راسپوٹین کی موت


Grigorij Efimovic Rasputin (1869-1916)

راسپوٹین اسی وقت سیاہ جُبّہ پہنے تھا۔ جواہرات سے مرصع عظیم الشان طلائی صلیب اس کے سینے پر لٹک رہی تھی ۔ اندر داخل ہوکر اس نے اپنا بیش قیمت اوور کوٹ اتار دیا۔ باہرشدید قسم کی برف باری ہو رہی تھی اور سخت سردی تھی۔

یوسوپوف:    تشریف لے آیئے۔۔۔ بے کھٹکے اندر تشریف لے آیئے۔

راسپوٹین:    مجھے دیر ہوگئی۔

یوسوپوف:    خاص دیرتو نہیں ہوئی۔ زہے نصیب کہ آپ تشریف لے آئے ہیں۔

راسپوٹین:    جب تم نے بلایا تو مجھے آنا ہی پڑا۔۔۔ تمہاری دعوت سے انکار بھی ہوسکتا تھا جب کہ تم نے ۔۔۔ یہ کون ہے؟

یوسوپوف:    مقدس باپ ، آپ مطمئن رہیں ۔ خلوت کا یہاں پورا پورا بندوبست ہے۔ یہ پال سیتپانوف ہیں۔ میرے پرانے دوست ، ہم پیالہ و ہم نوالہ ۔۔۔ آؤ پال مقدس باپ کی زیارت کا شرف حاصل کرو۔

راسپوٹین:    (پال کی طرف شفقت آمیز نظروں سے دیکھتے ہوئے) تم سے مل کر مسرت ہوئی ہے۔

پال ستیپانوف:   یہ میری عین خوش نصیبی ہے۔

راسپوٹین:    بیٹھ جاؤ ۔۔۔ اس کرسی پر بیٹھ جاؤ۔

پال سیتپانوف:   (کرسی پر بیٹھ کر) آج پہلی مرتبہ آپ کے دیدار ہوئے ہیں۔۔۔ یہ شرف مجھے ہمیشہ یاد رہے گا ۔ آپ کی عظمت و بزرگی۔۔۔

راسپوٹین:    راسپوٹین کا یہ ادنیٰ ثبوت ہے کہ اگر نکولس دوم روس کا زار ہے تو میں عیسیٰ مسیح ہوں۔ میں روس کو اور تمام دنیا کو نجات دلانے آیا ہوں۔ زار اورز ارینہ میرے سامنے ادب سے جھکتے اور میرا ہاتھ چومتے ہیں، ان کے بچے مجھے سجدہ کرتے ہیں۔ میرا بہت بڑا مرتبہ ہے۔

پال سیتپانوف:   (مصنوعی طور پر متاثر ہوکر) اس میں کیا شک ہے مقدس باپ۔

راسپوٹین:    یوسوپوف وہ عورت کہاں ہے جس کا تم نے ذکر کیا تھا۔۔۔ وہ حسینہ جو اپنا نام ظاہر نہیں کرنا چاہتی ۔ مگر مجھ سے تعارف کرنے کی خواہش مند ہے۔

یوسوپوف:    ابھی تک آئی نہیں مقدس باپ

راسپوٹین:    کیا وجہ ہے کہ اس کے نہ آنے کی۔ تمہارے بیان کے مطابق اسے میری ملاقات کا اشتیاق تھا۔؟

یوسوپوف:    جی ہاں ، بہت زیادہ اشتیاق تھا۔ اور میرا خیال ہے کہ بس اب آتی ہی ہوگی ۔۔۔ متری باہر اس کا انتظار کر رہاہے۔ میں جا کر دیکھتا ہوں۔

راسپوٹین:    جاؤ پرنس متری کو یہاں بھیج دو اورتم اس خاتون کا انتظار کرو۔

یوسوپوف:    بہت اچھا مقدس باپ (چلا جاتا ہے)

راسپوٹین:    پال ، اس عورت کو جس کا ذکر ابھی ہو رہا تھا ، کیا تم جانتے ہو!

پال سیتپانوف:   جانتا ہوں ۔۔۔ بہت اچھی طرح جانتا ہوں۔

راسپوٹین:    کیسی ہے؟

پال سیتپانوف:   بہت حسین عورت ہے اور ناچتی بھی خوب ہے۔ میں نے ایسی رقاصہ آج تک نہیں دیکھی۔

راسپوٹین:    خوب ۔ خوب ۔۔۔

پال سیتپانوف:   مقدس باپ، میں ہپناٹزم کے متعلق بہت کچھ سن چکا ہوں ۔ کہتے ہیں کہ ایسا علم موجود ہے، جس سے آدمی دوسروں کو مسحور کرلیتا ہے ۔ لیکن مجھے یقین نہیں آتا۔ اس لیئے کہ کوئی قابلِ یقین بات نظر نہیں آتی۔ صرف آنکھوں کے ذریعے ٹکٹکی باندھ کر کسی تندرست آدمی کو بے حس کردینا کہاں تک درست ہوسکتا ہے۔ اور پھر اس بے حس آدمی سے عجیب و غریب کام لینا ۔۔۔ میں کیا عرض کروں، کچھ سمجھ میں نہیں آتا ۔

ایک عجیب چکر میں پھنس جاتا ہوں جب اس علم کے متعلق سوچتا ہوں۔

راسپوٹین:    (ہنستا ہے) تم میری رائے پوچھنا چاہتے ہو؟

پال سیتپانوف:   جی ہاں!

راسپوٹین:    تم نے سنا ہوگا کہ میں ہپناٹزم کا عامل ہوں۔

راسپوٹین:    جی ہاں ۔ آپ کے متعلق یہ بات عام مشہور ہے۔

راسپوٹین:    جو بالکل غلط ہے۔۔۔ خدائے ذوالجلال نے مجھے جو قوت بخشی ہے اس کو لوگ جہالت اوربیوقوفی کے باعث ہپنا ٹزم سمجھتے ہیں اس نے مجھے برکت بخشی ہے اس نے مجھے ہدایت کار بنا یا ہے ۔ امن اور نجات کی کلید میرے ہاتھ میں دی ہے دنیا و آخر میں میرا مقام بلند ہے ۔ لوگ ان رفعتوں کو دوسرے رنگ میں دیکھتے ہیں وہ مجھے جادو گر سمجھتے ہیں۔ اس لیئے کہ وہ کم عقل اور جاہل ہیں۔ لیکن جو سمجھنے کی اہلیت رکھتے ہیں۔ اچھی طرح جانتے ہیں کہ میں خدا کا بھیجا ہواپیغمبر ہوں۔

(پرنس متری اندر آتا ہے)

راسپوٹین:    آؤ پرنس متری تمہارا انتظار کر رہا ہوں۔

متری:  میں اس خاتون کی راہ دیکھ رہا تھا مقدس باپ۔

راسپوٹین:    ابھی تک نہیں آئی!

متری:  جی نہیں، لیکن بس اب آیا ہی چاہتی ہے۔

راسپوٹین:    تو بیٹھ جاؤ میرے پاس ۔۔۔ بوتل کھولو، پیؤ اور پلاؤ

متری:  (پاس بیٹھ جاتا ہے اور زہر والی بوتل کھول کر راسپوٹین کے گلاس میں شراب انڈیلتا ہے) فرمایئے کتنی پیئیں گے ۔

راسپوٹین:    گلاس بھر دو ۔۔۔ پال کو بھی دو۔

متری:  (بوتل میز پر رکھ دیتا ہے) لو پال لو پال تم بھی لے لو۔۔۔ کیا سوچ رہے ہو؟

پال سیتپانوف:   میں سامنے تصویر کی طرف دیکھ رہا ہوں ۔۔۔ مصوری کا نادر نمونہ ہے ۔۔۔ مقدس باپ، آپ نے ملاحظہ فرمائی یہ تصویر۔

راسپوٹین:    (تصویر کی طرف دیکھتا ہے) منظر کشی خوب کی گئی ہے۔مجھے اس کا فریم بھی پسند آیا ہے (اس دوران میں پال سیتپانوف دوسری بوتل سے اپنے گلاس میں شراب انڈیل لیتا ہے۔ )

متری:  میں آرٹسٹ کا نام بھو ل گیا ہوں مجھے یوسوپوف نے بتایا تھا، بھلا سا نام ہے۔

پال سیتپانوف:   (گلاس اٹھاکر) مقدس باپ کی صحت کے لیئے۔

راسپوٹین:    (اپنا گلاس اٹھا کر لبوں کے ساتھ لگاتا ہے) متری تم بھی پیؤ (گلاس غٹاغٹ پی جاتا ہے)

متری:  حیرت ہے کہ وہ خاتون ابھی تک نہیں آئی۔

پال سیتپانوف:   (راسپوٹین کی طرف حیرت سے دیکھتے ہوئے)

یوسوپوف شاید ابھی تک اس کا انتظار کر رہا ہے۔

راسپوٹین:    آجائے گی۔۔۔ آج برف باری بھی تو بہت ہو رہی ہے۔

پال اور متری سخت متخیر تھے کہ راسپوٹین اتنا زہر پی چکا ہے ۔ جو بارہ آدمیوں کو ہلاک کرنے کے لیئے کافی ہے ۔ مگر اسے کچھ بھی نہیں ہوا۔ وہ بالکل تندرست تھا جیسے اس نے کبھی زہر پیا ہی نہیں۔ شراب پینے کے بعد اس نے میز پر سے بسکٹ اٹھا کر کھائے اورباتیں کرتا رہا بعض لوگوں کا بیان ہے کہ اس نے نظر بچا کر اپنا گلاس کانچ کے اس اگالدان میں انڈیل دیا تھا جو اس کے پاس ہی رکھا تھا مگر بعض لوگ یہ کہتے ہیں کہ نہیں اس نے سچ مچ زہر پیاتھا۔ بہرحال اس کے متعلق اختلاف ضرور ہے۔ پرنس یوسوپوف اور اس کے ساتھی اوپر کی منزل میں تھے ۔ اور دیر ہونے کے باعث سخت پریشان ہو رہے تھے ۔ انہیں یقین تھا کہ راسپوٹین زہر پیتے ہی مرجائے گا۔ جب بہت دیر ہوگئی اور پال اس کی موت کی خوشخبری سنانے کے لیئے نہ آیا تو یہ لوگ دبے پاؤں نیچے اترے اور کمرے کے پاس جاکر تعجب سے راسپوٹین کی باتیں سننے لگے ۔

راسپوٹین:    ایک گلاس اور رہے۔

پال:   لیجیئے(گلاس میں زہریلی شراب انڈیلتا ہے)

راسپوٹین:    (گلاس خالی کرکے ) آج سردی غضب کی ہے، خون منجمد ہوا جارہاہے۔ تین گلاس ختم کرچکا ہوں، ابھی تک بدن میں گرمی پیدا نہیں ہوئی۔۔۔ لیکن تم لوگ یوں آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر میری طرف کیا دیکھ رہے ہو؟

پال:   کچھ نہیں ۔۔۔ کچھ نہیں

متری:  (گھبرا کر) یہ صریحاً جادوگری ہے۔

راسپوٹین:    (مسکرا کر ) کیا جادو گری ہے؟ ۔۔۔ جادو گری سب بکواس ہے۔ تم بہک رہے ۔۔۔ تمہیں ہو کیا گیا ہے۔

پال:   (اُٹھ کھڑا ہوتا ہے) خُدا کی قسّم یہ شخص جادو گر ہے۔۔۔

متری:  پال، پستول نکالو اور ملعون کا خاتمہ کردو، یہ زہر اسے ہلاک نہیں کرسکے گا۔

راسپوٹین:    (ہنستا ہے) تو مجھے زہر دیا گیا ہے ۔۔۔ دوستو! زہر مجھے ہلاک نہیں کرسکتا ۔۔۔ جس شخص کو حکمت الٰہی نے بھیجا ہے جس کو خُدا نے بے شمارقوتیں عنایت کر رکھی ہیں اس کی طرف کوئی آنکھ اُٹھا کرنہیں دیکھ سکتا۔۔۔ یہ زہر میرا بال تک بیکانہیں کرسکتا ۔۔۔(ہنستا ہے) جاؤ، یوسوپوف کے پاس جاؤ اور دیکھو کہ وہ حسین خاتون ابھی آئی ہے، یا نہیں (ہنستا ہے) اس کے بعد پھر مجھے ہلاک کرنے کی تجویز سوچنا ۔۔۔ خدا تم پر اپنی برکت نازل کرئے۔

متری:  پال اس شیطان کی تقریر نہ سُنو۔۔۔ اپنا کام کرو۔۔۔ اس کے رعب میں نہ آؤ۔

پال:   (اپنے حواس درست کرتا ہے اور جیب سے پستول نکال کر فائر کرتا ہے ) ایک دو، تین۔

