افسانہ نگار رمز کریم اور شمیم ہیجڑے کی کتابیں


پھر وہ میرے کمرے میں دن گزارنے لگا میری کتابیں پڑھتا، آرام کرتا اور شام کو چلا جا تا۔ میری ساری ساتھیوں کو اس کے بارے میں پتہ چل چکا تھا مگر کسی کو اس سے کو ئی شکائت یا بے آرامی نہیں تھی۔ وہ اسی کمرے میں بیٹھ کر کچھ نہ کچھ لکھا کرتا۔ وہ مختلف رسالوں میں بھی چھپنے لگا۔ اب اس نے دکان پر نوکری اور چوری کرنی بھی چھوڑ دی تھی۔ اس نے ادیبوں اور شاعروں میں بیٹھنا شروع کردیا۔ آہستہ آہستہ اس کا شمار ملک کے معزز ادیبوں اور شاعروں میں ہو نے لگا۔ اسی اکیلے کا تو دم تھا ہم نے سامنے والا کمرہ اسے کرا ئے پر دے دیا۔ اب وہ رات دن یہیں رہا کرتا تھا۔ ایک لڑکی اس پر بری طرح عاشق ہو گئی وہ شادی نہیں کرنا چا ہتا تھا۔

مگر اس لڑکی کے حد سے زیادہ مجبور کرنے پر اسے شادی کرنی ہی پڑی۔ شادی کے بعد اس لڑکی نے رمز کریم کو ہمارے ہاں آنے سے منع کر دیا۔ کبھی کبھی میں رمز کریم کے ہاں چلی جا تی تھی۔ اس کی بیوی کو یہ بھی گوارا نہ ہوا اس لیے میں نے جانا چھوڑ دیا۔ لیکن پھر نہ جانے کیا ہوا ایک اخبار سے پتہ چلا کہ رمز کریم اپنی بیوی کو چھوڑ دیا ہے۔ ایک روز وہ مجھے راستے میں مل گئی، زبر دستی مجھے اپنے گھر بھی لے گئی۔ میرے اڈے پر بھی ایک آدھ دفعہ آئی پر گرو نے اسے منع کر دیا۔
ارے! تمہیں اس کا گھر معلوم ہے؟ مجھے لے چلو، مجھے رمز کریم کے بارے میں جانا ہے؟

ارے! اتنا کچھ تو بتا دیا۔ اب کیا جاننا ہے۔ اس نے غصے میں میری ولدیت کو شک میں ڈال دیا۔ جاؤ اب، صبح مجھے صبا کی سڑک کا پھڈا بھی نبٹانا ہے۔
صبا کی سڑک؟
ہاں وہ موتی محل والی سڑک ہے نہ، وہ اس حرا م زادی، صبا کے نام ہے۔
مگر وہ تو راشد منہاس کے نام پر ہے۔

ایسی پچاس سڑکیں بھی اس کے نام کر دو تو کیا وہ انہیں لینے آئے گا۔ دنیا میں بزدلی سے جینے والے ایسی سڑکوں کو بغیر کسی کاغذ کے اپنے نام کر کے پیسہ کماتے ہیں۔ بھکاریوں کے لیڈر نے سارا گند پھیلایا ہے۔ ہمیں نہ تو کوئی نوکری دیتا ہے نہ بھیک۔ کیسے ملے بھیک نہ کو ئی معذوری، نہ بال بچے کس سہارے پر کوئی ہمدردی کرے گا مسکراتے ہوئے ہاتھ پھیلاتے ہیں اور اگلا بھی مسکراتے ہوئے نظر ڈال کر آگے بڑھ جا تا ہے۔ ائے صبا! اس نے چلّا کر صبا کو آواز دی۔ اس کو باہر نکال۔ یہ ایسے نہیں جائے گا۔
صبا آکر دروازے سے ٹیک لگا کرسیدھی کھڑی ہوگئی، اور ہونٹ ٹیڑھے کر کے مجھے دیکھنے لگی۔ میں کھسیانی ہنسی ہنستے ہوئے دروازے کی طرف بڑھا۔

کوئی دو ڈھائی ماہ تک اپنے مسائل میں الجھا رہا لیکن رمز کریم کی کہانی نے بھی مجھے بے چین کیے رکھا۔ پھر ایک دن رات آٹھ بجے شمیم کے اڈّے پر پہنچا۔ خلافِ توقع نرگس نے دروازہ کھولا۔
صبا کہاں ہے؟ میں نے پوچھا کیوں صبا ہی ہمیشہ دروازہ کھولتی تھی۔ ائے وہ شمیم کے غم میں اٹوائی کھٹوائی لے کر پڑی ہے۔ نرگس مٹکتی ہوئی چٹیا لہراتی میرے آگے آگے چل رہی تھی۔
کیا ہوا شمیم کو؟
مر گئی وہ۔ میں ہنس دیا۔

ائے لو تمہیں ہنسی آرہی ہے میں کہہ رہی ہوں مر گئی وہ۔ اب میں سنجیدہ ہو گیا۔
کیا کہہ رہی ہو؟ وہ کیسے مر سکتی ہے
ائے جیسے سب مرتے ہیں۔
میں گھبرا یا ہوا شمیم کے کمرے میں آیا تو صبا بے حال پڑی ہوئی تھی، مجھے دیکھ کر لپٹ گئی اور آوازیں نکال کر بھوں بھوں رو نے لگی۔
بڑی مشکل سے اسے چپ کرا یا۔
کب؟ کیسے؟ اس کا رونا بند ہو تے ہی میں نے پوچھا

ایک ہفتہ ہو گیا، پتہ نہیں کس دھن میں سڑک پار کر رہی تھی، ٹرالر اسے ایسے کچلا، کہ پہچان ہی مٹا دی۔ صبا نے اپنی ایک ہتھیلی پر دوسری ہتھیلی رکھ کرہلکی سی تالی بجائی، اور دونوں ہتھیلیوں کو آپس میں دائیں جانب مسل دیا۔ میں نے شدید تکلیف محسوس کرتے ہوئے اپنی آنکھیں اور ہونٹ بھینچ کر سر جھکا دیا۔
شور تو ہمارے آس پاس اٹھا کہ کوئی عورت کچلی گئی ہے، پر یہ خیال نہ آ یا کہ اپنی شمیم ہو سکتی ہے، پندرہ دن تک گھر نہ آئی ہم اسے تلاش کرتے رہے۔ رمز کریم کی بیوی کو اس کی گمشدگی کا پتہ چلا تو وہ روزآنہ فون پر معلوم کرتی، بڑی پریشان تھی وہ۔

پریشان تو ہم سب بھی تھے ایک دن گرو کے خواب میں آئی۔ صبا یہ کہہ کر خاموش ہو گئی۔ میں نے چونک کر اپنا سر اٹھایا، صبا پلنگ سے لٹکی چادر سے ناک رگڑ رہی تھی۔
کون رمز کریم کی بیوی؟ صبا نے چادر چھوڑ کر تکیہ اٹھا کر اپنی گود میں رکھ لیا۔
نہیں شمیم۔ میں صبا کو آنکھیں پھا ڑ کر دیکھنے لگا۔

دہائیاں دے رہی تھی کہ تم نے بھی مجھے چھوڑ دیا، میرا چہرہ کچلا گیا ہے، پہچان نہیں، مجھے عام انسانوں کی طرح قبر تو دے دو۔ اسی روز رمز کریم کی بیوی آگئی، گرو نے اپنا خواب اسے بھی سنایا، اسی نے پتہ لگا یا، تو شمیم ایدھی کے سرد خانے میں پڑی تھی۔
چوٹی اور ریشمی کپڑوں سے لیڈیزجان کر بلدیہ والوں نے اسے لا وارث جان کر ایدھی کے سرد خانے میں ڈال دیا تھا۔

مضمون کا بقیہ حصہ پڑھنے کے لئے “اگلا صفحہ” کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3 4 5