اب محض ”WHAT NEXT“ کا انتظار ہے


اپنے حلقوں میں ووٹ مانگنے کے لئے لغاری اور مزاری جیسے سردار جب گھروں سے نکلے تو نوجوانوں نے انہیں راستے میںروک کر تندوتیز سوالات پوچھے۔ سمارٹ فون کی بدولت فرعون صفت ٹھہرائے اشرافیہ کے نمائندوں کی بے عزتی کے مناظر سوشل میڈیا سے ہوتے ہوئے ٹی وی سکرینوں تک پہنچے تواسلام آباد کے آرام دہ گھروں میں بیٹھے مجھ ایسے صحافی بہت خوش ہوئے۔

گماں ہوا کہ فیض احمد فیض کا ”ہم دیکھیں گے“ والا لمحہ آچکا ہے۔پاکستان کی گلی گلی میں اب تاج اچھالے جائیں گے۔ لوحِ ازل پر لکھا ہوا منظر عملی صورت میں نظر آنا شروع ہوجائے گا۔ دھرتی تھرتھر کانپے گی۔ وغیرہ وغیرہ۔

نگران حکومت نے لیکن پٹرول کی قیمت سو روپے لیٹر کردی ہے۔ پاکستان اور افغانستان کے لئے امریکہ کی خصوصی مشیر ایک بار پھر Do Moreکا تقاضہ کرنے اسلام آباد آچکی ہے۔فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (FATF)نے پاکستان کو فروری 2019ءتک گرے لسٹ میں رکھنے کا فیصلہ برقرار رکھا ہے۔ ڈالر اس فیصلے کے سبب مزید مہنگا ہوگا۔

ہماری برآمدات کی فروخت سے آئی رقوم کی پاکستان منتقلی میں ضرورت سے زیادہ تاخیر ہوگی۔ ووٹ مانگنے کے لئے گلی گلی گھومنے والوں سے مگر اس بارے میں سوالات نہیں پوچھے جائیں گے۔اچانک ہمیں دریافت بلکہ یہ ہوا ہے کہ پاکستان میں پینے کا پانی میسر نہیں۔ ”پانی دو ووٹ لو“ کے نعرے لگ رہے ہیں۔

اسی نعرے کی بنیاد پر اتوار کی سہ پہر نظر بظاہر لیاری میں بلاول بھٹو زرداری کے قافلے پر پتھراﺅ ہوا۔ میڈیا کو خبروں کے حوالے سے مندا دکھنے والے دن چسکہ فروشی کا مواد مہیا ہوگیا۔بھانڈوں والے ”بھاگ لگ گئے“۔ ٹی وی کی ہٹی نے کھڑکی توڑ رش لیا۔

ساری عمر میں نے اس تمنا میں گزاردی کہ میرے افتادگانِ خاک سوالات اٹھانے کی ہمت پیدا کرسکیں۔ جمہوریت ویسے بھی حکمران اشرافیہ کو جواب دہ بنانے کا نام ہے۔بلاول بھٹو زرداری کے قافلے پر ہوئے پتھراﺅ سے لیکن میں گھبراگیا۔

لاہور کا پیدائشی اور اسلام آباد کا رہائشی ہوتے ہوئے بھی میں کراچی کے لیاری کو بہت جانتا ہوں۔ اس کی سیاسی تاریخ بیان کرنے کے لئے یہ کالم نہیں ایک کتاب کی ضرورت ہے۔ اپنی بات سمجھانے کے لئے شارٹ کٹ سے کام لینا ہوگا۔

گھروں میں بیٹھ کر جن لوگوں نے لیاری کو ”سمجھا“ ہے انہیں فقط اتنا یاد رکھنا ہوگا کہ چند ہی ماہ قبل تک اس علاقے میں ”گینگ وار“ کا بہت تذکرہ تھا۔جرائم پیشہ گروہوںکے مابین جو Turf Warsہوئیں ان میں عزیر بلوچ کے علاوہ ذکری گروپ کا بھی بہت چرچا تھا۔

بلاول بھٹو زرداری کے قافلے پر آگرہ تاج کالونی میں پتھراﺅ ہوا۔ یہ علاقہ ذکری گروپ کا گڑھ باور کیا جاتا ہے۔ ایم کیو ایم نے لیاری میں جگہ بنانے کے لئے اس کالونی کو مرکز بناکر آگے بڑھنا چاہا تھا۔ وہاں ہوا پتھراﺅ ہرگز پانی کی نایابی کے باعث اُبلتے غصے کی وجہ سے نہیں ہوا۔ مقصد اس کا بلاول بھٹو زرداری کے حامیوں کو مشتعل کرنا تھا۔وہ مشتعل ہوجاتے تو رات گئے تک لیاری میں خانہ جنگی جیسی جھڑپیں شروع ہوجاتیں۔

بلاول بھٹو زرداری کے قافلے پر ہوئے پتھراﺅ سے لطف اندوز ہوتے میڈیا نے مگر ان پہلوﺅں کو بے دردی سے نظرانداز کیا۔ ویسے بھی ہمیں اپنا دھندا چلانے کے لئے Man Bites The Dogوالی کہانیاں درکارہوتی ہیں۔ ان کہانیوں کو اچھالنے کے ممکنہ نتائج کے بارے میں ہمیں کوئی فکر لاحق نہیں ہوتی۔

مجھے غم البتہ یہ کھائے چلاجارہا ہے کہ پتھراﺅ کے بعد فائرنگ بھی تو ہوجایا کرتی ہے۔ ووٹ مانگتی اشرافیہ سے سوالات ہوگئے۔ سوالات والی کہانیاں اپنی کشش کھوبیٹھیں تو اب پتھراﺅ شروع ہوگیا ہے۔ پتھراﺅ والی کہانیوں سے دل بھرگیا تو جو ہوسکتا ہے اسے لکھنا تو کجا سوچتے ہوئے بھی خوف آتا ہے۔

بلاول بھٹو زرداری سے قبل شاہد خاقان عباسی کے پنجاب کے وزیر اعلیٰ شہباز شریف کی ایماءپر فارغ کئے وزیر قانون زاہد حامد کی گاڑی پر پسرور میں ڈنڈے برسائے گئے تھے۔ پسرور کے نواحی نارروال میں احسن اقبال پر گولی چلی تھی۔ نارووال کے نواحی سیالکوٹ میں خواجہ آصف کے چہرے پر سیاہی پھینکی گئی۔

سیالکوٹ،نارووال اور اب پسرور میں خواجہ آصف، احسن اقبال اور زاہد حامد کے ساتھ جو واقعات ہوئے ہیں وہ ہرگز ”پانی دو ووٹ لو“ والی بے چینی کا اظہار نہیں ہیں۔

قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے امیدواروں کے لئے حلف ناموں کی زبان کو سادہ بنانے کی کوشش کاشاخسانہ ہے۔ راولپنڈی کی لال حویلی سے اُٹھے بقراطِ عصر نے اس ضمن میں تیلی لگائی تھی۔ علامہ خادم حسین رضوی صاحب نے بعدازاں آگ بھڑکادی۔

راولپنڈی کا اسلام آباد سے چوک فیض آباد کے ذریعے زمینی رابطہ 22 دنوں تک معطل رہا۔حکومت نے جان بچانے کے لئے زاہد حامد کو قربان کیا۔ ایک دستاویز پر دستخط کے ذریعے شکست تسلیم کرلی۔ بقراط کا سلگایا اور علامہ صاحب کا بھڑکایا پیغام مگر ہر جگہ پہنچ چکا ہے۔

چکوال کی حدود میں ضلع اٹک کی سرحد کے قریب ایک گاﺅں ہے۔ گزرے جمعے کے چند گھنٹے وہاں پھیلے موڈکو جاننے کا موقعہ ملا۔ اس قصبہ ہونے کے قریب گاﺅں کا ہر رہائشی بلااستثناءنواز حکومت کو ختم نبوت کے قانون سے چھیڑ چھاڑ کرنے کی کوشش کا مرتکب ٹھہرارہا تھا۔ بات فقط سیالکوٹ ،نارووال اور پسرور تک لہذا محدود نہیں رہی۔

پنجاب کا نگران وزیر اعلیٰ مگر ایک ایمان داردانشورہونے کا دعوے دار ہے۔ ذات کا پروفیسر ہے لیکن مضمون نویسی اور تجزیہ نگاری میں بھی وقت لگاتا رہا ہے۔اپنے ہر دوسرے مضمون میں یہ شخص منافقانہ پریشانی سے شہباز حکومت کو ”مذہبی انتہاءپسندوں“ کی سرپرستی کرنے کا ذمہ دار ٹھہراتا رہا۔

نگران وزارتِ اعلیٰ کا حلف اٹھانے کے بعد لیکن اسے یاد نہیں رہا کہ ایک فورتھ شیڈول بھی ہوتا ہے۔ صوبائی حکومت اس کی فہرست میں ممکنہ شدت پسندوں کے نام ڈالنے کی ذمہ دار ہوا کرتی ہے۔ عہدہ سنبھالنے کے بعد مذکورہ پروفیسر نے اپنے بھانجے کو صوبائی وزیر خزانہ مقرر کرنا تو یاد رکھا لیکن فورتھ شیڈول والی فہرست دیکھنا ضروری نہ سمجھا۔

الیکشن کمیشن لہذامبینہ طورپر ”دہشت گرد“ اور ”شدت پسند“ ٹھہرئے چند افراد کو 25 جولائی کے روز ہونے والے انتخاب میںحصہ لینے سے روک نہیں سکتا۔

یہ ”پروفیسر“ مگر اپنے عہدے سے فراغت پانے کے بعد بھی پاکستان کی FATF کی گرے لسٹ میں شمولیت کے بارے میں لکھے مضامین میں سینہ کوبی کرتا دکھائی دے گا۔ ہم اس کی دانشورانہ فراست پر داد وتحسین کرتے پائے جائیں گے۔ تماشے لگے رہیں گے۔ سوالات سے معاملات پتھراﺅ اور ڈنڈوں تک پہنچ چکے ہیں۔ اب تو محض What Nextکا انتظار ہے۔

بشکریہ نوائےوقت


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).