زہے مقدر حضور حق سے سلام آیا، پیام آیا


اور اب میں تنہا اس قدیم سرزمین کی عظیم مسجد میں بے خبر سی کھڑی تھی۔ مگر دل میں کسی گھبراہٹ کا کسی بے چینی کا کوئی نشان تک نہ تھا کہ پیارے نبیؐ کے آستانے پر پریشانی کی سی، گم جانا اور ملنا کی سا، الجھنا اور سمجھنا کی سا، یہ دنیا کی تو جاہ نہیں جہاں پر خوف اور اندیشے ہر قدم سے الجھتے ہیں، جہاں کھو جانے کی مشکل ہر اک اوڑھ ہوتی ہے۔ یہ تو جنت کی نگری تھی جہاں آسانی ہی آسانی تھی، رحمت ہی رحمت تھی۔ بہت خواب دیکھے زندگی بھر جنت کے، جہاں کوئی فکر نہ ہو گی، کوئی اندیشے نہ ہوں گے، سکوں ہو گا اور نور ہی نور ہو گا، جہاں کوئی مفلس نہ ہو گا کوئی مسکین نہ ہو گا، کوئی بیمار نہ بوڑھا، کوئی بچہ نہ معزور، اگر یہ جنت نہ تھی تو پھر جنت اور کیا ہو گی۔ یہاں ہم نے نہ کوئی مسکین دیکھا نہ غریب، کوئی بیمار نہ معذور، کوئی بوڑھا نہ بچہ۔

یہاں ہر ایک چہرے پر ایک سی طلب اور چاہت تھی، ہر ایک جسم میں ایک سی بجلی تھی، وہیل چئیرز پر، کرسیوں پر بیٹھے، سٹرولرز میں لپکتے سب کے چہرے پر امن تھا سکون اور شانتی تھی۔ ایسے کہ جیسے کسی سہانے دن کا خوبصورت سورج نکلے اور سب پر ایک سا چمکے اور ان کے چہروں کو ایک سا روشن کر دے۔ تو اس جنت میں روضہ رسول کا سورج ہر حلیے، اور حالت، ہر ہیئت اور عمر سے بے نیاز ہر اک چہرے کو اپنے نور میں رنگتا جاتا ہے۔ تو پھر اس جنت میں کانپتی ٹانگوں ٬لرزتے ہاتھوں والے بھاگے چلے جاتے تھے، کھانستے گولیاں کھاتے لوگوں کی بیماریاں تعطیل پر تھیں اور ہر بوڑھا اور بچہ ہر مرد اور عورت، اندیشے اور وسوسے، منفی جذبے، ہر غرور اور حسرت سے بے نیاز جنت کے باغیچوں میں جیسے تکیے لگائے بیٹھے تھے اور اس کالی کملی والے پیارے نبیؐ پر درودوسلام کی تسبیح کرتے تھے۔

ننگے صحن کی آخری رو میں سب خواتین کے بیچ عشاء کی باجماعت نماز ادا کی۔ نماز مکمل کر کے احتیاطاً کچھ نوافل بھی پڑھے۔ پھر ادھر ادھر دیکھا۔ صحن میں فراغت سے بیٹھے گپ شپ لگاتے یا تسبیحات کرتے لوگوں میں پاکستانیوں کی تعداد سب سے زیادہ تھی۔ عورتوں کی اکثریت فرصت سے بیٹھی تھی کسی کو بھی کسی صورت جلدی نہ تھی۔ اس لیے اندازہ مشکل تھا کہ اب کدھر کو چلنا ہے۔ سو میں اٹھی اور مسجد کو دیکھتی اس طرف کو چلی کہ جس طرف کچھ خواتین اندر جاتی دکھائی دیتی تھیں۔ اس جگہ سے کسی سمت سے گنبد خضرا کی کوئی جھلک نظر نہ آتی تھی تو یقیناً کسی دوسری سمت ہی جانا ہو گا۔ گھومتے گھماتے میں مسجد کے اندرونی حصے کے داخلی دروازوں تک پہنچی جہاں برقعہ پوش سیکورٹی کی عربی خواتین کمر سے کمر جوڑے ہر عورت کے بیگ کی تلاشی لیتے انہیں اندر داخل کرتی تھیں۔ میں کیمرا ساتھ نہ لائی تھی کہ یہ میری پہلی حاضری تھی اور آج آنکھوں کو نظارے سے بڑھ کر اور کسی چیز کی طلب تھی نہ اس بے حرمتی کی ہمت۔ آج تو محض پاؤں چھونے تھے، منتیں اور التجائیں کرنی تھیں۔ آج تو صرف کالی کملی والے کے حجرے کے دیدار کی شب تھی اور نور کے اس اجالے میں بھیگنے کا مقام تھا تو ایسے میں دنیا کاندھے پر لاد کے لے جانے کی ہمت ہی کہاں تھی۔

ادب کا اعلیٰ مقام آیا:

مسجد نبوی میں داخلے سے لے کر روضہ رسول میں حاضری تک خواتین کے لئے اک خاصا صبر آزما مرحلہ تھا چونکہ عورتوں کے کچھ مخصوص اوقات تھے اور جیسے میلوں کا فاصلہ تھا۔ کپڑے کی دیواروں پر دروازے لگا کر عورتوں کا اک جم غفیر سمیٹ سمیٹ کربٹھایا جا رہا تھا۔ چند ایک برقعہ پوش عرب سیکورٹی کی خواتین آواز لگاتیں اور ہم کسی کے ہاتھ پر، کسی کے پاؤں پر بیٹھتے چلے جاتے۔ یہ بھی اک معجزہ تھا کہ سینکڑوں عورتیں، ہر رنگ ہر نسل ہر عمر اور ہر انداز کی عورت محض دو یا تین سیکورٹی کی خواتین سے کنٹرول ہوئے جاتی تھیں۔ تو یہاں ہم بھی عورتوں کے کندھوں سے کندھے ملائے کبھی بیٹھے، کبھی کھڑے ہوئے۔ ایک کے بعد ایک در کھلنے کا انتظار طویل ضرور لگا مگر کوفت زدہ نہیں کہ نبیؐ کے گھر میں کوفت کی کہاں جگہ۔ زباں پر درود شریف رکھیں اور گھنٹوں انتظار کی لائن میں لگے رہیں۔

درود و سلام کا یہ لطف زندگی میں پھر کبھی کہیں نہ آئے گا جو نبیؐ پاک کے قدموں میں بیٹھ کر، ان کی چوکھٹ پر کھڑے ہو کر ان کے آستانے کو پکڑ کر کرنے میں ہے۔ یہ اس دربار کی برکت ہے، رحمت ہےیا عظمت ہے مگر یہ کوئی ایسی ہی نعمت ہے جو اس دنیا کی چیز نہیں۔ وہ جو ہم سنتے ہیں کہ آسمانوں پر فرشتے دن رات درود و سلام میں مصروف رہتے ہیں اور سوچتے ہیں کہ کی سی محنت کرتے ہوں گے وہ فرشتے، تو نبیؐ کی اس چوکھٹ کو پکڑ کر درود و سلام پڑھ کے دیکھیے آپ کو وہ لذت ملے گی جس میں بہہ کر فرشتے سالوں اور صدیوں، دن اور رات صرف اسی ذات پر درود و سلام کہتے رہتے ہیں۔ یہاں بھی جہاں جہاں کچھ قیام ہوا نوافل اور درود پاک کی توفیق ملتی رہی۔

اور پھر ایسا ہوا کہ خواتین کے اسی ریلے میں بہتے بہتے اک ایسے جگہ جا پہنچی کہ جہاں کھوے سے کھوا چھلتا تھا۔ سانس لینے کو ہوا مچلتی تھی اور تل دھرنے کو جگہ نہ تھی۔ کچھ خواتین سامنے کی سمت چلنے کی کوشش میں ہلکان تھیں اور کچھ کی تمامتر جستجو بائیں طرف نکلنے کی تھی جہاں اک پردے کی بنی دیوار کے پیچھے سے جھانکتی سبز جالی تھی۔ کسی خاتون کی سرگوشی نے خبر دی کہ جھکاؤ نظریں بچھاؤ پلکیں ادب کا وہ اعلیٰ مقام آ پہنچا ہے کہ جس کی بشارت بہت کمسنی میں ہماری پلکوں پر اتری تھی، آنکھوں نے جب سے خواب دیکھنے سیکھے تھے مرادیں ہاتھ میں لئے یہ دل ہمیشہ جس کی سمت لپکا تھا۔ تو یہ ذرا سے محض چند ہاتھ کے فاصلے پر جو سبز جالی تھی وہ ہمارے عزیز تر نبیٌ کے روضے کی جالی تھی کہ جس کی اک نظر کی طلب میں کی سے زندگی ترستی تھی۔

اس جگہ اس مقام پر کہ جہاں نبٌی پاک کے مبارک قدموں کو یہاں کی خوش قسمت مٹی چومتی تھی، جہاں آپ استراحت فرماتے تھے اور دنیا کے خوش قسمت ترین زمانے کے خوش نصیب ترین لوگوں پر نظر کرم کرتے تھے اور اپنی دعاؤں اور مرادوں میں ہم جیسے حقیر امتیوں کےلئے اور ہمارے بعد آنے والوں کے لئے بھی دعائے رحمت کرتے تھے۔ یہی محض چند ہاتھ کے فاصلے پر میری بائیں جانب قریب تر پہنچ جانے والی خواتین کپڑے کی دیوار تھامے اس چوکھٹ سے لپٹی تھیں اور آہ و زاریاں اور فریاد کرتی تھی، ہجر و وصال کی داستانیں کہتی تھیں۔ یہیں اسی مقام پر سینکڑوں عورتوں میں گھسے جہاں سر جھکانے تک کی جاہ نہ تھی میں نے نفل کی نیت کی اور اس ہجوم میں کبھی ادھر گرتے کبھی ادھر گرتے کھڑے کھڑے اشارے سے نفل ادا کیے۔

اللہ جانتا ہے کہ ریاض الجنہ میں اسقدر ہجوم میں اشاروں میں نفل پڑھنے مناسب تھے کہ نہیں مگر وہاں جہاں بے تحاشا کمزور بوڑھی عورتیں، ماؤں سے لپٹے ننھے بچے عورتوں کے ہجوم میں پھنسے سانس لینے کو ترستے تھے، یہ مجھے نا مناسب لگا کہ ایک عورت جگہ گھیرنے کو دائیں بائیں کھڑی کر کے بیٹھ کر نفل پڑھنے کی کوشش کی جائے۔ نوافل پڑھ کر روضہ رسول کی جالی کو خوب جی بھر کر نگاہوں میں قید کیا اور سائیڈ سے جتن کرتی آگے جانے کی بجائے میں ذرا پیچھے کو تھوڑی کھلی جگہ پر سرک آئی۔ اس لئے بھی کہ دوسروں کو موقع مل جائے اور اس لئے بھی کہ بغیر زحمت کے دیدار روضہ نبٌی کیا جاے۔

مزید پڑھنے کے لئے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3 4