کرنل (ر) نادر علی کی 1971ء کے بارے میں یاد داشتیں


مجیب الرحمٰن کو کیسے گرفتار کیا گیا؟

اب مجیب الرحمٰن کی کہانی سن لیں۔ 25 مارچ کی رات میری ہی بٹالین کے بندے مجیب الرحمٰن کو گرفتار کرنے گئے۔ میں اس وقت مغربی پاکستان ہی میں تھا۔ بٹالین کے کمانڈنگ افسر کرنل زیڈ اے خان تھے۔ ’بانگلہ بندھو‘ کا گھر مزاحمت کاروں کی حفاظت میں تھا۔ جب اتنی طاقتور فورس مشین گن کا فائر کرتے ہوئے وہاں پہنچی تو تمام گارڈ اور مزاحمت کار بھاگ گئے۔ زیڈ اے خان نے مجھے بتایا کہ میں نے مجیب الرحمٰن کو سیلوٹ کیا اور کہا ’سر مجھے آپ کی گرفتاری کے آرڈر ہیں‘ ۔ مجیب الرحمٰن نے کچھ مہلت مانگی اور اپنا بکس وغیرہ پیک کیا۔ پھر سب لوگ جب سیڑھیاں اتر رہے تھے تو کرنل زیڈ اے خان آگے تھے، ان کے پیچھے مجیب الرحمٰن اور سب سے پیچھے دو سپاہی تھے۔ ان میں سے ایک سپاہی نے مجیب الرحمٰن کو تھپڑ دے مارا۔
کرنل زیڈ اے خان نے مجیب الرحمٰن کووہ پروٹوکول دیا جو ایک پڑھا لکھا مہذب انسان پاکستان کی قومی اسمبلی کے ایک رکن کو گرفتار کرتے وقت دے گا۔ لیکن وہ سپاہی ایک اور سطح پر تھا۔ اسے اس آدمی پر بہت غصہ تھا جو اس کے خیال میں ساری شرارت کی جڑ تھا۔
کرنل زیڈ اے خان نے بتایا کہ شام تک مجیب الرحمٰن ہمارے پاس رہا پھر ہم نے اسے ہینڈ اوور کر دیا اور اسی رات اسے مغربی پاکستان بھیج دیا گیا۔ لیکن اس وقت تک وہ اتنا خوف زدہ ہو چکا تھا کہ اس سے کوئی بھی بات کرتا تو وہ چونک کر اپنے چہرے کے آگے ہاتھ کر لیتا۔
بہت سال بیت گئے۔ کرنل زیڈ اے خان بریگیڈئیر بنے اور ریٹائرمنٹ کے بعد 71 کی جنگ پر کتاب بھی لکھی۔ انہوں نے مجھے بتایا کہ ایک سینئر جنرل نے ان سے پوچھا ’تم نے اس کو مارا کیوں نہیں؟ ‘ تو میں نے جواب دیا ’سر مجھے ایسا کوئی آرڈر نہیں دیا گیا اور نہ ہی آپ ایسی کوئی توقع رکھیں کہ میں ایسا آرڈر پورا کرتا‘ ۔ اس پر جنرل بولا ’تم عجیب بیوقوف ہو۔ کیا ہم اس کو اس وقت مار سکتے تھے جب ساری دنیا کو پتہ چل چکا تھا کہ ہم نے اس کو حراست میں لے لیا ہے؟ تمھارے پاس اس حرامزادے کو مارنے کا سنہری موقع تھا‘ ۔ زیڈ اے خان کہنے لگے کہ میں اپنے سپاہی کو برا بھلا کہ رہا تھا کہ اس نے تھپڑ کیوں مارا اور ادھر یہ حال ہے۔

ایک گولی کتنے بنگالیوں میں سے گزرتی ہے؟

کومیلا میں اے پی پی کانمائندہ ٹونی میسکیریناس تھا۔ کومیلا ہمارا ڈویڑنل ہیڈکوارٹر تھا جہاں جنرل شوکت رضا تعینات تھے۔ جنرل شوکت رضا واحد آدمی تھے جو پورے ایکشن سے الگ تھلگ رہے۔ جنرل شوکت رضا میرے پرانے انسٹرکٹر تھے۔ ان سے ملاقات ہوئی تو انہوں نے کہا کہ یہ جو بھی ہو رہا ہے ان لوگوں کو کوئی سمجھ نہیں کہ یہ کیا کر رہے ہیں۔ لیفٹیننٹ کرنل بیگ ان کاسٹاف افسرتھا۔ کرنل بیگ سے بات چیت ہوئی تو اس نے کہا میں نے تو گلاب کے پھول لگائے ہوئے ہیں۔ بس ان کو دیکھتا رہتا ہوں۔ ٹونی میسکیریناس بھی وہیں کہیں ان کے پاس تھا۔ وہ ادھر سے بھاگ کر براستہ کلکتہ، لندن پہنچ گیا۔ وہاں جا کر اس نے اپنی کہانی ٹائمز آف لندن کو بیچی۔ اس میں کہا گیا کہ کرنل بیگ لوگوں کو اپنے پھول وغیرہ دکھاتا ہے لیکن اس کا سگنل افسر روایت کرتا ہے کہ ’میں تجربہ کر رہا تھا کہ اگر بنگالی ایک قطار میں کھڑے کیے جائیں توکتنے بنگالیوں میں سے گولی گزرتی ہے۔ میں نے آٹھ بندے ایک لائن میں کھڑے کروا کر ایم ون بندوق سے فائر کیا تو گولی آٹھوں میں سے گزرگئی‘ ۔ ہم سب کو ٹونی میسکیریناس کی کہانی کی فوٹو کاپی بانٹی گئی اور ساتھ میں آرڈر آیا کہ صحافیوں سے غیر ضروری باتیں نہ کی جائیں

محب وطن حلقوں کے تعاون کی حقیقت

وہاں ہندوؤں کی جتنی جائیداد تھی، لوٹ لی گئی۔ پھر یہ سلسلہ شروع ہوا کہ مقامی مسلم لیگ یا جماعت اسلامی والے ہمارے پاس آ کر کہتے کہ فلاں پراپرٹی ہمیں الاٹ کر دو۔ یہ ایک قدرتی بات ہے کہ جب فوج کا کسی جگہ پر قبضہ ہو جائے خاص طور پر اگرکوئی خاص مزاحمت بھی نہ ہو تو اس کے حمایتی بھی پیدا ہو جاتے ہیں۔ مثلاً جماعت اسلامی والے میرے پاس آتے تھے پروفیسر غلام اعظم وغیرہ۔ وہ مجھے سویلین رضاکار دیتے تھے جن سے میں نے انڈین بارڈر کے پار کئی سبوتاژ آپریشن کروائے۔ لیکن رضاکار دینے کے بعد ان کی کوئی نہ کوئی سفارش بھی ہوتی تھی کہ فلاں بندے کی دوکان ہمیں دے دی جائے یا ہمارے فلاں بندے کا خیال رکھا جائے۔
ایسے مقبول عوامی لیڈر بھی تھے مثلاً فضل القادر چوہدری یا مولانا فرید احمد وغیرہ۔ یہ لوگ ہمارے پاس آ کر کہتے تھے کہ فلاں بندے کو مار دو یا فلاں بندے کے ساتھ یہ کر دو۔

تصویر کے دونوں رخ یکساں سیاہ ہیں

ہماری بٹالین کا ہیڈ کوارٹر ڈھاکا میں تھا۔ اس کے علاوہ کچھ حصے کومیلا اور رنگا متی میں بھی تھے جہاں کا میں مارشل لا ایڈمنسٹریٹر تھا۔ اس کے علاوہ مختلف نوعیت کے مشن ہوتے تھے۔ کہیں سرحد پار ایکشن کی پلاننگ کرنی ہوتی تھی تو کہیں پر کمانڈوز کی ضرورت ہوتی تھی۔ میرے اپنے ہاتھوں سے کسی بے گناہ کو تکلیف نہیں پہنچی لیکن میں جہاں جاتا، وہاں کسی نہ کسی سانحہ کی کہانی آپ کے لیے تیار کھڑی ہوتی۔ جیسے میں سنتہار پہنچا تو مجھے بتایا گیا کہ آپ کے آنے سے پہلے اس شہر کے ہر آدمی کو قتل کر دیا گیا ہے۔ خیر اس طرح کی کہانیوں نے مجھ میں احساس جرم شدید کر دیا۔ میں کسی گاو¿ں وغیرہ جاتا تو وہاں کے انتہائی غریب لوگ فوج سے دب کر بیٹھے ہوتے۔
جب میں شمالی بنگال پہنچا تو مجھے ٹھاکر گنج کے مختلف واقعات سنائے گئے۔ یہ ایسٹ پاکستان رائفلز کا علاقہ تھا۔ جب رات کو میرے لیے کھانا لایا گیا تو معلوم ہوا کہ اس گھر میں مغربی پاکستانی میجر محمد حسین رہتے تھے۔ میجر محمدحسین اور ان کے اہل خانہ کو بنگالی سپاہیوں نے مار دیا تھا۔ ان کے خاندان کی صرف ایک بچی زندہ بچ سکی تھی۔ اور میں اس بچی سے ڈھاکا میں ملا۔ وہ بچی بول نہیں سکتی تھی۔ جب مجھے یہ کہانی سنائی گئی تو مجھے جگہ جگہ اس واقعے کے آثار دکھائی دینے لگے۔ گھر میں کئی جگہ خون کے دھبے تھے۔ باتھ روم میں گیا تو وہاں کھڑکیوں میں گولیوں سے بچاو¿ کے لیے تکیے ٹھنسے تھے۔ بچوں کی کتابیں، کھلونے اور جوتیاں ہر جگہ بکھری ہوئی تھیں۔ سارا منظر میری آنکھوں کے سامنے گھومنا شروع ہو گیا۔ اس کے ساتھ ساتھ مجھے احساس جرم بھی تھا کہ میں یہاں آیا کیوں؟ بعد میں مجھے احساس ہوا کہ جس وقت میں بطور ہیرو اپنی پرستش سے لطف اندوز ہو رہا تھا، اس وقت میرے آس پاس لوگ مارے جارہے تھے۔ اس کے علاوہ مجھے یہ بھی لگتا تھا کہ ہم ٹھیک جا رہے ہیں۔ میری توجہ محدود ہوکر بس سرحد پار ایکشن تک ہی رہ گئی تھی۔ کسی قسم کے حملے یا جنرل نیازی کے منصوبوں کے بارے میں تو کبھی سوچا نہ تھا۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3 4 5 6

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments