پانچواں خواب نامہ:  جو انسانوں کو پڑھتا ہے درویش بن جاتا ہے


10 مئی 2018
لاہور
درویش کو رابعہ سلام کہتی ہے۔

درویش کی خوش نصیبی پہ رابعہ کو رشک آتا ہے کہ وہ اپنی زندگی خود گزار رہا ہے۔ رابعہ زمینی مالک کی غلام ہے۔ مگر آسمانی خالق نے اس کو اندرسے آزادی کے ایک بے کراں سمندر سے آشنا کیا ہو اہے مگر یہ وجدانی لمحے فقط رات کے حسن کی قید میں ہیں۔ ابھی تک رابعہ کو اس کے زمینی مالک نے شاید آسمانی خالق سے باتیں کرتے نہیں سْنا اس لئے وہ آزاد بھی نہیں ہو سکی۔

اے درویش اس وقت رات کے تین بج رہے ہیں، یہ وہ وقت ہے جب آسمان پہ ستاروں کی چمک زیادہ ہو جاتی ہے، وہ کسی خمار میں جھومتے و ٹمٹماتے محسوس ہوتے ہیں، پھر ایک تہجد کا ستارہ نمو دار ہوتا ہے۔ یہ بتانے کے لئے کہ دو وقت ملنے کا وقت آرہا ہے، اس کے بعد دو وقتوں کا وصل ہوتا ہے، تو آسمان پہ بھی سرخی چھا جاتی ہے۔ (حیا کی سرخی کا اپنا ہی حسن ہے۔ ) اس کے بعد دونوں جدا ہو جاتے ہیں۔ گویا وقت ہجر آن پہنچتا ہے۔ گویا خون سفید ہو جاتا ہے۔ جذبے بدل جاتے ہیں۔

یا درویش سوال کا جواب آپ نے اتنا مفصل اور حسین دیا ہے کہ رابعہ کی حس جمالیات تک کو قرار آگیا۔ اور درویش نے رابعہ سے ایسا سوال پوچھ لیا ہے کہ وہ سوچنے پہ مجبور ہے کہ جواب میں خط لکھے یا کتابچہ۔ رابعہ جو زمینی مالک کی، ذہنی آزاد غلام ہے، اس کے پاس تو اپنی ذات کے لئے وقت نہیں تو وہ کتابچہ کیسے لکھے؟

رابعہ نے سوچا ہے وہ پرت پرت ان کلیوں کو لکھے گی، اور اگر وہ چند جملوں میں اس سوال کا جواب دے تو یہی ہو گا کہ” رابعہ کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ وہ ادیبہ بن جائے گی۔ وہ تو ایک پینٹر بننا چاہتی تھی، اسے تو رنگ ہانٹ کرتے تھے، چاہے وہ کینو س کے ہوں، چاہے زندگی کے، چا ہے فطرت کے، مگر اس کے پا س یہ رنگ نہیں تھے، گویا اس کی قر بانی ”زندگی“ کی قر بانی تھی، اس کی خواہشات کی قر بانی تھی، اس کے جذبات، اس کے خوابوں کی قر بانی تھی، اس کی نسائی فطرت کی قر بانی تھی، اس نے بہت کو شش کی کہ وہ ایک نارمل سی، عام سی، لڑکی کی زندگی کی شاہراہ پہ ننگے پیر چلے، مگر ایسا نہیں ہو ا، اسے اب محسو س ہو تا ہے وہ کسی طاقت کی قید میں تھی اور اب بھی ہے۔ جو اس کی خواہشوں، چاہتوں کے رستے پہ کئی دیوار یوں بنا دیتا ہےکہ وہ انہیں عبو ر ہی نہیں کر پاتی تھی، وہ زندگی بھر اپنی چاہت، اپنی محبت، اپنی خواہش ہارتی رہی، اور اس کے بدلے اسے وہ ملتا رہا جس کا وہ تصور بھی نہیں کر سکتی تھی، وہ جو کہا جاتا ہے کہ اللہ اگر آپ سے وہ لے لے جس کا آپ تصور بھی نہیں کر سکتے، تو دیتا بھی وہی ہے جس کا آپ سوچ بھی نہیں سکتے۔ یہی فطرت کا اصول ہے“۔

پھر ایک وقت آیا جب رابعہ کو رابعہ بصری ؒ کا قول سمجھ آگیا ” توفیق کے بنا تو توبہ بھی نہیں ہو سکتی“ پھر اس کو سمجھ آگیا کہ یوسف کو وہ خواب میں سب دیکھا سکتا ہے، بھڑیے اس کو کھا سکتے ہیں، کنویں سے اس کو نکال کر اس کو فروخت کیا جا سکتا ہے، اورآخر کا ر اس کے بچاؤ کے لئے، اس کی محل میں پرورش ہو سکتی ہے“ تو کوئی تو طاقت ہے جس کے ہاتھ میں ممکن اور نا ممکن کی ڈوری ہے۔ پھر اسے سمجھ آیا موسی پیدا ہو سکتے ہیں اور پھر دریا میں بہا دیا جانے والا بچہ اپنی ہی ماں کی گود میں پل سکتا ہے اور پھر وہی فرعون کا محل، گویا فرعونیت کی گود میں اینٹی فرعون“ بس رابعہ زندگی بھر ممکنات و ناممکنات کی غیر ارادی و جبری مسافر رہی ہے۔

یا درویش کچھ دن قبل کی بات ہے رابعہ کی عرفان الحق صاحب سے تصوف پہ بات ہو رہی تھی، نجانے کہاں سے درویش کا لفظ گفتگو میں آ گیا تو کہنے لگے ” جو کتابیں پڑھتا ہے وہ عالم بن جا تا ہے، جو انسانوں کو پڑھتا ہے وہ درویش بن جا تا ہے“ گویا آپ انسانی مطالعہ کے مسافر ہوئے۔

درویش نے رابعہ بصری کی بات کی، رابعہ کے لئے بھی ان کی عقیدت بھری محبت ایسی ہی ہے۔ عشق کی حد تک۔ رابعہ نے رابعہ بصری کو اتنا آئڈیلائز کیا، اتنا چاہا کہ جوانی کی صبح کے کسی دور میں اس کی خواہش تھی کہ وہ اپنی بیٹی کا نام بھی رابعہ ہی رکھے گی۔

مزید پڑھنے کے لئے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2