہ دیکھیں کہ یہ 1926 ء میں کیا کر رہے تھے اور 30 ء میں کیا کر رہے تھے۔ یہ لٹریچر پڑھ رہے تھے، یہ ترجمے کر رہے تھے۔ یہ علم کو گھول کے اندر ڈال رہے تھے۔ جذب کر رہے تھے۔ ہمیں یہ تو نظر آتا ہے کہ چالیس کی دہائی میں فیض صاحب کا یہ آیا اور منٹو جو ہیں، پارٹیشن والا منٹو، پہلے والا منٹو اور بمبئے والا منٹو اور آل انڈیا ریڈیو دہلی والا منٹو، ہم یہ نہیں دیکھ رہے کہ اس نے 26 ء میں کیا محنت کی، 30 ء میں کیا محنت کی، 35 ء میں کیا محنت کی۔

وجاہت مسعود : روسی افسانے، فرانسیسی افسانے، ترجمے کر رہے ہیں، میرا جی کو دیکھ لیں آپ، مشرق اور مغرب کے نغمے۔

وسعت االلہ خان :جی ہاں میرا جی کو دیکھ لیں آ پ۔ تو جو کچھ بویا انہوں نے تو بعد میں انہوں نے لہلہاتی فصل کے طور پہ کاٹ کے ہمیں دے دیا۔ اس لیے ہمیں وہ لوگ یاد ہیں۔ آج میں کیا کر رہا ہوں اور میں یہ کہہ رہا ہوں کہ اگر یہ کٹ پیسٹ کا راز انہیں معلوم ہو جاتا تو منٹو میرے جیسا ہی آدمی ہوتا۔

وجاہت مسعود : کچھ وضاحت فرمائیے گا۔

وسعت االلہ خان :دیکھیں ناں چیزیں کتنی آسان ہو گئی ہیں۔ اس کو لائبریری جانا پڑتا ہو گا، اس کو کتاب لینی پڑتی ہو گی، اس کو بیٹھ کے اندھیرے سے پہلے پہلے کچھ کام کرنا پڑتا ہو گا۔ پھر اس کو صبح ہی صبح روشنی میں اٹھنا پڑتا ہو گا اس لیے کہ اور بھی کام کرتے ہوں گے اسے۔ میں تو یہاں بیٹھا ہوا ہوں، سکرین کھولی ہوئی ہے اور کہیں سے میں پلیجرازم (سرقہ) کر رہا ہوں اور کہیں سے میری اوریجنل تھاٹ آرہی ہے، کہیں سے میں نے آپ کا سٹائل لے لیا ہے اور کہیں سے اپنا سٹائل اس میں ڈال لیا اور میں نے پراڈکٹ بنا کے پیش کر دی۔ اب اس پراڈکٹ پر جتنی میں نے محنت کی ہے، جتنی میری نیت اس کی پروڈکشن میں شامل ہے اتنی ہی وہ پائیدار ہو گی۔ اتنی ہی وہ بکے گی۔ تو یہ جو ہمارے ساتھ معاملہ ہوا ہے، میں یہ نہیں کہہ رہا کہ میں کوئی اینٹی ٹیکنالوجی بات کر رہا ہوں، مسئلہ یہ ہے کہ 2017 ء میں، میں ایک ایسے دور میں بیٹھا ہوں جہاں میرے لیے پڑھنا بھی ایک ہارڈ لیبر ہے کجا یہ کہ میں لکھوں۔ اور اس کا ثبوت یہ ہے کہ اخبار اٹھا کے دیکھ لیں، چینل اٹھا کے دیکھ لیں، آپ سوشل میڈیا اٹھا کے دیکھ لیں، ایک جگالی چل رہی ہے۔ میں تھوکتا ہوں، آپ نگلتے ہیں، آپ تھوکتے ہیں ایکس نگلتا ہے، وائی نگلتا ہے اور ہم اسے سمجھ رہے ہیں کہ یہ کوئی ہم علم کی تحصیل کی طرف جا رہے ہیں۔ اس بڑے دھوکے میں ہم سب پھنس گئے ہیں۔ اس وجہ سے آپ کو فوراً 36 ء پہ جانا پڑا۔ حالانکہ قاعدے سے یہ ہونا چاہیے تھا کہ آپ 80ء کی مجھے مثال دیتے، 90 ء کی کوئی مثال دے دیتے۔ آپ کو اچانک اس لیے 36 ء پہ جمپ لگانی پڑی آل دا وے 80 برس کی، کہ بیچ میں جو کچھ ہوا، ان ناموں کے علاوہ کچھ ہے نہیں اور ہم جو ہیں ایک جگالی در جگالی، در جگالی کی پیداوار ہیں۔

