افسانہ نگار رمز کریم اور شمیم ہیجڑے کی کتابیں


آج رمز کریم مر گیا۔ ادبی دنیا میں بہت مشہور تھا۔ اسے تو سرکار کی طرف سے ایک بڑا انعام بھی مل چکا تھا، مگر افسوس گمنام ہی رہا۔
کیا بک رہی ہو؟ مشہور تھے، انعام یافتہ تھے، پھر بھی گمنام کہہ رہی ہو۔ میں نے جھنجلا کر شمیم کو جھاڑا۔
تمہیں معلوم ہے، کون تھا وہ؟ اس کا نام کیا تھا؟ کہاں سے آیا تھا؟ اس کے بیوی بچے، ماں باپ، بہن بھائی؟
شمیم نے اتنی باتیں ایک ہی سانس میں مجھ سے پوچھ لیں۔
یعنی لم یلد ولم یو لد۔ میں نے ہنس کر کہا۔
ہاں کرداروں کو جنم دیتا تھا، مگر صرف کاغذ پر نچاتا تھا۔ خدا کی اس دھرتی پر نہیں۔ وہ میز پر پڑا ہوا پرس اٹھا کر اس میں کچھ تلاش کر نے لگی۔
لگتا ہے تمہیں بہت کچھ معلوم ہے ان کی نجی زندگی کے بارے میں؟ میں نے سوالیہ نظروں سے شمیم کی طرف دیکھا
ہاں مجھے معلوم ہے پر کسی کو بتاؤں گی نہیں۔

کیوں؟

کیوں کہ اس کی کہانی میں اس کی ”کہانی‘‘ جیسی کوئی بات نہیں۔ اللہ نے اس کی زندگی کا پلاٹ انتہائی بھدا اور بھونڈا تیار کیا تھا۔
اس نے پان کی پڑیا کھولی۔ اور کھانے کے لیے منہ کھولا، کچھ خیال آتے ہی پان میری طرف بڑھایا، میں نے ہاتھ کے اشارے سے انکار کیا
کفر بک رہی ہو تم۔ میں چڑ گیا
تمہیں کیوں تکلیف ہو رہی ہے۔ اس نے سامنے رکھے تکیے سے اپنی انگلیاں رگڑیں۔
تم بھی میری طرح بیچ کے ہو تے تو دیکھتی کتنا ایمان رہتا۔ اس نے ہتھیلی پر ہتھیلی مار کر پیک تھوکی۔ اور قمیض کا دامن اٹھا کر چہرے سے اپنا پسینہ صاف کیا۔
خیر چھوڑو یہ بتاؤ تمہیں رمز کریم کے بارے میں کیا معلوم ہے۔

اسے آمادہ کرنے کی غرض سے میں نے اپنے لہجے کو ملائم اور محبت آمیز کر دیا۔

بس اتنا بتاؤں گی کہ جب وہ میرے پاس آیا تو چور تھا۔ یہ کہہ کر وہ فوراً باہر نکل گئی۔

میرے اضطراب میں اضافہ ہو گیا۔ کم بخت نے کسی ڈرامہ سیریل کی انتہائی نازک موڑ پر کہانی کو ادھورا چھوڑ دیا تھا۔ لیکن کہا نی ابھی شروع کہاں ہو ئی تھی؟

میں رمز کریم کے بارے میں جاننے کے لیے بے چین تھا اور یہ شمیم میرے اندر آگ بھڑکا کر چلی گئی تھی۔

شمیم ایک ہیجڑا تھا۔ کتابیں پڑھنے کا شوق مجھے اس کے قریب لے گیا تھا۔ ہماری پہلی ملاقات دو سال قبل پرانی کتابوں کے ٹھیلے پر ہو ئی تھی۔ وہ اکثر دھندے سے فراغت کے بعد میرے گھر چلا آتا تھا۔ اور میں بھی کتابوں کے لالچ میں اس کے اڈے پر چلا جاتا تھا۔ اس کے پاس کتا بوں کا ڈھیر تھا۔ ہر موضوع پر کتابیں تھیں جو اس نے اپنے کمرے میں بڑی لا پر وائی سے ڈال رکھی تھیں اس کے ہم جنس اس کے کمرے میں آتے تو کوئی انہیں طبلے کی طرح بجاتا، کو ئی ان کے ٹائٹل کا گتّہ پھاڑ کر کر پنکھا بنا کر جھلتا۔ ان پر پراٹھے، نمکو یا سموسے رکھ کر کھائے جاتے اور جب بھی میں شمیم کو اس نا قدری پر ٹوکتا تو اس کا ایک ہی فقرہ ہو تا میں نے پڑھ لیں ہیں۔ بے کار ہیں۔

جو کتابیں اس نے نہ پڑھی ہو تیں وہ اچھی حالت میں اونچی جگہ سلیقے سے رکھی ہو تیں یا اس کے تکیے کے نیچے۔ ان کتابوں کو وہ مجھے ہاتھ بھی لگانے نہیں دیتی تھی، اور جب بھی میں ان پر چکنائی، ٹماٹو کیچ اپ یا چٹنی دیکھتا یا کسی اور کے پاس دیکھتا سمجھ جا تا کتاب بے کار ہو چکی ہے۔ یوں ساری بے کار کتابیں میں گھر لے آیا تھا۔
میرا شمیم کے ساتھ رشتہ مضبوط ہو تا چلا گیا، شمیم اپنے اڈے پر نو ہم جنسوں کے ساتھ رہتا تھا۔ اس کا گرو ریشم اب بوڑھا ہو چکا تھا اور بیمار رہنے لگا تھا۔
ایک گھنٹہ میں نے بے قراری سے گزرا اور میں شمیم کے اڈے پہنچ گیا۔

مضمون کا بقیہ حصہ پڑھنے کے لئے “اگلا صفحہ” کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3 4 5