شہباز کا کراچی کو نیویارک بنانے کا دعویٰ! مگر کیسے؟


انگریزی کا ایک لفظ ہے Audacity اُردو میں اس کے معنی خود اعتمادی بھی ہے اور ڈھٹائی بھی۔ اسے فقرے کی ساخت میں رکھ کر ہی سمجھا جا سکتا ہے یہ کالم لکھنے سے قبل اس لفظ کا اُردو مترادف ڈھونڈنے کی بہت کوشش کی کوئی ایسا لفظ جو بیک وقت ڈھٹائی اور خوداعتمادی کی کیفیت کو بیان کرے۔ ناکام رہا۔

کسی لفظ سے متعلق کیفیت کو سمجھنا ہو تو اکثر شعر یاد آ جاتے ہیں۔ خاص طورپر غالب کے۔ سادگی وپرکاری،بے خودی وہوشیاری والا شعر شاید Audacityہی کو بیان کرتا ہے۔ تغافل میں جرات آزمائی کے ذکر سے غالباََ مزید وضاحت ہوجاتی ہے فقط Audacity سے وابستہ تصور مگر پورا شعر لکھ دینے سے بھی بیان نہیں ہوتا۔ ویسے بھی اس کالم کے ذریعے لسانی تشکیلات کے بارے میں کوئی ادبی مضمون نہیں لکھنا۔

موضوع سیاسی تھا۔ ذکر شہباز شریف صاحب کا کرنا تھا جو اتوار کے دن کراچی میں تھے۔ وہاں ایک موقع پر بڑھک لگادی کہ اگر سندھ کے لوگوں نے اپنے ووٹوں سے انہیں آئندہ انتخابات میں نوازا تو وہ کراچی کو نیویارک بنادیں گے۔ یہ بیان دیتے ہوئے وہ مجھے Audacityکا ارتکاب کرتے سنائی دئیے۔ مجھے سمجھ نہیں آئی کہ اسے ڈھٹائی کہوں یا خوداعتمادی ”میں اسے شہرت کہوں یا اپنی رسوائی….“ والا شعر بھی نجانے کیوں اس موقع پر یاد آگیا۔

بہرحال شہباز شریف صاحب کا دعویٰ ہے کہ وہ کراچی کو نیویارک بناسکتے ہیں۔ اگرچہ کھل کر یہ نہیں بتا پائے کہ کراچی کو نیویارک بنانے کے لئے وہ پاکستان کا وزیر اعظم منتخب ہونا چاہیں گے یا سندھ کا وزیر اعلیٰ،کیونکہ شنید ہے کہ آئین میں 18ویں ترمیم ہوجانے کے بعد کسی صوبے کا وزیر اعلیٰ ہی اپنی Domainمیں آئے کسی شہر کو پیرس یا نیویارک بناسکتا ہے۔ اگرچہ کسی شہر کو نیویارک بنانے کے لئے باقاعدہ جمہوری ممالک میں اس شہر کا میئرمنتخب ہوجانا ہی کافی ہوتا ہے۔

شہباز صاحب کی ترکی کے ”سلطان اردوان“ سے بہت یاری ہے۔ اردوان اس وقت اپنے ملک میں سیاسی مقبولیت کے حوالے سے اپنے عروج سے لطف اندوزہورہے ہیں۔ اپنے سیاسی کیرئیر کا آغاز انہوں نے استنبول کا میئرمنتخب ہونے سے کیا تھا۔ اردوان جب اس شہر کے میئرمنتخب ہوئے تو بازنطینی اور عثمانیہ سلطنتوں کا مرکز رہا یہ تاریخی شہر کچی بستیوں سے بھرا ہوا تھا۔ بجلی ان بستیوں میں کنڈے ڈال کر استعمال کی جاتی تھی۔ زمینوں پر قبضے ہوتے تھے۔ منشیات فروشوں کے گروہ تھے۔ فحاشی اور جوئے کے اڈے اور انہیں چلانے والے مافیاز۔

استنبول میں جو کچی بستیاں تھیں وہ بھی بتدریج مختلف نسلی یا فرقہ وارانہ گروہوں میں تقسیم ہونا شروع ہوگئیں۔ ریاست کے اندر ریاستیں۔ اردوان نے استنبول کا میئر منتخب ہوجانے کے بعد ان بستیوں کو ”باقاعدہ“بنایا۔ اس باقاعدگی نے اناطولیہ کے مختلف پہاڑی قصبوں سے آئے لاکھوں بے زمین کسانوں اور روزانہ اُجرت کے محتاج مزدور پیشہ لوگوںکو گھروں کا ”مالک“ بنا دیا۔ ان کی Upward Mobilityہوگئی۔

اردوان کی بدولت بتدریج خوش حال ہوئے یہ لوگ ہی اب اس کی اصل طاقت ہیں۔ اس کے خلاف فوجی بغاوت ہوتی ہے تو اسے روکنے کے لئے ٹینکوں کے آگے لیٹ جاتے ہیں۔ شہباز صاحب 2008 سے تخت لہور کے اردوان ہیں۔ انڈرپاسز، اوورہیڈ پل اور میٹرو بسیں متعارف کروائی ہیں سگنل فری شاہراہیں بنائی ہیں۔ لاہور دیکھنے میں اب بہت اچھا، صاف ستھرا اور پھولوں سے بھرا شہر لگتا ہے۔ سوال مگریہ بھی اُٹھتا ہے کہ اس شہر کی ترقی اور خوشحالی سے اصل فائدہ کس نے اٹھایا۔ لوہاری دروازے کی کسی تنگ وتاریک گلی کے خستہ مکان سے اُٹھے کسی غریب نے۔ میری عاجزانہ رائے ہے کہ ہرگز نہیں۔

شہباز شریف نے لاہور کو جو ”پیرس“ بنایا ہے اس کے مزے وہ لوگ اٹھارہے ہیں جن کی معاشی حوالوں سے Upward Mobility 2008 سے کئی برس قبل مختلف وجوہات کی بنا پر ہوچکی تھی۔ ان لوگوں کو اپنی گاڑیوں کے لئے سگنل فری سڑکیں درکار تھیں۔ زندگی سے لطف اندوز ہونے کے لئے اطالوی یا تھائی کھانے سرو کرتے ریستورانوں کی تلاش تھی۔ خریداری کے لئے برانڈڈ اشیاءبیچتے Mallsکی ضرورت تھی۔

شہباز شریف کا لاہور کو پیرس بنانا درحقیقت نودولتیوں کی سہولت کاری تھی۔ یہ ”ترقی“ بھی Top Down ماڈل کے اتباع میں ہوئی۔ لاہور سے منتخب ہوئے پاکستان مسلم لیگ نون کے ایم این ایز یا ایم پی ایز کا اس میں کوئی حصہ نہ تھا۔ لاہور شہر میں سنا ہے کہ کوئی میئر بھی ہوتا ہے۔ اس کا ”ترقیاتی کاموں“ سے تعلق مگر میں آج تک سمجھ نہیں پایا ہوں LDAکی شہرت ضرور سنی ہے۔ احد چیمہ اس کے چیئرمین ہوا کرتے تھے۔ ان دنوں احتساب والوں کی قید میں ہیں۔ ان میں سے کئی لوگ شہباز شریف کا ”مسعود محمود“ برآمد ہوتا دیکھ رہے ہیں۔

تقریباً روزانہ کی بنیاد پر گزشتہ کئی دنوں سے بہت ہی متحرک ہوئے چیف جسٹس آف پاکستان کی بدولت خلقِ خدا کو تواتر کے ساتھ خبریں اب یہ مل رہی ہیں کہ شہباز صاحب کی ”گڈگورننس“ میں تعلیم اور صحت کا حال دگرگوں ہے۔ پینے کا صاف پانی بھی میسر نہیں۔ شہباز شریف کے کئی Deliverer مانے افسر سپریم کورٹ کے روبرو ہچکچاتے اور ماتھوں سے پسینہ پونچھتے نظر آرہے ہیں۔

ان حالات میں شہباز شریف صاحب کراچی پہنچ کر اس شہر کو نیویارک بنانے کا وعدہ کریں تو مجھ ایسے خبطی کو Audacious سنائی دیتے ہیں۔ جس کے بارے میں یہ فیصلہ کرنا میرے لئے مشکل ہے کہ ان کے اس رویے کو ڈھٹائی کہوں یا ضرورت سے زیادہ خوداعتمادی۔ اُردو میں مناسب لفظ نہ ملا تو Audacity سے کام چلانے پر مجبور ہوگیا۔

یہ کالم ختم کرتے ہوئے پنجاب کے دس برسوں سے ”خادم اعلیٰ“ کہلواتے شہباز صاحب سے دست بستہ التجا کرتا ہوں کہ انگریزی محاورے والی کافی کو سونگھ کر ذرا ہوش میں آئیں۔ جن ”اداروں“ کے ساتھ وہ ایک مضبوط ”پل“ ہونے کے دعوے دار تھے وہاں سے ان کے متعارف کردہ گورننس ماڈل کے بارے میں شک وشبے بھرے سوالات اُٹھ رہے ہیں۔ کراچی کو نیویارک بنانے سے پہلے ان سوالات کے کماحقہ جوابات فراہم کرنے کی کوشش کریں۔

بشکریہ نوائے وقت


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).