کرنل (ر) نادر علی کی 1971ء کے بارے میں یاد داشتیں


ہیرو بننے سے پاگل پن کی دہلیز پر

ڈھاکا میں سوشل لائف کیا تھی۔ دن کو کسی دوسرے شہر جا کر کوئی مشورہ وغیرہ دینا اور شام کو لوٹ آنا۔ شام کو پی اے ایف میس چلے گئے۔ پی آئی اے میس یا ڈھاکا کلب چلے گئے۔ وہاں بنگالیوں کے ساتھ ڈرنک کرنا۔ ہم ڈھاکا انٹرکانٹی نینٹل جاتے تھے تو بال روم ڈانسنگ روک کر اعلان کیا جاتا ’گڈ ایوننگ میجر نادر‘ اور پھر میوزک شروع ہو جاتا۔ رات کو چائنیز کھانا کھایا اور سو گئے۔ زندگی اسی طرح چل رہی تھی کہ آپ کو کوئی پرواہ نہیں کہ باہر کیا ہو رہا ہے۔ میں ایک سن حالت میں تھا۔ بظاہر میں ایک اہم شخصیت بن گیا تھا لیکن حقیقت سے میرا رشتہ کٹ چکا تھا۔ ایک جوان میجر جو بنگال جانے سے پہلے کچھ کچھ اندھا تھا اب مکمل طور پر اندھا ہو چکا تھا۔ اس طرح میری احمقوں کی جنت کی بنیاد پڑی اور ساتھ ساتھ میرے پاگل پن کی بھی۔
اس دوران مجھ سے کہا گیا کہ میں واپس مغربی پاکستان جاو¿ں تاکہ میری کرنل کے عہدے پر ترقی ہو سکے۔ میں واپس نہیں جانا چاہتا تھا کیونکہ میں ڈھاکا میں انتہائی اہم شخص بن چکا تھا اور اپنے اس ہیرو جیسے کردار کو انجوائے کر رہا تھا اور مزے کی بات یہ ہے کہ مجھے یہ بھی معلوم تھا کہ اصل میں اتنی مزاحمت یا خطرہ نہیں ہے جتنا بڑھا چڑھا کر بیا ن کیا جا رہا ہے۔ بعد میں جو میرا بریک ڈاؤن ہوا اس کی اصل وجہ بھی یہی تھی کہ میرے جیسے غریب بندے کو ایک دم اتنی لفٹ مل جائے تو یہ کسی بھی انسان کو پاگل کرنے کے لیے کافی ہوتا ہے۔

جنگ کیسے لڑی گئی؟

سوال یہ ہے کہ کیا مشرقی پاکستان کو بچایا جا سکتا تھا؟ بالکل بچایا جا سکتا تھا۔ اگر سارا ایکشن اپریل میں بند کر دیا جاتا تو ایک موقع تھا۔ عوامی لیگ کے ابھی بھی بہت سے ایم این اے تھے جن کو منایا جاسکتا تھا۔ لیکن یہ صورتحال تو بدستور چلتی ہی گئی حتیٰ کہ دسمبر آگیا۔
جب کسی فوج کا یہ کردار بن جائے کہ لوگوں کی زندگی اور موت اس کے اختیار میں ہو اور اسے من مانی کرنے کی آزادی ہو تو وہ فوج آہستہ آہستہ اخلاقی طور پر تباہ ہونا شروع ہو جاتی ہے۔ ہمیں اس وقت ہی نظر آرہا تھا کہ جنگ ہوئی تو یہ لوگ لڑ نہیں سکیں گے۔
فوج پورے علاقے میں چھوٹے چھوٹے دستوں میں بٹی ہوئی تھی۔ عام خیال یہ تھا کہ کسی ایک جگہ پر قبضہ کرکے اعلان کر دیا جائے کہ یہ بنگلہ دیش ہے اور متوازی حکومت بنائی جائے گی۔ یہ امکان تو کسی کے خیال میں بھی نہیں تھا کہ اگر حملہ ہوا تو کیا کریں گے۔
نیازی صاحب نے کوئی منصوبہ بندی نہیں کی۔ حالانکہ ادھر اتنے دریا ہیں کہ اگر کوئی کسی کو روکنا چاہے تو بہت کچھ ہو سکتا ہے۔ لیکن آپ دیکھیں کہ وہاں ہمارے کسی بندے نے مزاحمت نہیں کی اور نہ ہی بھاگنے کی کوشش کی۔ سوائے دو ہیلی کاپٹروں کے جو اڑ کر برما پہنچ گئے اور پھر مغربی پاکستان واپس آئے۔ ان ہیلی کاپٹروں میں کچھ زخمی، کچھ نرسیں اور ایک جرنیل صاحب بھی شامل تھے جو بظاہر زخمی تھے۔ لوگوں نے ان پر بہت لعن طعن بھی کی۔ کیونکہ یہ بات پھیل گئی کہ کسی شخص کو ہیلی کاپٹر سے اتار کر جرنیل صاحب کو سوار کیا گیا تھا۔
ہندوستان آرمی ہماری ایک پوری ڈویثرن بائی پاس کرگئی۔ ان جرنیل صاحب کے پاس تین بٹالین تھیں لیکن انہوں نے انہوں نے کسی ایکشن میں حصہ نہیں لیا۔ اس لیے ان کو خراش تک نہیں آئی۔ ڈھاکا پر انڈین آرمی کا قبضہ ہونے کے ایک دو دن بعد تک یہ ڈویثرن وہیں بیٹھی رہی۔ نہ تو انہوں نے کسی طرف نکلنے کی کوشش کی اور نہ ہی ہندوستان آرمی پر حملے کا منصوبہ بنایا۔ اس جرنیل نے ڈھاکا فون کر کے پوچھا۔ ”ہم نے کس کے پاس ہتھیار ڈالنے ہیں“۔ جیسے کوئی جائیداد منتقل کی جا رہی ہو کہ بھائی ہم نے کس کو ہینڈ اوور کرنا ہے۔
لیکن یہ بھی ہے کہ میجر اکرم جیسے فوجیوں نے مزاحمت بھی کی۔ ان کی بٹالین بوگرہ میں بہت دلیری سے لڑی اور میجر اکرم کو نشان حیدر ملا۔ ان کی تعریف انڈین آرمی نے بھی کی۔ لیکن یہ اکادکا واقعات ہیں ورنہ نیازی صاحب نے نہ تو دفاع کا کوئی انتظام کیا تھا اور نہ ہی کوئی پلاننگ۔