وجاہت مسعود : ایک قوم ہے، بیس کروڑ لوگ اس میں رہتے ہیں تو تخلیقی کام تو ان کا ہے۔ اظہار کو تو ہونا ہے۔ ہمارے ہاں ایک کتاب آتی تھی، تو پانچ سو چھپ گئی، ایک ہزار چھپ گئی، بیس کروڑ میں سے کتنے لوگوں تک پہنچی اور پھر بذات خود اس میں بڑی رکاوٹیں تھیں، پبلشر کہاں سے لایا جائے۔ عبدااللہ حسین کو بھی اگر یہ سننا پڑا کہ جی آپ کو جانتا کوئی نہیں ہے تو باقیوں کا کیا حال ہو گا۔ اب کوئی سو دو سو کالم روز لکھا جا رہا ہے۔ یہ ہم بھی جانتے ہیں اور میرا خیال ہے کہ پڑھنے والا بھی جانتا ہے کہ اس میں دو چار ہی ہوتے ہیں باقی تو جگالی ہیں۔ کاغذ کا زیاں ہے، کٹ پیسٹ ہے۔ کوئی شخصی ہے، کوئی خوشامدی ہے، کوئی مفاداتی ہے، کسی کے پیچھے کوئی فائل موو کر رہی ہے۔ کیا ہمارا جو قوم کا تخلیقی اظہار تھا وہ حقیقی، ادبی اظہار کو فراموش کر رہا ہے۔ تو پھر اس طرف سے وہی جو دو چار پرانے چلے آرہے ہیں۔ نیا افسانہ نگار آگے سے نہیں آرہا۔

وسعت االلہ خان: وہ ابھی آپ نے ذکر کیا ناں کہ کیا کیا مشکلات ہوتی تھیں کتاب چھپوانے کے لیے، یہ کرنا ہے، وہ کرنا ہے، اب تو بہت آسانی ہے۔ اب تو میں یہ بھی نہیں کہہ سکتا کہ میری کتاب نہیں چھپ رہی، بھئی نہیں چھپ رہی تو میں فیس بک پر اپنی غزل ڈال دیتا ہوں۔ وہ سنگ میل جو چھاپتا ہے اس سے کہیں زیادہ ایک دن میں چھپ جائے گی۔ مگر مال ہو گا تو سامنے آئے گا ناں۔ آسانی اپنی جگہ ہے۔ اگر یہ بہانہ تھا کہ صاحب میں بہت جینوئن لکھ رہاہوں مگر مجھے آؤٹ لیٹ نہیں مل رہا تو بھائی صاحب آپ آئیے ناں فیس بک پہ لگا دیں۔ لیکن لگانے کے لیے آپ کے پاس ہے کیا۔ جو دوسرے جینونلی لکھنے والے ہیں وہ اس فریم سے نہیں نکلے کہ ابلاغ کے میڈیم بدل چکے ہیں۔ وہ ابھی تک پرانے فریم میں پھنسے ہوئے ہیں کہ یار میرے پاس اتنے پیسے ہی نہیں ہیں کہ میں پانچ سو کتاب چھپوا سکوں اور جب ہم ان سے کہتے ہیں کہ فیس بک پہ آجاؤ۔ تو ان کو یہ بات سمجھ میں نہیں آتی کہ یہ کیا نان سیریس بات کر رہے ہیں۔

وجاہت مسعود : وہ اسے تضحیک سمجھتے ہیں۔

وسعت االلہ خان : انہیں یہ سمجھ نہیں آتا کہ یہ کیا بات ہو رہی ہے۔ ان کے فریم میں تو یہ ہے کہ جو چیز چھپی ہوئی ہے اصل میں تو وہ ہے ریکارڈ۔ پٹواری کا جو ریکارڈ ہے اصل میں تو وہ ہے ریکارڈ۔ اگر میری زمین کا کاغذ مجھے کمپیوٹر پہ نظر آرہا ہے تو میری زمین تو کھو ہی گئی، اس لیے کہ میرے ہاتھ ہی میں نہیں ہے ناں۔ اس فریم سے نکلتے ہوئے انہیں ٹائم لگے گا۔ لیکن لکھنے کو بہت لکھا جا رہا ہے۔ اچھا۔ اب میں یہ بالکل ایک مختلف بات کر رہا ہوں۔

