افسانہ نگار رمز کریم اور شمیم ہیجڑے کی کتابیں


اس نے ایک لمبا کش لیتے ہوئے ناک سے دھواں خارج کیا۔ میں دم سادھے بیٹھا اس کی لب کشائی کا منتظر تھا۔ دھوئیں کے مرغولے بننے مٹنے لگے۔
گرو کی طبیعت خراب تھی۔ وہ ایک کمرے میں پڑی رہتی اور ہم صبح سویرے دھندے پر نکل جا تے اور رات کو آتے ایک رات میں کمرے میں آئی تو میں نے دو جاء نمازیں اور ڈھیر ساری تسبیحیں دیکھیں۔ ہم جب اپنے گھر میں تھے تو دوسروں کو نماز پڑھتا دیکھتے تھے، اور خود اتنے چھوٹے تھے کہ ابھی نماز فرض نہ ہوئی تھی۔ اور جب اس عمر کو پہنچے کہ جب نماز پڑھ سکتے تھے تو خود کو گرو کے پاس پایا۔ ہم جب بھی گرو سے نماز پڑھنے کی ضد کرتے ان کا ایک ہی جواب ہو تا۔

کم بختو! تمہیں نماز سکھا ئے گا کون، مجھے تو آتی نہیں۔ اور تم ٹوپی رکھ کر نماز پڑھو گے کہ دو پٹہ اوڑھ کر۔
میں نے گرو سے کہا دوپٹہ اوڑھ کر۔
اس نے مجھے دو ہتھڑ مارے۔ کہنے لگی اری نماز پڑھنا مردوں کا کام ہے عورتوں کی طرح گھر میں نماز پڑھی تو کس نے دیکھا۔
اللہ تو دیکھ رہا ہے۔ میں نے ڈرتے ڈرتے کہا
جب ہم ماں کی کوکھ میں تھے تب اس نے نہ دیکھا تو اب کیا دیکھے گا۔
گرو کے جواب نے مجھے لاجواب کر دیا پھر کبھی نماز پڑھنے کی ضد نہیں کی۔

اس روز جس تسبیحیں اور جاء نمازیں دیکھیں تو فوراً وہ سب لے کر گرو کے پاس پہنچے اور گرو کو اس بات پر قائل کر ہی لیا کہ اللہ چاہتا ہے کہ ہم گھر پر ہی نماز پڑھیں۔ نماز پڑھنا تو ہمیں آتی نہیں تھی بس جاء نماز پر بیٹھ کے نماز قائم کرتے اور جو کچھ سورتیں یاد تھیں وہ ہی پڑھتے، سجدے پہ سجدہ کرتے اور تسبیح ہاتھ میں لے کر اللہ اللہ کرتے۔ کچھ روز بعد چھوٹی چھوٹی کتابی شکل میں آیت الکرسی، آئتِ کریمہ، نادِ علی اور پنج سورہ کمرے میں ملیں۔ کچھ تعویز بھی تھے۔ مجھے کیوں کہ اردو پڑھنا آتی تھی اس لیے میں انہیں پڑھنے لگی اور گرو کو بھی سنا نے لگی۔ کچھ روز سے ہما را دھندہ بھی مندہ چل رہا تھا۔ ایک روز جو کمرے میں آئی تو دیکھا صبا زیورات سے لدی آئنے کے سامنے کھڑی ہے۔
یہ کہاں سے آئے؟ میں نے پوچھا۔

خدا نے بھیجے ہیں۔ اس نے انگلی میں انگوٹھی ڈالتے ہو ئے کہا۔
پھر ایک روز ہمیں آٹے کی دو بوریاں ملیں اور دالوں کے کچھ پیکٹ بھی تھے۔
خدا کی طرف سے ہما ری روزانہ امداد ہو رہی تھی ایسا صبا کا خیال تھا ورنہ ہما ری امداد تو ہمارا نطفہ ٹھہرتے ہی بند کر دی گئی تھی۔
پھر کئی روز ہمیں کمرے سے کچھ نہ ملا۔ صبا کا خیال تھا کہ خدا کسی وجہ سے ہم سے ناراض ہو گیا ہے۔ وہ خدا کو منانے کے لیے جاء نما ز بیٹھ کر اللہ اللہ کا ورد کرنے لگی اور ساتھ ساتھ توبہ استغفار بھی کرتی جا تی۔

اگلے روز نئی سینڈلوں کے ڈبے ملے وہ ہم نے اپنی ساتھیوں میں بانٹ دیے۔ اور پھر ایک روز ساری جاء نمازیں اور تسبیحیں غائب ہو گئیں، اور ایک روز آٹے کی پوری بوری غائب۔ اور قیامت اس روز آئی جب صبا کے زیورات غائب ہو گئے۔ صبا نے چور کو گالیاں دے دے کر آسمان سر پر اٹھا لیا۔ میں مسکراتی رہی۔ دے تو خدا، لے تو چور۔ دینے والا خدا اور لینے والا چور ہو سکتا ہے تو دینے والا چور اور لینے والا خدا کیوں نہیں ہو سکتا۔ لیکن شاید خدا سے کو ئی دشمنی مول لینا نہیں چاہتا۔

میں اس خدائی چور کو رنگے ہاتھوں پکڑنا چاہتی تھی۔ اس لیے ایک روز بیماری کا بہانہ کر کے گھر پر ہی رہ گئی۔ میں سارادن گھر پرپڑی گرو جی کی سیوا کرتی رہی۔ اس دن نہ تو خدا نے کچھ دیا اور نہ چور نے کچھ لیا۔ ہاں گرو کی دعائیں ڈھیروں ملیں، لیکن ہم تو ماں باپ کو ملی بد دعاؤں سے ڈھیر تھے۔ دعائیں کیا اثر کرتیں۔

اگلے روز سب کے ساتھ نکلی تو ضرور مگر آدھے گھنٹے بعد ہی واپس آگئی۔ گھر کے دروازہ پر تالا پڑا تھا اگر چور گھر میں ہوتا تو تالا کھلا ملتا میں مایوس ہو کر اپنے کمرے میں آگئی۔ تو موا میرے بستر پر سو رہا تھا۔ صبا کی ڈریسنگ ٹیبل پر میک اپ کے سامان کے ڈبے رکھے تھے۔ خدا ہمیں میک اپ کا سامان دے کر سو گیا تھا۔ میں نے اسے جھنجوڑ کر اٹھایا وہ ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھا۔ اس سے پہلے کہ وہ بھاگتا میں نے اس کا ہاتھ مضبوطی سے پکڑ لیا۔
کیوں نامراد کیا ڈرامہ رچا رہا ہے اتنے دنوں سے۔
پہلے میرا ہاتھ چھوڑو۔ اس نے اپنا ہاتھ چھڑانے کی کوشش کی۔ میں بتاتا ہوں۔

قصّہ مختصر، شمیم نے گہری سانس لی۔ اس نے بتا یا کہ وہ گاؤں سے آیا ہے۔ پہلے تو وہ مسجد میں رہا۔ مگر مسجد کے پیش امام نے کہا کہ وہ مسجد کے نام پر چندہ دے کر اللہ کو راضی کرنے کی کوشش کرے، اگر اللہ اس سے راضی ہو گیا تو وہ کبھی بے آسرا نہیں رہے گا۔ اس نے جیب میں ہاتھ ڈالا اور مٹھی بند کر کے مولوی صاحب کی طرف ہاتھ بڑھایا، پھر مٹھی کھول کر ان سے ہاتھ ملایا اور مسجد کی طرف پیٹھ کر کے چل دیا۔ مولوی صاحب سخت ناراضی کا اظہار کرنے لگے۔ اس دن اس نے پہلی بار اللہ کی ناراضی کو اپنی آنکھوں سے دیکھا۔ اس کے پاس نہ رہنے کا ٹھکانہ تھا نہ اب تک نوکری ملی تھی۔ اس نے ایک اور مسجد کے پیش امام سے ایک رات قیام کی درخواست کی اور اسی رات وہاں سے تسبیحیں اور جا ء نما ز چوری کر کے کھسک لیا۔ اور دن میں انہیں آسانی سے بیچ دیا۔ یوں اس کے ہاتھ یہ دھندہ لگ گیا، رات کو کسی مسجد میں قیام اور منہ اندھیرے چند چیزیں چوری کر کے اپنی گزر بسر کرتا۔ ایک دن اس نے ہمیں ایک مکان سے نکلتے دیکھا۔ ہمارے نکلتے ہی اس نے بڑی آسانی سے جھٹکا دے کر تالا کھول لیا تالا تھا بھی اتنا ہی بے کار۔

وہ اندر داخل ہو گیا۔ اندر آکر اس نے پورے گھر کا جا ئزہ لیا۔ گرو جی کے کمرے میں گیا وہ ساکت پڑی سو رہی تھی۔ گرو کے کمرے کا دروازہ باہر گلی میں کھلتا تھا۔ وہ اس دروازے سے باہر نکلا اور مرکزی دروازے کو اسی طرح تالا لگا کر دوبارہ اندر داخل ہو گیا۔ تالا وہ اپنے اطمینان کے لیے لگاتا تھا۔ تاکہ کوئی آنے جا نے والا دروازہ نہ بجا ئے اور باہر ہی سے تالا لگا دیکھ کر لوٹ جا ئے۔ اپنی نیند پوری کرنے کے بعد اس نے مسجد سے چرائی ہو ئی چیزیں کمرے ہی میں چھوڑ دیں اور واپس چلا گیا۔ روزانہ دن میں وہ ہمارے کمرے میں آرام کر کے شام کو واپس چلا جا تا۔ اب اس کے ہاتھ یہ دھندہ آگیا تھا کسی بھی دکان پر کچھ دن نوکری کر کے چیزیں چرانا اور انہیں بیچ کر اپنا گزا را کرنا۔ بچی ہو ئی چیزیں ہمارے کمرے میں چھوڑ دیتا۔ اور کبھی کچھ نا ہو نے کی صورت میں انہیں بیچنے کی کوشش کرتا۔

میں چور نہیں ہوں اپنی داستان سنانے کے بعد وہ بولا۔
اچھا! میں نے طنز کیا
مطلب میں نے تم لوگوں کا کچھ نہیں چرا یا۔
ہاں یہ تو ہے مگر تم ہم لوگوں کا چراؤ گے بھی کیا۔ میں نے دل میں کہا۔

مضمون کا بقیہ حصہ پڑھنے کے لئے “اگلا صفحہ” کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3 4 5