راسپوٹین، کے سینے میں گولیاں اتار کر پال کمرے سے باہر نکلا۔ جہاں اسے پرنس یوسوپوف وغیرہ ملے ۔ پال نے ان سے کہا ۔ شیطان بالآخر جہنم رسید ہوگیا اب روس اس کے شرسے آزاد ہے ۔۔۔ چنانچہ یہ سب لوگ اوپر کی منزل میں شراب پینے لگے مگر تھوڑی ہی دیر میں انہیں نیچے کی منزل میں کچھ گڑ بڑ معلوم ہوئی۔ اتنے میں دروازہ کھلا اور راسپوٹین اندر داخل ہوا۔ ان سب کو یقین تھا کہ پھیپھڑے پر گولیاں کھا کر وہ مرکھپ چکا ہوگا۔ جب اسے زندہ دیکھا تو ان کے ہوش اُڑ گئے ۔ راسپوٹین خون میں نہایا ہوا تھا۔ لڑکھڑاتا ہوا وہ محل کے پھاٹک تک پہنچ گیا اور اسے کھولنے کی کوشش کرنے لگا۔

یوسوپوف:    متری کہیں سچ مچ یہ راہب خدا رسیدہ ہی تو نہیں؟

متری:  ہوسکتا ہے کہ خدا اس کی حفاظت کر رہا ہو۔

یوسوپوف:    زہر پی کر اور گولیاں کھا کر بھی کم بخت نہیں مرا۔

متری:  بڑا سخت جان ہے۔

پال:   کچھ سمجھ میں نہیں آتا۔

راسپوٹین:    (ایک ہاتھ سے اپنا زخم پکڑ کر جس میں سے خون جاری تھا) تم نے مجھے قتل کرنے کی پوری پوری کوشش کی ہے لیکن یہ دیکھو میں زندہ ہوں ۔۔۔ میں زندہ ہوں اور اسی طرح زندہ رہوں گا ۔ کوئی انسانی قوت مجھے ہلاک نہیں کرسکتی زہر اور یہ گولیاں مجھ پر کیا اثر کرسکتی ہیں (ہنستا ہے) تم لوگ بے وقوف ہو کیا اب بھی تمہیں میری عظمت پر شک ہے کیا اب بھی تم مجھے ہلاک کرنے کی ناکام سعی کرتے رہو گے۔۔۔ پھاٹک کھول دو۔ میں باہر جانا چاہتا ہوں اور عنقریب خدا مجھے تم سے انتقام لینے کا موقع عطا کردے گا۔

پال:   متری، دُوڑو۔ اس ملعون کی پیٹھ میں اپنا خنجر دستے تک اُتاردو۔ اس کی باتوں میں نہ آؤ۔ یہ خدا رسیدہ بزرگ نہیں شیطان ہے جو ہمیں مرعوب کرنا چاہتاہے۔

راسپوٹین:    تم بے وقوف ہو تمہارا زہر اورتمہاری گولیاں مجھے ہلاک نہ کرسکیں۔ یہ خنجر میرا کیا بگاڑے گا؟ ۔۔۔ آؤ اس کو بھی آزما دیکھو۔

پال:   متری خدا کے لیئے اس کی باتیں نہ سنو! یہ ہم پر جادو کرنا چاہتا ہے ۔ دوڑو جانے نہ پائے ۔۔۔ لاؤ خنجر مجھے دو۔

راسپوٹین نے جب دروازہ کا ہتا گھمایا تو پال کو جوش آگیا۔ وہ خرافات کا قائل نہ تھا ۔ خنجر لیکر تیر کی طرح دوڑا اور راسپوٹین کی پیٹھ میں دستے تک اُتار دیا ۔ اب روس کا یہ دجّال راہب آخری بار لڑکھڑا یا اورفرش پر اوندھے منہ گر پڑا۔ کہتے ہیں کہ جب اس کی لاش اُٹھا کر ان لوگوں نے دریا میں پھینکنا چاہی تو اس وقت بھی راسپوٹین کے جسم میں جان کی رمق باقی تھی ۔۔۔ جب اس کو دریابُرد کیا گیا تو ان لوگوں نے اطمینان کا سانس لیا ۔۔۔ کیونکہ اب واقعی راسپوٹین رُوس کا مہیب بھوت مرچُکا تھا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2