مثلاً میں آپ کو بتاتا ہوں تین سال پہلے کی بات ہے۔ بلھے شاہ کے عرس پہ گیا میں قصور۔ گھومتا رہا، پھر رات کو میں نے کہا کہ واپس لاہور چلتے ہیں۔ تو وہاں کا اسسٹنٹ کمشنر مجھے ٹکرا گیا۔ اس نے کہا کہ کیا پروگرام ہے آپ کا۔ میں نے کہا میں لاہور جا رہا ہوں۔ کہنے لگے مت جائیں، پنجابی کا مشاعرہ ہونے والا ہے۔ اچھا میرے ذہن میں تھا کہ کیا مشاعرہ ہو گا یہ۔ زیادہ سے زیادہ قصور کے، لاہور کے لڑکے لڑکیاں، کیا کر لیں گے یہ۔ اس نے کہا کہ نہیں آپ رک جائیں میں کسی وجہ سے کہہ رہا ہوں۔ ویسے وہ نوجوان عجیب آدمی تھا ۔ میں نے کہا کہ ٹھیک ہے چلو میں رک جاتا ہوں۔

لو جناب کوئی دس بجے وہ مشاعرہ شروع ہوا ہے۔ اور کہاں سے لوگ آئے ہیں چونیاں سے، پتوکی سے، بھائی پھیرو سے، میاں چنوں سے، چگ 32 گ ب سے، لڑکے بھی، لڑکیاں بھی۔ اب انہیں واپس بھی جانا ہو گا اور میں ایک دیہاتی علاقے میں بیٹھا ہوا ہوں۔ ایک تو مجھے اس پہ حیرانی ہوئی کہ یہ کیا ہو رہا ہے۔ پھر انہوں نے جو سنایا وہ اتنا ماڈرن تھا کہ وہ تو اردو میں بھی نہیں لکھا جا رہا۔ نظمیں سنائیں جو انہو ں نے یا غزلیں سنائیں۔ میری تو ایسی کی تیسی ہو گئی کہ ہو کیا رہا ہے یار یہ۔ کہ میں کتنا جاہل آدمی ہوں، میں کن لوگوں میں گھوم رہا ہوں اور یہ کون لوگ ہیں۔ اچھا وہ سنا کے پتوکی ہی چلا گیا واپس، اس نے لاہور نہیں آنا۔

مسئلہ یہ ہے کہ کیا ہم تلاش بھی کر رہے ہیں ان لوگوں کو۔ ہم یہ رائے قائم کرنے سے پہلے، حساب کچھ نہیں ہو رہا، ہمیں کس بنیاد پہ کہہ رہے ہیں۔ اس بنیاد پہ کہہ رہے ہیں کہ مجھے کراچی میں بیٹھ کے کچھ نہیں لگ رہا۔ آپ نے یہاں پہ بیٹھ کے ایک رائے قائم کر لی کیونکہ وہی فوٹو کاپی چہرے آپ روزانہ دیکھ رہے ہیں اور اس کے علاوہ آپ کی نظر نہیں پڑ رہی۔ پھر دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ بہت مشکل ہوتا ہے کہ آپ سے جو علمی نسل ہے اس سے آپ کا کوئی ایسا رابطہ ہو جائے کہ آپ کے اور ان کے درمیان جو حجاب ہے وہ ختم ہو جائے۔ ایسے دو تین لوگ میری زندگی میں تھے مثلاً جیسے عبیدااللہ علیم ہے، چار نسلیں ان کی دوست تھیں۔ مثلاً میرا بیٹا بھی ان کا دوست تھا، میں بھی ان کا دوست تھا، اور مجھ سے بڑے جو لوگ تھے وہ تو تھے ہی ان کے دوست۔ اب تینوں نسلوں کے لوگ یہ سمجھتے تھے کہ وہ ہمارا ہی دوست ہے۔ اس طرح کے لوگ نہیں ہیں اب۔

