شہباز شریف کی کراچی سیاست


ایک جدید انفراسٹرکچر کھلے روڈ میٹرو بسیں اورینج ٹرین وافر بجلی اور گیس۔ شہر دوست پولیس ایک صاف ستھرا شہر جس کی چوکس بلدیہ ہو اپنی بااختیار شہری حکومت۔ یہی سب کچھ درکار ہوتا باقی تفصیلات ہیں آپ سوچتے رہیں رنگ بھرتے رہیں۔

الیکشن میں جب چند ہفتے رہ گئے ہیں تو کیا کراچی میں اک نئی پارٹی کھڑی کی جا سکتی ہے؟ الیکشن جیتنے والی انتظامی مشین ہی نہ ہو تو الیکشن نتائج لینا کیا ممکن ہے۔ اتنے کم وقت میں۔ اس کا سادہ سا جواب ہے کہ ممکن ہے۔ کراچی میں بالکل ممکن ہے۔ ریلیاں بڑے جلسے دھرنے اور لمبی بے تکی بے مقصد تقریروں کا یہ دور ہی نہیں۔ نئے آئیڈیاز نئے طریقے بہت آ گئے ہیں ۔

اگر ہم شہباز شریف کی بات کر رہے ہیں۔ تو انہیں کراچی کے لیے خود کو ری لانچ کرنے کی ضرورت ہے۔ سب سے پہلے خود کو سیاستدان کے طور پر پیش کرنا چھوڑیں۔ خود کو میگا پراجیکٹ بروقت تکمیل کو پہنچانے والے سیاسی مینیجر کے طور پر سامنے لائیں۔

لوگوں کو بتائیں کہ پراجیکٹ جلدی بنانا ہو تو راستے میں قانون کا سپیڈ بریکر بھی آ جاتا ہے۔ نہیں آنا چاہئے۔ یہ بھی بتائیں کہ دس سال والا کام تین سال میں کرنا ہو تو مہنگا ہوتا ہے۔ اس مہنگے کام کو کرپشن کے الزام سے معافی دیں گے تو بات بنے گی۔ یہ بھی بتائیں کہ دھرنے احتجاج ہوں تو کام لیٹ ہوتے ہیں۔ یہ نہیں ہونے چاہئیں۔ یہ بھی بتائیں کہ جب سول ملٹری گھول کرنے کے شوق ہوں تو پھر ترقی کو بھول جائیں پہلے گھل کر دیکھ لیں۔

شہباز شریف صاحب بہت اچھی پوزیشن میں ہیں کہ وہ بتائیں کہ بیوروکریسی مری پڑی ہے۔ تبھی تو انہیں پبلک کمپنیاں بنا کر ان کے ذریعے میگا پراجیکٹس کرنے پڑے۔ انہی کمپنیوں کی وجہ سے اب وہ کیس بھی بھگتیں گے انشااللہ ۔ لیکن اپنا موقف دینے میں کیا ہرج ہے۔ اپنے برے پراجیکٹس سستی روٹی دانش سکول کی ناکامی ماننے میں بھی کوئی ہرج نہیں ۔ ناکامی تسلیم کرنے کے ساتھ یہ اصرار بھی کیا جا سکتا کہ اس ناکامی کامیابی کا فیصلہ عدالت نہیں ووٹر نے کرنا ہے ۔

شہباز صاحب آپ کا کام آسان ہے۔ کراچی میں آپ بہت کچھ کہہ اور کر سکتے ہیں۔ آپ سے اچھا کوئی نہیں بتا سکتا کہ جس بندے سے ہم تعصب رکھتے ہیں وہ بھی برابر کا شہری ہے۔ اگر اس چھ نمبر شہری کو ہم اک گندا میلا ہی فرض کر لیں۔ تو اس میلے نے بھی شہری وسائل استعمال کرنے ہیں۔ اسے بھی بجلی پانی گیس سیوریج درکار ہے۔ نہیں ملے گی تو یہ سارے سسٹم اس ایک اکیلے کے ہاتھوں بیٹھے رہیں گے۔

گندہ میلا کس کو بنا رکھا ہے ہم نے ۔ ان کا حال بتائیں گے اس کا نقصان بتائیں گے تو یہ میلے ووٹ دینے خود ہی پہنچ جائیں گے اک امید لے کر۔

کراچی والوں کو ہی سب سے پہلے سمجھایا جا سکتا کہ تم سندھی بلوچی پنجابی مہاجر پختون بن کر لڑتے گھلتے رہو۔ تمھیں کبھی اک اچھی شہری حکومت نصیب نہیں ہو گی۔ جب تک تم شہری ضروریات کو اپنا سب کا سیاسی مطالبہ نہیں بناؤ گے۔ جو کراچی میں یہ سمجھا سکے گا۔ کراچی اس کا ہو جائے گا۔  کراچی میں آپ کا پیغام چل گیا تو پھر چھوٹے سر اور وڈے ٹڈ والے بہت سارے سیٹھ خود ہی پہنچ جائیں گے کہ منڈے کو اک چانس دے دیں ۔ فئیر الیکشن کا چانس ۔ منڈا کہنے پر سر مائنڈ نہ کریں ، لاڑا بننے کا اتنا شوق بھی کسی کسی کو ہی ہوتا ۔

کراچی میں شہری مسائل پر ہونے والی سیاست ہی کامیاب ہو سکتی ہے۔ متحدہ یہی نعرے لے کر اٹھی تھی ۔  شہباز صاحب آپ سیاسی باتیں چھوڑیں بطور شہری سہولیات اور میگا پراجیکٹس کے مینیجر سامنے آئیں۔

ترقی سہولیات کی باتیں کریں تو سب آپ کو دیکھیں گے۔ زرداری صاحب کو گھسیٹنے والے بیانات کی معذرت بھی بنتی ہے، کر لیں کیا فرق پڑتا۔ پی ٹی ایم جلسے کی بری ہینڈلنگ کی معذرت بھی بنتی ہے۔ البتہ پشاور میٹرو کے نام پر پشاور کھود کر جس طرح پرویز خٹک اور کپتان بیٹھے سوچ رہے کہ اب کیا کریں۔ اس کا جی بھر کر مذاق اڑا سکتے ہیں اس پر طعنے دے سکتے ہیں۔ یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ یہ بھی مجھے ہی ٹھیک کر کے بنانی پڑے گی ۔

وسی بابا

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2

وسی بابا

وسی بابا نام رکھ لیا ایک کردار گھڑ لیا وہ سب کہنے کے لیے جس کے اظہار کی ویسے جرات نہیں تھی۔

wisi has 407 posts and counting.See all posts by wisi