ڈاکٹر فیصل سعید کو معذوری نے کامیابی پانے سے نہیں روکا


تندی باد مخالف سے نہ گھبرانے والے ڈاکٹر فیصل سعید سے گفتگو

ڈاکٹر فیصل سعید بچپن ہی میں پولیو کا شکار ہو گئے مگر اپنی زندگی میں حائل مشکلات کا مقابلہ کرتے ہوئے انہوں نے امریکہ سے کمپیوٹر سائنس میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔ وہ کینیڈا میں رہائش پزیر ہیں اور ایک اعلی عہدے پر کام کر رہے ہیں۔ ان سے یہ انٹرویو 2015 میں لیا گیا۔ مجھے یقین ہے کہ قارئین بھی اس ملاقات سے محظوظ و مستفید ہوں گے۔

س1۔ فیصل کچھ اپنی ابتدائی زندگی کی بابت بتائیں۔ تعلیمی سلسلہ، خاندان اور معذوری کا شکار کب ہوئے؟
ج۔ میرا نام فیصل سعید ہے۔ میری پیدائش لاہور پاکستان میں ہوئی لیکن والد کی ملازمت کی وجہ سے زیادہ تر وقت اسلام آباد میں گزرا جو اس وقت نیا آباد ہوا تھا۔ لہذا میں اپنے آپ کو وہاں بسنے والوں کی پہلی نسل شمار کرتا ہوں۔ یہ ایک بسایا گیا شہر تھاکہ جہاں لوگ فیڈرل حکومت کی ملازمتوں سے وابستہ تھے۔ میرے والد فیڈرل گورنمنٹ منسٹری کے انتظامی امور سے منسلک تھے۔ میں اپنے والدین کی اکلوتی اولاد تھا۔ اور ہوش سنبھالنے سے پہلے ہی مجھے پولیو ہو گیا تھا۔

س 2۔ بچپن میں اس معذوری کا اثر آپ کی شخصیت پر کس طرح پڑا؟
ج۔ میں شروع سے اپنے دادا سے قریب تھا۔ والد کے مقابلے میں مجھے دادا کی توجہ زیادہ حاصل رہی۔ ان کی کوشش تھی کہ بجائے لاڈ پیار میں بگاڑنے کے بچہ پڑھ جائے اور آئندہ زندگی میں خود کو سنبھال سکے۔ ابتدائی تعلیم کا سلسلہ اسکول کی بجائے گھر میں ہوا۔ میری معذوری بہت زیادہ تھی۔ میں صرف گھٹنوں کے بل گھسٹ گھسٹ کے چل سکتا تھا۔ جس سے میرے کپڑے پھٹ جاتے تھے۔ دادا نے میرے علاج کے لئے ہر ممکن کوشش کی۔ کوئی ڈاکٹر، حکیم، پہلوان، یا پیر فقیر ایسا نہ تھا جس کو نہ دکھایا گیا ہو۔ پھر فیصل آباد کے ایک ڈاکٹر انور تھے انہوں نے کہا کہ میں سرجری کروں گا اور اس سلسلے کے تین آپریشن کروں گا۔ دونوں ٹانگوں اور کمر کا۔ ٹا نگوں کے دو آپریشنز کے بعد میں بیساکھی لے کر چلنے کے قابل ہو گیا۔ مگر اس کے بعد خود ان ڈاکٹرکی وفات ہو گئی۔ اور یوں میری کمر کی سرجری نہ ہو پائی۔ اس معذوری کی وجہ سے میں بہت غصہ میں رہتا تھا۔ کیونکہ بچے مجھے مار کر بھاگ جاتے تھے۔ اور میں کچھ نہیں کر سکتا تھا۔ یہ غصہ میری بے بسی کا تھا۔ اپنی چار پانچ سال کی عمر کا ایک واقعہ مجھے یاد ہے کہ ایک بچے نے ایک برتن میں ریت ڈال کر میرے اوپر الٹ دی جو میرے بالوں اور آنکھوں میں بھر گئی۔ میں رو رہا تھا اور میرے دادا مجھے نہلاتے جاتے اور صاف کرتے جاتے اور ساتھ ساتھ ڈانٹتے بھی جاتے کہ کیوں لڑتے ہو؟

س 3۔ تو پھر یہ غصہ کیسے کم ہوا؟
ج۔ پھر میں نے محسوس کیا کہ لڑائی کر کے بات نہیں بنے گی۔ اس کے بعد میں نے بچوں سے دوستی کا جذباتی تعلق بنانا شروع کیا۔ پھر ان کے ساتھ کھیلوں کا رخ اور انداز بدل گئے۔

س4۔ تو اب کونسے کھیل ہوتے تھے؟
ج۔ کھیل تو زیادہ تر وہی تھے مگر کھیلنے کے انداز بدل گئے۔ مثلاً بال گیمز ہوتے تو میرے دوستوں کی کوشش ہوتی کہ گیند میری طرف آئے نہ کہ گیند مجھ سے دور جائے۔ یا پھر ہم تھیٹر کرتے تو وہ مجھے بادشاہ بنا دیا کرتے تھے۔ ان تمام کھیلوں میں مجھے بہت اچھا لگتا تھا۔ کہ میں مکمل طور پر ان کے ساتھ شامل ہوں۔ دادا کی توجہ میری پڑھائی پر تھی۔ وہ ہر نئے سال اگلے نصاب کی کتابیں لے آتے تھے۔ ان کی یہ کوشش رہتی تھی کہ میرا دوسرے بچوں کے ساتھ ربط اور میل جول رہے۔ میں ان کے سامنے کتاب پڑھتا تھا اور ان کا کہنا تھا کہ ”پڑھتے ہوئے کوئی لفظ بھی چھوڑنا نہیں ہے۔ اگر میں سو بھی گیا ہوں تو اٹھا کر پوچھو ‘‘۔ مجھے لگتا ہے کہ یہ ان کی بہت بڑی قربانی تھی وہ اپنی نیند و آرام کو میری پڑھائی کے لیے قربان کر رہے تھے۔ پھر ان کو میرے علاج و معالجہ کی بھی بہت فکر تھی۔ انہوں نے ہر طریقہ سے علاج کو آزمایا حتی کہ پیروں فقیروں تک گئے کہ کچھ بہتر ہو جاؤں۔

س5۔ اسکول کی تعلیم گھر میں کی مگر کالج تک رسائی کیسے ہوئی؟
ج۔ جب میں میٹرک میں تھا تو دادا کا ہارٹ فیل سے اچانک انتقال ہو گیا۔ یہ میرے لیے بہت بڑا شاک ( صدمہ ) تھا۔ لگتا تھا کہ سب کچھ رک گیا ہے۔ اور سمجھ نہیں آتا تھا کہ آگے کیسے چلے گا۔ والد نوکری اور گھر کی ذمہ داریوں میں مصروف تھے۔ اور ان کو یہ پریشانی بھی تھی کہ اب تک اسکول نہیں گیا۔ وہاں بچے کیا سلوک کریں گے۔ بہرحال کالج میں داخلہ کرا دیا گیا۔ میری عمر اس وقت پندرہ برس کی تھی۔ کالج میں ایک اور لڑکا تھا جو کہ نا بینا تھا۔ اس نے بہت سخت وقت گزارا تھا۔ بچے اس کو مار کے اور چٹکی لے کر چلے جاتے تھے۔ لیکن میرے ساتھ خدا کا شکر ہے کچھ ایسا نہیں ہوا۔ گو کہ میں اس وقت بہت نازک اور جذباتی دور سے گزر رہا تھا۔ لیکن دوسرے بچوں کے ساتھ تعلق بنانے کی صلاحیت پیدا ہو گئی تھی اس کا فائدہ ہوا۔ اور میں نے اپنے آپ کو اظہار سے بھر پور بنا لیا۔ اکثر تو کالج کے پہلے اور دوسرے سال میں ایک دن میں پانچ ساڑھے پانچ سو لڑکوں سے ہاتھ ملاتا تھا۔ اور یوں بہت سے لوگوں سے مضبوط رشتہ بن گیا۔

س6۔ یہ دوست کس طرح آپ کو سپورٹ کرتے تھے؟
ج۔ میں ہر طرح کی سرگرمی میں حصہ لیتا تھا۔ مثلاً کرکٹ میں بیٹنگ کرتا اور دوسرا لڑکا رنر کے طور پردوڑتا ہوتا۔ ساتھ ہی مصوری اور تقریری مقابلوں میں بھی گرم جوشی سے حصہ لیتا۔

س7۔ آگے بڑھنے کا یہ جذبہ کس طرح پیدا ہوا؟
ج۔ دادا نے بچپن میں یہ جذبہ دیا تھاکہ تمہیں اپنی جگہ خود بنانی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ” ہر انسان کی موجودگی کا ایک مقصد ہوتا ہے۔ تم نہیں جانتے کہ تمہاری زندگی کا کیا مقصد ہے۔ تم اس کے لیے اپنے آپ کو تیار کرو۔ ‘‘ تو یہ سارے تجربے جو میں مختلف شعبوں میں کر رہا تھا۔ میں دراصل اپنے آپ کو آزما رہا تھا۔ کہ میری صلاحیت ہے کہاں۔ تقریری مقابلوں میں بہت انعامات ملے پھر معلو مات عامہ کے مقابلوں میں حصہ لینا شروع کیا۔ یہ مقابلے ریڈیو اور ٹی۔ وی پہ ہوتے تھے۔ میں قومی سطح پہ اپنے کالج کی نمائندگی کرتا۔ علامہ اقبال کے موضوع پہ تو کوئی مجھ سے مقابلہ نہیں کر سکتا تھا۔ پاکستان اور تحریک پاکستان میں بھی قومی سطح پہ میرا شمار دوسرے یا تیسرے نمبر پہ ہوتا تھا۔ تئیس مارچ اور چودہ اگست کے موقع پہ میرے قریش پور صاحب کے ساتھ براہ راست لائیو پروگرام ہوتے اور کالج میں خوب خوشیاں منائی جاتیں۔ ایک دفعہ جب میں 14 اگست والے دن کالج کے لیے قومی سطح کے مقابلہ میں ٹرافی جیت کر لایا تو پرنسپل نے پورے کالج کی چھٹی کا اعلان کر دیا۔

مزید پڑھنے کے لئے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3