میں نے اس کا توڑ یہ نکالا تھا کہ یار یہ اچھا نہیں ہو رہا مثلاً یہ کہ میں ایک آئیوری ٹاور میں خود کو دیکھ رہا ہوں اور مجھے بھی یہ لگ رہا ہے کہ اب کچھ نہیں ہو رہا ہے جو ہم نے کر دیا ناں ’ساڈے زمانے وچ تے گوشت سوا روپے سیر سی تے ایہہ ہن ساڈے ست سو روپے کس طرح ہو گیا اے‘ (ہمارے زمانے میں تو گوشت سوا روپے سیر تھا اور اب ساڑھے سات سو روپے سیر کس طرح ہو گیا ہے) تو یہ فنامنا سمجھنے کے لیے پھرمیں نے ناپا میں داخلہ لیا۔ اس لیے کہ میرے جو کلاس فیلو تھے وہ میرے بچو ں کی عمر کے تھے۔ بیس سال، اکیس سال، بائیس سال۔ ان کے درمیان جب میں نے تین سال گزارے تو اب میں یہ کہتا ہوں کہ ان کو ہم سے کوئی مطلب نہیں ہے۔ وہ اپنی دنیا میں اپنے عصری تقاضوں کے حساب سے وہ کر رہے ہیں جو انہیں کرنا ہے ۔ ہم انہیں چلتے پھر دیکھ تو رہے ہیں مگر وہ ہمیں نظر ہی نہیں آرہے اور پھر اس پہ ہم بابے بن کے یہ رائے دیتے ہیں کہ یار بس ہو گیا جو ہونا تھا اب تو ردی ہے سب ہی۔

ہوا یہ ہے کہ جیسا میں نے کہا کہ مجھے تو عادت ہے وقت پہ پڑھنے کی۔ مجھے لگ رہا ہے کہ اب ایک لڑکا یا لڑکی، میرا بیٹا یا بیٹی، نہیں پڑھ رہا۔ وہ اس لیے نہیں پڑھ رہا کہ وہ تو کینڈل (ای بک ریڈر) پہ پڑھ رہا ہے۔ وہ تو بس میں بیٹھ کر بھی اس کے ہاتھ میں وہ ہے، وہ سکرین پہ ورق پلٹتا ہے اور اس میں اس کے ناول فیڈ ہیں۔ میری بیٹی تین ہزار کی لائبریری لے کے گھوم رہی ہے بس میں۔ پانچ سو گرام کے ایک فریم میں تین ہزار کی لائبریری ہے۔ اب اس کی جب مرضی ہے وہ پڑھے گی۔ ضروری تو نہیں کہ وہ مجھے دکھانے کے لیے پڑھے لیکن میں سمجھ رہا ہوں کہ یار یہ پڑھ نہیں رہے۔ تو اتنا بڑا ایک کٹ آف اور مس کمیونی کیشن ہے کہ ہمیں ایسا لگتا ہے کہ کچھ نہیں ہو رہا۔ حالانکہ بہت کچھ ہو رہا ہے۔

وجاہت مسعود : اسی سے میں بھی اپنا تجربہ شیئر کرنا چاہوں گا۔ ہم نے جب پندرہ سولہ مہینے پہلے ’ہم سب‘ شروع کیا تو سبھی نام، سبھی چہرے غیر معروف تھے اور چاہتے تھے کہ وہ لکھیں۔ کچھ ہی مہینوں میں ان میں سے ہر ایک کا اپنا لحن بھی بن گیا، موضوعات بھی بن گئے، بات کہنے کا ہنر بھی بن گیا، جملہ پہچانا جانے لگا کہ یہ جملہ کس کا ہے اور یہ معلوم ہوا کہ ان کے اندر یہ جو ڈیٹا بینک تھا انفارمیشن کا، ٹولز کا، وہ کسی سے کم نہیں تھا۔

وسعت االلہ خان : ہر نسل میں ایک محمد طفیل کی ضرورت تو ہے ناں۔ ورنہ کہاں سے آئیں گے یہ لوگ۔

وجاہت مسعود : بالکل۔ کہاں سے آئیں گے۔

وسعت االلہ خان : محمد طفیل نہیں ہو گا تو صلاح الدین، ناصر زیدی وغیرہ کہاں سے آئیں گے۔ احمد ندیم قاسمی نہیں ہو گا۔

(جاری ہے)

اگلا حصہ: وسعت اللہ خان صحافت اور کتابوں پر اظہار خیال کرتے ہیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments