کرنل (ر) نادر علی کی 1971ء کے بارے میں یاد داشتیں


اب لوٹ کے آئے ہو تو گھر کیسا لگا ہے؟

اب میں بٹالین سے فارغ ہوا تو میرے الوداعی ڈنر شروع ہو گئے۔ مجھے جنرل نیازی نے بھی گھر بلایا۔ اس دوران میں نے بہت زیادہ شراب پینا شروع کردی اور آہستہ آہستہ مجھ پر اجاگر ہونا شروع ہوا کہ میرے ساتھ ہوا کیا ہے؟
اس دوران مجھے مغربی پاکستان سے ایک فوجی دوست کا خط ملا جس میں اس نے مشرقی پاکستان میں کسی بائیں بازو کی جماعت سے رابطہ کرنے کی خواہش ظاہر کی تھی۔ اگلی صبح میری فلاًئیٹ تھی تو انٹر کانٹی نینٹل ہوٹل میں ڈرنک کرنے کے بعد مجھے ایک پیغام موصول ہوا کہ فلاًں نمبر کمرے میں آپ کو کوئی ملنا چاہتا ہے۔ تو مجھے لگا کہ شاید یہ بائیں بازو کی جماعت کی طرف سے کوئی پیغام ہے۔ مجھے اپنا دماغ حقیقت سے کٹا ہوا محسوس ہونا شروع ہوگیا۔ اگلی صبح جہاز میں بھی میں اس کیفیت میں ڈوبتا ابھرتا رہا۔ میرے ذہن میں ایک ایسی کہانی نے جنم لینا شروع کیا جس کا حقیقت میں کوئی وجود نہیں تھا۔ مجھے یقین ہوگیا کہ میں عام انسانوں کا مسیحا ہوں۔ ان کو ظلم سے نجات دلانے والا ہوں اور میرے خلاف کچھ لوگ سازش کر رہے ہیں۔ جب میں کراچی لینڈ کیا تو کچھ لمحوں کے لیے میں اس کیفیت سے نکل آیا اور میں نے اپنے آپ کو کہا کہ تم یہ کیا بکواس سوچ رہے تھے۔ لیکن لاہور پہنچتے تک میں واپس اسی خیالی د نیا میں جا چکا تھا۔ یہاں ایک اور بات کہنی ضروری ہے کہ میرے اس ذ ہنی کیفیت میں واپس جانے کی وجہ یہ بھی تھی کہ پاکستان میں کسی کو خبر تک نہ تھی کہ مشرقی پاکستان میں کیا ظلم اور بربادی ہو رہی ہے۔ کراچی شہر ویسے ہی رواں دواں تھا۔ لا ہور میں ہم جم خانہ جا کر ڈرنک کرتے تھے اور وہاں سلہری صاحب قائداعظم اور نظریہ پاکستان کے کسی باریک نکتے پر لیکچر دے رہے ہوتے۔ پورا ملک اصل حقیقت سے بے خبر روزمرہ کے معمول پر چل رہا تھا۔ یہاں مجھے ایک انکوئری پر بٹھا دیا گیا جس میں ڈیڑھ کروڑ کا گھٹیا صابن خریدے جانے کی تفتیش کرنی تھی۔ اب آپ خود سوچیں کہ میں ایک جنگی کیفیت میں سے اٹھ کر ایک ایسی جگہ پر آ گیا ہوں جہاں پر لوگ اپنی اپنی زندگی میں مصروف ہیں اور ان سے اگر مشرقی پاکستان کی بات کرو تو وہ کہتے ہیں کہ چھوڑیں جی کوئی اور بات کریں۔ اب میں نے اور زیادہ شراب پینا شروع کر دی۔

فرزانہ وہی ٹھہرا جو پاگل ہو گیا

میں دن میں کم از کم ایک بوتل پی جاتا۔ میں نے کھانا بھی چھوڑ دیا۔ اب میری حالت اور بدتر ہونا شروع ہو گئی اور میں آہستہ آہستہ دیوانگی کی حدود میں داخل ہوگیا۔ مجھے لگتا تھا کہ میں ہی دنیا کا اہم ترین انسان ہوں جس نے پوری دنیا کو بچانا ہے۔ میں اپنی خیالی دنیا ہی میں رہتا تھا۔ میری جو دفتری خط و کتابت ہوتی تھی اس میں مجھے خفیہ پیغام نظر آنا شروع ہو گئے۔ مجھے لگتا تھا کہ ٹی وی اور ریڈیو مجھ سے مخاطب ہیں۔ پوری دنیا مجھ سے مخاطب ہے۔ تو اس طرح میں نے دو سال دنیا پر حکومت کرکے دیکھا۔ یہ میری بیوی اور بچوں کے لیے انتہا ئی تکلیف دہ وقت تھا۔ لیکن کیونکہ میں فطرتا تشدد کو پسند نہیں کرتا تھا اس لیے میری یہ کیفیت لوگوں پر ظاہر نہ ہوئی۔ بچوں کے ساتھ میں با لکل ٹھیک تھا اور پیار کرتا تھا لیکن آہستہ آہستہ میرے صبر کا پیمانہ لبریز ہوتا گیا کیونکہ مجھے اپنے خیالی ساتھیوں سے کوئی جواب موصول نہیں ہو رہا تھا جب کہ میرے خیال میں آدھی دنیا میرے ساتھ تھی۔ میں اپنی ٹو ٹو رائفل لے کر روسی سفارتخا نے کے باہر چلاً گیا جہاں باہر بیٹھے ایک کوے کو میں نے فائر کرکے مار دیا۔ یہ میرا خفیہ سگنل تھا کہ چلو باہر نکلو اور پیپلز ری پبلک کا اعلان کرو۔ لیکن انھوں نے بھی اس پاگل پر کوئی توجہ نہیں دی۔ بالآخر مجھے ہسپتال لے جایا گیا۔ میں ہسپتال میں تقریبا چار مہینے رہا۔ اس طرح کے حالات میں آپ کا عہدہ واپس لے لیا جاتا ہے لیکن انہوں نے اس طرح نہیں کیا اور میں کرنل ہی رہا۔ پھر جب ہوش آیا تو یاد آیا کہ میں نے کس طرح خیالی چیزوں کا تصور کرنا شروع کیا تھا۔ پھر مجھے وہ خط بھی یاد آیا جو مجھے ڈھاکا کے انٹر کا نٹی نینٹل میں مجھے ملا تھا۔ وہ کال اور مایا کا جو گھیرا تھا وہ مجھے نظر آنا شروع ہوگیا۔ ڈاکٹر کو میں نے کہانی سنائی تو اس نے کہا کہ میں نے کبھی ایسا مریض نہیں دیکھا جس کو کہانی کا پتہ بھی ہے اور پھر بھی وہ پاگل ہو گیا۔ میں نے کہا کہ مجھے وہ کہانی تو اب یاد آئی ہے۔

گلیاں اجڑ گئی ہیں مگر پاسباں تو ہے

اس دوران میرے ساتھ ایک سانحہ یہ ہوا کہ میرے والد مجھے دیکھنے ہسپتال آئے تو میری حالت بہت خراب تھی۔ میں اپنی یادداشت کھو چکا تھا اور میرا منہ کھلا رہتا تھا۔ مجھے دیکھ کر وہ گاؤں گئے۔ رات کو سونے لیٹے اور پھر کبھی نہ اٹھے۔ مجھے ڈاکٹر نے کہا کہ تم اپنی ایک نئی سویلین زندگی شروع کرو۔ فوج میں تو کوئی تمھیں ترقی نہیں دے گا۔ سو میں نے ریٹائرمنٹ لے لی۔ اس کے بعد بھی میں کافی عرصے تک دیوانگی کی سرحد کے آس پاس ہی رہتا تھا لیکن کچھ اچھے لوگوں کا ساتھ مل گیا جن کی وجہ سے میں بچا رہا۔ میں نے اپنے ذہنی انتشار کے بارے میں بہت سوچا اور مجھے یہی سمجھ آیا کہ یہ کسی احساس جرم کا نتیجہ تھا۔ اب میں پنجابی میں کہانیاں اور نظمیں لکھتا ہوں جن میں غیر شعوری طور پر بنگال کے تجربات اور واقعات کا ذکر ہوتا ہے۔ واپس بنگلہ دیش جانے کا بھی سوچتا ہوں۔ دیکھئے کیا ہوتا ہے؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3 4 5 6

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments