عمران خان کے دوستوں سے چند گزارشات


آج کل تحریک انصاف کے دوست کافی پریشان ہیں۔ ان میں سے اکثریت کا خیال ہے کہ عمران خان کو بے وجہ ٹارگٹ کیا جا رہا ہے۔ سب نے مل کر عمران خان کے خلاف ایک محاذ بنا لیا ہے۔ میڈیا بھی بے وجہ عمران خان پر تنقید کر رہا ہے۔ بالخصوص چارٹرڈ طیارے میں عمرہ کی ادائیگی کو تو چائے کی پیالی میں طوفان کہا جا رہا ہے۔ ٹکٹوں کی تقسیم پر تنازعات کو بھی فضول قرار دیا جا رہا ہے۔

غرض کہ جس بھی موضوع پر بات کر لو بیچارے آجکل نالاں ہی ہیں۔ انھیں سمجھ نہیں آرہی کہ یک دم عمران خان سے اتنے سوال کیوں ہونے لگ گئے ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ وہ درست پریشان ہیں۔ آج تک انھوں نے ایسی سیاست کی ہی نہیں ہے۔ ہمیشہ تحریک انصاف اور عمران خان نے ہی سب سے سوال پوچھے ہیں کبھی کسی نے ان سے کوئی سوال پوچھنے کی جرات ہی نہیں کی۔

پاکستان مسلم لیگ (ن) والے تو ہر وقت اسی چکر میں رہتے تھے کہ بس ماحول کو ٹھنڈا رکھا جائے۔ ماحول میں گرمی سے نقصان ہو جائے گا۔ حکومت بھی تو کرنی ہے۔ دوسری طرف عمران خان اور ان کی ٹیم نے مسلم لیگ (ن) کی اس دفاعی پوزیشن کا خوب فائدہ اٹھایا ہے۔ لیکن اب صورتحال بدل گئی ہے۔ حکومتیں ختم ہو گئی ہیں۔ عمران خان کے مخالفین بھی دفاعی حکمت عملی سے جارحانہ حکمت عملی پر آگئے ہیں۔

عمران خان کوشائد یہ بات سمجھ نہیں آرہی کہ گزشتہ پانچ سال میں انھوں نے جو بیانیہ دیا ہے اب وہ اس بیانیہ پر جوابدہ ہیں۔ لوگ عمران خان سے ان کی ہی باتوں کا جواب مانگ رہے ہیں۔ ان سے ان ہی کے بیان کردہ سیاسی فلسفہ پر جواب مانگے جا رہے ہیں۔ جن باتوں پر وہ اپنے مخالفین کو تنقید کا نشانہ بناتے رہے ہیں۔ وہ کیسے وہی کام خود کر سکتے ہیں۔ جس فلسفہ پر انھوں نے اپنی جماعت کی بنیاد رکھی ہے۔ وہ انتخابات کے موقع پر اس سے ایک انچ انحراف بھی نہیں کر سکتے۔

سیاسی فلسفہ سے انحراف کا موسم تو الیکشن کے بعد شروع ہوتا ہے۔ آپ الیکشن سے پہلے ایسی بات نہیں کر سکتے۔ عمران خان کے دوستوں کو سمجھنا ہوگا کہ جب آپ کا لیڈر سیاسی جلسوں میں گھنٹوں کے لیکچر دے کہ دیکھیں ہالینڈ کا وزیر اعظم سائیکل پر دفتر جاتا ہے۔ یہ بڑی گاڑیاں اور پروٹوکول غلط ہے۔ لیڈر کو سادہ زندگی گزارنی چاہیے۔ یہ سب امیر کرپٹ ہیں۔ جب آپ مغرب کی جمہوریت کے داعی بن جائیں۔

جب آپ سوال پوچھنے کا حق مانگتے ہوں۔ جب آپ دوسروں کی شاہانہ زندگی اور امارات کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوں۔ آپ خود کو پاکستان کا عام آدمی ظاہر کرنے کی کوشش کریں۔ پھر آپ چارٹرڈ جہاز میں عمرہ نہیں کر سکتے۔ جب آپ سرکاری وسائل کے غلط استعمال روکنے کی بات کریں۔ وی آئی پی کلچر کے خاتمہ کی بات کریں تو آپ خود کیسے وی آئی پی کلچر کا حصہ بن سکتے ہیں۔ آپ خود کے پی کا سرکاری ہیلی کاپٹر کیسے استعمال کر سکتے ہیں۔

جب آپ پیسے کی سیاست کے خاتمے کا نعرہ لگائیں گے ۔ تو پھر پیسے والے لوگ آپ کی سیاست کے حصہ دار کیسے ہو سکتے ہیں۔ کم از کم آپ جو کہہ رہے ہیں، وہ آپ کے عمل سے نظر بھی آنا چاہیے۔ اور جب نظر نہیں آئے گا تو سب باتیں تو کریں گے۔ انگلیاں تو اٹھیں گی۔ انگلی اٹھانے کا حق صرف آپ کو تو حاصل نہیں ہے۔اب تو میدان سج گیا ہے، اب تو آپ سے بھی سوال ہونگے۔ آپ اس طرح بچ کے نہیں نکل سکیں گے۔ اسی طرح زلفی بخاری کا معاملہ بھی سب کے سامنے ہے۔

عمران خان صاحب آپ تو اقربا پروری کے خاتمہ کے لیے سر پر کفن باندھ کر نکلے ہیں۔ آپ نے تو سب کے دوستوں اور رشتہ داروں پر انگلیاں اٹھائی ہیں۔ آپ نے تو اس سب کے خلاف آواز اٹھائی ہے۔ آپ ملک سے سفارشی کلچر ختم کرنے کے داعی بنے بیٹھے ہیں۔ آپ ہمیں مغرب میں قانون کی حکمرانی کا درس دیتے تھکتے نہیں ہیں۔ آپ ہمیں اسلام کے نظام انصاف پر لیکچر دیتے ہیں۔ پھر آپ کو جب علم ہو گیا کہ زلفی بخاری کا نام بلیک لسٹ ہے۔ تو پھر آپ نے اس کے ساتھ سفر کیسے کر لیا۔

آپ کو خود کہنا چاہیے تھا کہ بھائی آپ نیب کو مطلوب ہیں، آپ کا نام بلیک لسٹ ہے میں آپ کو ساتھ لے کر نہیں جا سکتا۔ بجائے اس کے کہ آپ زلفی کو جہاز سے اتار دیتے آپ نے اس کے لیے اپنا عمرہ لیٹ کر لیا۔ جیسے اس کے بغیر عمرہ ہو ہی نہیں سکتا تھا۔ آپ سے یہ توقع بھی کیسے کی جا سکتی ہے۔ کیا ہی اچھا ہوتا کہ آپ خود زلفی بخاری کو نیب کے حوالے کرتے۔ اسے قانون کا سامنا کرنے کا حکم دیتے۔

پوری تحریک انصاف کو کہتے کہ اس سے دور رہو۔ آپ نے پوری تحریک انصاف کو زلفی بخاری کے دفاع میں لگا دیا۔ بھائی تحریک انصاف کا زلفی بخاری سے کیا تعلق ہے۔ وہ آپ کا ذاتی دوست ہو گا۔ لیکن تحریک انصاف کے ترجمان فواد چوہدری زلفی بخاری کا ایسے دفاع کر رہے تھے جیسے پارٹی کا بہت سینئر رکن ہے اور اس کے بغیر پارٹی چل ہی نہیں سکتی۔

عمران خان نے ملک میں موروثی سیاست کے خلاف آواز اٹھائی ہے۔ انھوں نے اپنے سیاسی مخالفین کو گرانے کے لیے وراثتی سیاست کے خاتمہ کا نعرہ لگایا تھا۔ وہ بلاول کو موروثی سیاست کا نمائندہ کہتے۔ وہ مریم نواز کو موروثی سیاست کا نمائندہ کہتے تھے۔ آپ نے اپنا کیس ہی یہ بنایا کہ سیاستدانوں کے بچوں کا ان کی سیاست پر کوئی حق نہیں ہے۔ سیاست میراث نہیں۔ یہ کوئی جائیداد نہیں کہ باپ کے بعد بچوں کو مل جائے۔ لیکن پھر آپ نے خود ہی شاہ محمود قریشی کے بیٹے کو ٹکٹ دے دیا۔

جہانگیر ترین کے بیٹے کو ٹکٹ دے دیا۔ پرویز خٹک کے داماد کو ٹکٹ دے دیا۔ آپ نے اپنی جماعت کو جیتنے والے گھوڑوں کا اصطبل بنا دیا۔ جاگیرداروں کے خاندانوں کو ساتھ ملا لیا۔ بڑے صنعتکار خاندان ساتھ لے آئے۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک طرف آپ ایک بات پر اپنے مخالفین پر گولہ باری بھی کریں اور پھر وہی کام خود بھی کریں۔ یہ دو عملی کیسے چل سکتی ہے۔ پھر آپ کہیں کہ سوال کیوں کیا گیا۔ انگلی کیوں اٹھائی گئی۔ آپ ہم سے سوال کر رہے ہیں۔ آپ کی جرات۔ آپ نواز شریف کی نااہلی کا کریڈٹ لیتے ہیں۔ آپ اس کے سب سے بڑے وکیل ہیں۔

آپ کا تو مقدمہ ہی یہ ہے کہ سپریم کورٹ سے نااہل ہونے والے کو ملکی سیاست میں کوئی کردار ادا کرنے کا حق نہیں ہے، اسے گھر بیٹھ جانا چاہیے۔ اور پھر بنی گالہ کو ہر راستہ ترین ہائوس سے گزر کر جائے۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ نواز شریف کی نا اہلی تو جائز ہے لیکن جہانگیر ترین کی نا اہلی جائز نہیں۔ نواز شریف کو تو سیاست کا حق نہیں ہے لیکن جہانگیر ترین کو نااہلی کے بعد سیاست کا حق ہے۔ نا اہلی کے بعد نواز شریف پارٹی کے صدر نہیں رہ سکتے لیکن جہانگیر ترین پارٹی کے سیکریٹری جنرل رہ سکتے ہیں۔ اگر یہ پوچھا جائے کہ جہانگیر ترین اتنے ناگزیر کیوں ہیں تو آپ برا منا جاتے ہیں۔

ایک طرف آپ کا نعرہ ہے کہ جس پر کرپشن کا کوئی بھی الزام ہے وہ پہلے جائے قانون کا نیب کا سامنا کرے، جب اس کو بے گناہ قرار دے دیا جائے تب وہ سیاست کرے۔ آپ اپنی مخالف سیاسی جماعتوں میں نیب زدگان کے حق سیاست کے خلاف ہیں۔ آپ اپنے ہر اس مخالف کو میدان سیاست سے باہر کرنا چاہتے ہیں جس پر کوئی الزام ہے۔ لیکن دوسری طرف آپ کی جماعت میں چند نیب زدگان کا راج ہے۔ وہ آپ کے ساتھ عمرہ پر بھی جاتے ہیں۔ وہ جائز اور باقی ناجائز۔ یہ کیسی سیاست ہے۔ کیا یہ کھلا تضاد نہیں ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).