بنگال فتح نہ ہو، بنگالن تو فتح ہو سکتی ہے؟

آسام سے تعلق رکھنے والی ایک خاتون ڈاکٹر یاسمین سیکھیا امریکہ میں ہندوستان کی تاریخ پڑھا رہی ہیں۔ حال ہی میں اس نے 71 کی جنگ کے دوران صرف عورتوں کے تجربات پر ریسرچ کی ہے کیونکہ کہا جاتا ہے کہ 71 میں دس لاکھ عورتوں کو ریپ کیا گیا۔ لیکن بہت کوشش کے باوجود اس کو ایسی کوئی عورت نہ مل سکی۔ آخر وہ ہائی کورٹ کے اس جج سے ملی جسے ان عورتوں کی بحالی کا انچارج بنایا گیا تھا۔ اس نے کہا کہ ہم پالیسی کے طور پر کسی کا نام نہیں بتاتے تا کہ ان خواتین کے لیے مشکلات پیدا نہ ہوں۔
ڈاکٹر یاسمین نے کہا یہ کس طرح ممکن ہے کہ ایک ایسا بین الا اقوامی سانحہ ہوا ہو اور اس کے بارے میں بات کرنے والا کوئی بھی نہ ہو؟ آخر اس نے ایک عورت کو ڈھونڈ ہی لیا۔ اس نے کہا ’ہاں، میری عزت لوٹی گئی تھی‘ ۔ پھر ڈاکٹر یاسمین نے زور دے کر پوچھا کہ کیا وجہ ہے کہ کوئی اس واقعہ کے بارے میں بات نہیں کرنا چاہتا تواس نے کہا ’کوئی بات کس طرح کرے۔ آج کل یہاں جو ایم این اے ہے وہی تو ان فوجیوں کو اپنے ساتھ لایا تھا جنہوں نے میرے ساتھ یہ حرکت کی تھی‘ ۔
خالدہ ضیا جب پاکستان آئیں تو ان کے ساتھ ایک ریٹائرڈ بریگیڈیر آئے ہوئے تھے۔ یہاں لاہور میں ان سے ملاقات ہوئی۔ میں نے ان سے کہا کہ سنا ہے بنگلہ دیش میں ہندوستان کے خلاًف شدید جذبات کی وجہ سے فوج میں بھی پاکستان کی حمایت بڑھ گئی ہے۔ کچھ وقفے کے بعد وہ بولے لیکن میں کس طرح پاکستان کا حامی ہو سکتا ہوں۔ میری کہانی تو تمھیں یاد ہو گی۔ اس بریگیڈیر کی بہن پاکستان آرمی کی واحد بنگالی لیڈی ڈاکٹر تھی۔ مغربی پاکستان کے فوجیوں نے اس کو جیسور میں ریپ کیا اور پھر قتل کردیا۔ وہ بریگیڈیر کہنے لگا ”اس زخم کی یاد تو دن رات ہمارے خاندان کے ساتھ ہوتی ہے۔ ہمارے لیے تو جنگ ابھی تک جاری ہے۔ “

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3 4 5 6

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments