کہانیاں ہماری پھوپھو کی


عمر کے اس حصے میں جھولے پر بیٹھا نہیں جاتا، اور کسی طرح بیٹھ بھی لیا جائے تو لمبی پینگ بھر کر بچپنے کو آواز نہیں دی جا سکتی، پر یادوں کے جھروکوں سے جھانکتی ہوں توسامنے ایک جھولا ہے، میں اس پر بیٹھ کر اپنے دونوں ہاتھوں سے رسی تھام کر اپنے پیروں کو بہت پیچھے، اور پیچھے، اور پیچھے لے جاتی ہوں اور پھر پوری قوت سے اپنے پیر زمین سے ہٹا کر انہیں سیدھے کر لیتی ہوں۔

بچپن سب کا حسین ہوتا ہے اور یادوں کی پینگ جتنی بڑھائی جائے یہ اتنی لمبی ہوتی چلی جاتی ہے۔ پیر زمین پر ٹکانے کو جی ہی نہیں کرتا۔ پچپن میں، بچپن کی یادیں گٹھنیوں چلنے والے بچے کی طرح ہمک ہمک کر قریب آتی ہیں اور باہیں پھیلانے پر شرارت سے دور چلی جاتی ہیں۔ کبھی یہ بسورتی ہیں اور کبھی کھلکھلاتی ہیں۔ لیکن گزرے یاد گار پل مختلف تصاویر کی شکل میں دماغ کے پردے پر آویزاں رہتے ہیں۔ اور ایسا دور جس میں دادی دادا، پھپی، چچا، اور کزنز کا ساتھ بھی نصیب ہوا ہو تو اس کی یادیں کیوں نہ بھری برسات میں ٹھنڈک سا احساس نہ دلائیں۔

ہمارا بچپن لاڑکانہ میں گزرا۔ لاڑکانہ، بھٹو کا شہر، جسے وہ پیرس بنانا چاہتے تھے۔ پاکستان چوک پر ایک چوڑی صاف ستھری گلی میں آمنے سامنے کوئی دس گھر ہیں، دائیں جانب کی قطار کی وسط میں ہمارے دادا ڈاکٹر حسین الزماں خان کا گھر تھا۔ عمر بڑھنے کے ساتھ بینائی گھٹتی گئی، پھر صرف ایک آنکھ سے دھندلا دکھائی دینے لگا۔ شاعر تھے۔ تقسیم سے قبل انقلابی ہوں گے، مگر پتہ نہیں کب ان کے اندراکبر الہ آبادی کی روح نے قبضہ کر لیا۔ قیامِ پاکستان کو قائدِ اعظم کی غلطی قرار دیتے۔ معلوم نہیں کس چکر میں ہندستان سے یہاں تک کا سفر طے کر لیا لیکن اب اپنی حویلی اور اپنے ہندو پڑوسی بے طرح یاد آتے۔ زبان پر اکثر ایک جملہ رہتا۔ ہمیں یہاں آکر کیا ملا۔ نظر نہیں آتا لیکن جانے کیسے وقت کا اندازہ خوب رہتا۔ ٹھیک صبح سات بجے دونوں ہاتھوں سے دیوار تھامے ایک ایک سیڑھی پر دبے قدموں چلتے ہوئے اوپر آکر اپنی مخصوص کرسی پر بیٹھ جاتے۔ پیالے میں گرما گرم چائے انہیں پیش کر دی جاتی۔ ساڑھے سات بجے ناشتہ، پھر دس بجے چائے اور ٹھیک ایک بجے دوپہر کا کھانا کھا تے۔

رات کو بی بی سی کی خبریں اور سیربین ضرور سنتے۔ بی بی سی کی ہر خبر پر ایمان تھا۔ دن میں ریڈیو کے بٹن کو گھماتے ہوئے مہندی حسن، رونا لیلیٰ، نور جہاں یا احمد رشدی کا گا نا لگ جائے۔ تو غور سے سنتے، جس سے صاف معلوم ہوتا کہ ان کی پسند کے گانے ہیں۔ لیکن جیسے ہی کسی کی آہٹ محسوس ہوتی، ان گانوں کی وجہ سے معاشرے میں پھیلی بے حیائی کو کوسنے لگتے، اور تان ہمیشہ قائدِ اعظم پر ٹوٹتی۔ پتہ نہیں ایک آنکھ کی دھندلائی ہو ئی روشنی سے انہیں بے حیائی کیسے نظر آجاتی تھی۔ اپنی بیوی نواب بیگم کو پیار سے چھمو پکارتے۔ ان کی سب سے چھوٹی بیٹی (بابرہ پھوپھو) سلائی کڑھائی میں ماہر تھیں۔ پیڈل والی مشین پر بیٹھی ہر وقت اپنے جہیز کے کپڑے سیا کرتیں، اور ساتھ ساتھ ریڈیو پروگرام بھی سنا کرتیں۔ بڑا سا ریڈیو اوپر ریک پر رکھا ہوتا جس پر سفید جالی کا کپڑا پڑا رہتا۔ اس میں بڑے سریلے اشتہار آتے۔ اماں تلو میں پکاؤ ہمیں صحت مند بناؤ، اور کے ٹو سگریٹ کا اشتہار ہمارا پسندیدہ تھا۔ ہر اشتہار کے بعد مدھر سی ” ٹن ‘‘ آج تک ہماری سماعت میں محفوظ ہے۔

وحید مراد ان کے سپنوں کا شہزادہ تھا۔ فیشن میں زیبا بیگم کو فالو کرتیں۔ دیبا خانم کی طرح جذباتی تھیں۔ سنیما جانے کی بے حد شوقین اپنی سہیلی حمیدہ اور بڑی بہن کے ساتھ وحید مراد کی ہر فلم دیکھنے سینما پہنچ جاتیں۔ اور داداکو تسلی رہتی کہ ان کی بیٹیاں ماشاللہ میلاد شریف کی بے حد دلدادہ ہیں۔ بیٹیاں بھی فلم سے واپسی پر ان کے لیے تبرک کبھی برفی تو کبھی بالو شاہی لانا نہیں بھولتیں۔ اب تو تبرک کے شوق میں وہ اکثر خود انہیں کہتے کہ کیا بات ہے بہت دن سے میلاد میں نہیں گئیں۔ تب وہ بڑے آرام سے کہہ دیتیں ابا جب کوئی اچھی میلاد لگے گی تب ہی جائیں گے نا۔

دادا کو بلند آواز میں اخبار پڑھ کے سنانا بابرہ پھوپھو ہی کا کا م تھا۔ ہمیں آج بھی یاد ہے روزانہ ایک اسٹوری پڑھ کر یہ بلند آواز سے سناتی تھیں جس میں ایک عورت کے پیٹ سے اس کے بچے کی آواز آتی تھی۔ پھر انہوں نے ہی اس خبر کے فراڈ ہو نے کا ڈراپ سین کیا تھا۔ ان کے سب سے چھوٹے بھائی ( ہما رے مبین چچا ) بھارت میں جنگی قیدی رہے۔ جب بھار ت نے جنگی قیدی آزاد کرنے کا اعلان کیا تو روزانہ رہائی پانے والوں کی لسٹ اخبار میں شائع ہوتی، وہی نام پڑھا کرتیں۔ اور چچا کا نام لسٹ میں موجود نہ ہونے پر سب اداس چہرہ لیے اپنے اپنے کاموں سے لگ جاتے۔ دادی نے قسم کھا ئی تھی کہ جب تک چچا کی رہائی کی خبر نہ سن لیں گی، مٹھائی کو ہاتھ نہ لگا ئیں گی۔ یوں گھر میں کب سے مٹھائی نہیں آئی تھی چچا کی رہائی سے زیادہ ہمیں مٹھائی کھانے کی خواہش ان کی رہائی کے لئے دعا پر مجبور کرتی تھی۔

ان کے خطوط بھی بابرہ پھوپھو ہی بلند آواز سے پڑھ کر سناتیں۔ ان خطوط کی آخری سطر میں ایک بات کی ہمیشہ یقین دہانی کروائی جاتی ” بے بی میری ہے ‘‘۔ بے بی ان کی چچا زاد تھی۔ خیر زندہ سلامت لوٹے۔ فوج کی طرف سے انہیں سزا بھی ہوئی۔ خاندان میں فوجی بھگوڑے بھی مشہور ہوئے۔ لیکن پلٹ کے نہ دیے، کہ کہیں بے بی نہ ہاتھ سے نکل جا ئے۔

قید، ماں باپ سے دوری اور پھر سزا نے انہیں ایسا جنگ جو کر دیا تھا کہ چھوٹی چھوٹی بات پر خود کشی کی دھمکی دیتے تھے۔ بعض اوقات بڑے اہتمام کے ساتھ اس پر عمل بھی کرتے۔ یعنی کسی بھی اختلاف پر پہلی منزل سے چھلانگ لگا دیتے۔ اور ہمیشہ نیچے پڑے پلنگ پر گرتے۔ ہماری دادی کو سمجھ نہیں آتا تھا کہ کہ پلنگ کے ٹوٹنے کا افسوس کریں کہ اپنے لاڈلے کے بچ جا نے کی خوشی منائیں۔ ویسے مبین چچا کی آواز کی کیفیت سے ان کی ممکنہ خود کشی بھانپ کر، ہم اپنی امی سے اکثر کہتے کہ امی ہم جا کر پلنگ کھسکائے دیتے ہیں۔ مگر امی کا ایک دھموکہ ہمیں اس سے باز رکھتا۔ بھئی ایک طرف کے لٹکے پلنگ پر سونا تو ہمیں پڑتا تھا نا۔

ہمارے ہر بہن یا بھا ئی کی پیدائش پر دادا قران شریف سے حرف دیکھ کر نام رکھتے تھے۔ ان کے اپنے بچوں کے نام اسی طرح رکھے گئے تھے۔ ۔ بیٹوں کا بہت شوق تھا۔ دادی بتا تی تھیں کہ پہلے سے ہی قران شریف سے دیکھ کر نام طے کر لیتے۔ ہر بار یقین ہو تا کہ بیٹا ہو گا۔ دھپل میں تین بیٹے بھی ہو ہی گئے لیکن بیٹیاں پانچ تھیں۔ سوچا ماجد۔ بیٹی ہوئی ماجدہ رکھ دیا، بابر سوچا، بابرہ رکھ دیا۔ یوں بابرہ، صادقہ، عقیلہ، شکیلہ تو ٹھیک ہے لیکن، جہاں گیرہ بھی رکھ لیا۔ ہم بہنوں کے نام بھی لفظی اعتبار سے مونث لیکن عام طور مردوں والے نام رکھے گئے۔ میری بہن کا نام شفاعت رکھا گیا۔ وہ اب تک چڑتی ہے۔ لیکن قصور اس کا بھی ہے اگر وہ ہماری طرح بیمار پڑ جاتی تو مولوی صاحب اس کا نام بھی تبدیل کر دیتے جیسے ہما را نام ”وجاہت ‘‘ رکھا گیا تھا۔ داغ تو اچھے ہو تے ہیں کے مصداق بیماریاں تو اچھی ہو تی ہیں۔ ورنہ ’ہم سب‘ پر وجاہت صاحبہ کچھ عجیب سا ہی لگتا۔

مضمون کا بقیہ حصہ پڑھنے کے لئے “اگلا صفحہ” کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2