پی ٹی آئی کی کامیابی اورجمہوری رویے



2018ء کے عام انتخابات میں تحریک انصاف کو حکومت سازی کا اختیارعوام نے دیا ہے‘ سو سر تسلیم خم۔ یہ پہلا جمہوری رویہ ہے۔ اختلاف رائے کو برداشت کرنا اور اکثریت کے فیصلے کو کھلے دل و دماغ سے تسلیم کرنا‘ مہذب دنیا کے اس جمہوری رویے کی اساس ہیں۔ ان انتخابات کی شفافیت پر تحفظات اور اعتراضات کے ازالے کے لیے قوانین موجود ہیں مگر بصد ادب‘ ایم ایم اے‘ خصوصاً مولانا فضل الرحمن کے ”بیانیے‘‘ کو تاریخ سراسر غیر جمہوری رویہ قرار دے گی۔

بات کو آگے بڑھانے سے قبل اس معاملے کے ایک خاص پہلو پر اپنا نقطہ نظرعرض کرنا مناسب معلوم ہوتا ہے۔ہمارے ملک میں سب سے آسان ہدف جمہوریت پسندوں کو سمجھا جاتا ہے۔ چاہے‘ وہ عملاً اس نظام کو چلانے والے ہوں‘ ورکر ہوں یا قلم و قرطاس سے عوامی رائے کی حرمت کی جنگ لڑنے والے ہوں۔ انھیں شکوک و شبہات کی نظروں سے دیکھنے‘ ان پر دشنام کے تیر چلانے‘ حتیٰ کہ انھیں قید و بند اور شاخ دار تک لے کر جانے کے لیے بھی‘ کبھی کسی جرم یا اس کے ثبوت کی ضرورت محسوس نہیں کی گئی۔

لیاقت علی خان کے قتل سے لے کر مادرملت کے جسم سے رستے اور نصرت بھٹو کے سر سے پھوٹتے لہو تک‘ بد ترین جبر کے دور میں سیاسی ورکروں اورصحافیوں پر برستے کوڑوں سے لے کر دار و رسن کی رونقیں بڑھانے تک اوربھٹو اوربے نظیر کے خون ناحق سے لے کرسانحات پشاور و مستونگ میں ہارون بلور اور سراج رئیسانی سمیت اپنے لہو کے درخشاں دینار لٹانے والوں تک‘ سب کا خون‘ خونِ خاک نشیناں قرارپایا‘ جو رزق خاک ہوا‘ تاہم یہ اسلوب صرف ہمارے رویوں کا ہے۔ تاریخ کارویہ مختلف ہے۔ جابروں اورظالموں کو اپنے کوڑے دان کی نذرکرنا اورخونِ خاک نشیناں کو اپنے شو کیس میں سجانا روز اول سے اس کا وتیرہ رہا ہے۔

جمہوریت کے مجاور قرار پانے والے سر پھرے اہل قلم نے ذوالفقارعلی بھٹوکی منتخب جمہوری حکومت کے خلاف ہر سازش کے آگے اپنے قلم کو مقدور بھر ڈھال بنائے رکھا‘ پھر دورِ جبر میں ہر ستم سہا‘ مگر سطوتِ شمشیر کے سامنے شکوہِ قلم کو ماند نہ پڑنے دیا۔ اپنے تمام تر تحفظات کے باوجود بے نظیر اور نواز شریف کی منتخب حکومتوں کی حق میں بھی یہی کردار ادا کیا۔ جمہوریت کو اس ملک کے باسیوں کے ہر درد کا درماں سمجھنے والے ان سر پھروں نے کامل پانچ برس تک آصف زرداری کا بھی دفاع کیا۔ حکومت کی نااہلیوں پر تنقید بھی کی‘ مگر جب بھی جمہوری بندوبست کے خلاف ایوانِ انصاف یا کسی اور جانب سے سازش کی بو آئی‘ یہ اس کے آگے سینہ سپر ہو گئے۔

اس کارخیر میں عباس اطہر اور منو بھائی جیسے کئی جید علمائے صحافت کے ساتھ ساتھ ان کے نیاز مند ہم ایسے درجہ سوم کے قلم کار بھی شامل تھے‘ جو بلا امتیاز اور بنا ثبوت‘ درباری قلم کار قرار پائے۔ گزشتہ پانچ برس کے دوران قابل گردن زدنی قرار پانے والا یہ قبیلہ مسلسل نواز شریف کے حق میں کلمہ خیر کہتا رہا اور پیپلز پارٹی کی حکومت سے ملتے جلتے حالات میں منتخب حکومت کے حق میں اپنے قلم اور زبان کی ڈھال لیے کھڑا رہا۔ اب اگرہمارے یہ منتخب نمایندے خود کو منصب کے اہل ثابت نہیں کر سکے یا وہ ڈیلیور نہیں کرسکے‘ تو سلطانیٔ جمہورکے حق میں آواز اٹھانے والوں کا کیا قصور‘ جو ہر جمہوری دور میں سرکاری قلم کار کہے جاتے رہے ہیں؟ کیا ستم ظریفی ہے کہ یہاں آمریت میں خوشامدوں کے نوشتے لکھنے والے بھائی جمہوریت کے قصیدہ خوانوں کو درباری قلم کار گردانتے ہیں۔

ہم نے ہمیشہ عمران خان کی احتجاجی سیاست اوران کے چند سیاسی نظریات سے اختلاف کیا ہے‘ مگر ان کے حق میں عوامی فیصلہ آنے پر ہر محب وطن کا جمہوری رویہ یہ ہونا چاہیے کہ وہ اس فیصلے کے آگے بخوشی سر تسلیم خم کرے اور مقدور بھرمنتخب حکومت کے ہاتھ مضبوط کرے۔ دل چسپ امر یہ ہے کہ ان کے یہ ناقد صحافی اب ملک کی سب سے بڑی عدالت‘ یعنی عوامی عدالت کے فیصلے کی روشنی میں عمران خان کے حق میں کلمۂ خیر بلند کریں گے‘ تو وہ یہاں بھی درباری اہل قلم قرار پائیں گے۔

ہمارے خیال میں اس بارے کسی کو صفائی دینے کی ضرورت نہیں؛ البتہ اتنا عرض کر دینا مناسب معلوم ہوتا ہے کہ ہم صحافت کے اساتذہ کے بارے میں تو کچھ نہیں کہیں گے مگر اپنے جیسے تیسرے درجے کے کالم کاروں کے متعلق ہم وثوق سے کہہ سکتے ہیں کہ ان کی کسی دربار یا صاحب دربار تک رسائی نہیں رہی۔ اگر اپنی ذات کی بات کی جائے تو بخدا‘ ہمیں کسی دربار تک رسائی کی خواہش تھی نہ ہے۔ یہ فقط عوامی مینڈیٹ کو احترام دینے کی جدوجہد ہے‘ جس کی بنا پر حرماں نصیب کبھی آصف زرداری اور کبھی نواز شریف کے دستر خوانی گردانے جاتے ہیں اوراب عمران خان کے خوشہ چیں سمجھے جائیں گے۔

نقطہ ٔنظر کی بات طویل ہوگئی۔ موضوع ِسخن یہ ہے کہ اپنے ملک سے محبت کرنے والے ہرشخص کو اپوزیشن کی گزشتہ اے پی سی کی کارروائی کے دوران ایم ایم اے‘ خصوصاً مولانا فضل الرحمن کے خیالات سن کر دکھ ہوا ہے۔ انھوں نے انتخابی نتائج مسترد کرتے ہوئے اپنے جیتنے والے ارکان کے اسمبلی میں حلف نہ اٹھانے اور کسی کوبھی پارلیمنٹ میں داخلے کی اجازت نہ دینے کاعزم کیا ہے۔ گویا صالحین کے اندر ابھی تک کوئی مثبت جمہوری رویہ راسخ نہیں ہو سکا۔

مولانا نے تو PNA کے طرز پر تحریک چلانے کا اعلان بھی کیا ہے۔ یاد رہے کہ یہ وہ تحریک ہے‘ جس کو تاریخ امریکی اسپانسرڈ تحریک کے طورپر بے نقاب کر چکی ہے اور جس کے نتیجے میں ہم پر بد ترین آمریت کی سیاہ رات مسلط ہوئی۔ افسوس! مولانا طویل عرصے تک ہر منتخب اورغیر منتخب حکومت کا حصہ رہے‘ وہ ایک زیرک اورٹھنڈے مزاج رہنما کے طور پر معروف ہیں‘ مگر پہلی دفعہ عوامی عدالت نے انھیں اپنی نمایندگی کے اہل نہ جانا تو وہ جمہوری بندوبست کی بساط ہی لپیٹنے پر آ گئے۔ ہمیں خوشی ہے کہ اس کے مقابلے میں بڑی جماعتوں خصوصاً نون لیگ اور پیپلز پارٹی نے انتخابی نتائج پر اپنے تمام تر تحفظات کے باوجود جمہوری رویہ اختیار کرتے ہوئے اسمبلیوں کا حصہ بننے اور وہاں جا کر اپنی بات پہنچانے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس فیصلے سے جمہوری روایات کے مطابق اب پارلیمنٹ میں ایک مضبوط اپوزیشن ہوگی۔

ہمیں نہیں معلوم کہ آج تادم تحریر جاری رہنے والے اجلاس میں اپوزیشن کی یہ جماعتیں کتنی بالغ نظری کا مظاہرہ کریں گی۔ جمہوری رویہ یہ ہے کہ وہ نون لیگ اور پیپلز پارٹی کی تقلید میں اسمبلی کے اندر جا کر اپنا مثبت کردار ادا کریں۔ ان کے حق میں دعا کے ساتھ ہم ان کی خاطر خوش بیر سنگھ شادؔ کے چند اشعار نقل کرتے ہیں۔
اس انتشار کا کوئی اثر بھی ہے کہ نہیں
تجھے زوال کی اپنے خبر بھی ہے کہ نہیں
یقین کرنے سے پہلے پتا لگا تو سہی
کہ تیرے دل کی صدا معتبر بھی ہے کہ نہیں
یہ روز اپنے تعاقب میں در بدر پھرنا
بنا مسافتِ ہستی سفر بھی ہے کہ نہیں
کبھی تو اپنے خزینے اچھال ساحل پر
کسی صدف میں یہ دیکھیں‘ گہر بھی ہے کہ نہیں

(بشکریہ روزنامہ دُنیا)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).