زہے مقدر حضور حق سے سلام آیا، پیام آیا


سمندر پار سے رب کی رحمت اور نبیؐ کا کرم اپنے قدموں تک لے آیا تھا تو دل اسی پر بہت مسرور تھا۔ جالی کو ہاتھ نہ پہنچا، دیوار کو چھو کر نہ دیکھا ایسی کوئی حسرت نہ تھی کہ یہی کیا کم معجزہ تھا کہ میں تھی میرے سامنے محض چند ہاتھ پر میرے نبٌی کے روضے کی جالی تھی۔ میرا پڑھا درود اب میلوں کے فاصلے سے نہیں یہی چند قدم کے فاصلے پر ان تک پہنچ سکے گا، یہی سعادت کیا عمر بھر کے جینے کے لیے کم تھی۔

زرا پیچھے کھڑے ہو کراس نبٌی کی سبز جالی کو نظروں سے بوسے دیے جس کی شفاعت کے وعدے پر ہم جیسے کتنے ہی کمتر حقیر لوگوں کی سانسیں بحال رہتی ہیں، اور سر اٹھے رہتے ہیں، ہم اپنے چیتھڑے لگے خستہ حال ایمان پر بھی جس کے نام کا آسرا ہمیشہ اک چھتری کی طرح تانے رکھتے ہیں۔ نبٌی پاک کے در سے میرا تعلق بہت ہی ذاتی بہت قدیم تھا تب بھی جب اک کمسن لڑکی کی طرح روضہ پاک میں بیٹھی میں درود پاک کی تسبیح کرتی تھی، تب بھی جب میری دنیا جیت لینے کی سب ریاضتیں مٹی میں ٹوٹ کر مٹی ہو جاتی تھیں، تب بھی جب غلط نہ ہو کر بھی غلطیوں کی سنگ باری سہنا پڑتی تھی، تب بھی جب دنیا پیروں کے نیچے سے سرکتی تھی اور سر پر سے آسماں غائب ہو جاتا تھا۔ جب راست ہو کر بھی تہمتیں سہنی پڑتی ہوں، جب ٹھیک ہو کر بھی زہر کا پیالہ محض آپ ہی کی قسمت ہو، تو اس پیارے نبٌی کا مبارک نام کتنے ہی دلوں کی امان بنتا ہے۔

اس دنیا کے ہاتھوں جو بھی ٹوٹتا ہے وہ روتا ہوا اسی در پر آتا ہے کہ جس کی چوکھٹ کے سامنے ابھی مجھ سی اک حقیر ہستی کھڑی تھی۔ اسی پیارے نبٌی کا نام میرا بھی ہر کڑے موڑ پر دلاسہ بنا تھا، اسی نے مجھے گرنے کے بعد پھر کھڑا کیا تھا، اسی نے زندگی کے فنا ہو جانے کے بعد پھر سے حیات کو میری جھولی میں بھرا تھا، ایک بار نہیں کئی کئی بار۔ ہم ناکارہ ناہنجار لوگ ہیں بار بار گر جاتے ہیں اور ٹوٹ بکھر جاتے ہیں تب یہی پیارے نبٌی کی شفاعت، اس کی رحمت، وہ صدیوں پہلے اس کے اٹھے ہاتھ ہمیں پھر سے جوڑ کر کھڑا کر دیتے ہیں۔ سارے جہانوں کے لئے رحمت بن جانے والے پیارے نبٌی کی آنکھوں میں کسی کے لئے کوئی تہمت کوئی بہتان نہ تھا، جو دنیا کی نظروں اور زبانوں سے بالاتر ہو کر دیکھتا اور سوچتا اور انسانوں میں عزت اور احترام اور حقوق بانٹتا تھا۔

تو آج اس کی کالی کملی کو بوسہ دینے کا وقت تھا تو یہی کیا کم تھا کہ اس کی چوکھٹ کو تھام کر نہیں تو اس کی چوکھٹ کے باہر میں کھڑی تھی، صرف میں اور میرا وہ پیارا نبٌی اور بس وہاں پھر اور کوئی نہیں تھا۔ نبٌی پاک کی اس جنت میں عورتوں کے ہجوم میں ہر عورت تنہا تھی اور اپنے نبیوں کے نبٌی سے دل کا حال کہتی تھی پوری رازداری سے، پوری محویت سے، اسے وہ سب کہتی تھیں کہ جو کہنے اور بتانے کی آرزو میں انہوں نے اتنی زندگی گزاری تھی۔ اسے وہ سب حوالے دیتی تھیں جب جب وہ اس کی رحمت کی راہ اس ظالم دنیا میں دیکھتی رہیں، جب جب ان کی جھولی کے حقوق چھنتے رہے اور دنیا میں کسی کان تک ان کی دہائی نہ پہنچی، آج وہ سب کہہ دینے کی اور پیارے نبیؐ کو اپنی پہچان کروانے اپنا حوالہ یاد کروانے کی رات تھی۔

عورتوں کے اس ہجوم بیکراں میں سب سے زیادہ کم جذباتی، رٹی ہوئی دعائیں پڑھتی، رٹے ہوئے سجدے کرتی عورت پاکستانی تھی اور سب سے زیادہ خموش بہتی لال سوجی سوجی آنکھیں عرب خصوصاً مصری عورت کی تھی۔ نجانے ہماری پاکستانی قوم کو ہم نے اخلاص کیوں نہیں سکھایا، ہم جہاں بیٹھتے ہیں کچی گولیاں کھیلنے کی کوشش کرتے ہیں، زندگی کے ہر محاذ پر کھوٹے سکے لے کر پہنچ جاتے ہیں۔ کبھی گفتگو میں مصروف، کبھی عمارت کی خوبصورتی میں الجھے، کبھی تبصروں میں پھنسے یہ بھول جاتے ہیں کہ کی سی کی سی کرامتیں ہمارے سامنے کھڑی ہماری جھولی میں گرنے کو بیقرار ہوتی ہیں اور ہم وہاں بیٹھے ان کرامات کو سمیٹ لینے کی بجائے اینٹوں اور پتھروں کی مدح سرائی کرنے میں مگن رہتے ہیں۔

تو وہ عربی خوبصورت گلابی گالوں اور لال سوجے ناک والی عورتیں ذرا پیچھے تنہا ہو کر بیٹھتی تھی اور تنہا تنہا روضہ رسول کی جالی سے رازونیاز کرتی تھیں۔ اگر آپ کا بھی دل کسی شے میں اٹکا ہے اور دل پر لگا تالہ ابھی ٹوٹنے سے ڈرتا ہے تو ایسے ہی کسی لال سوجے روتے سسکتے چہرے پر نظر ڈالیں اور اس کے چہرے پر روضہ رسول کی جالی کی حدت محسوس کریں۔ آپ کے دل و روح کے سب تالے ٹوٹ کر کرچی کرچی ہو جائیں گے اور ایسے سیلاب نکلیں گے کہ پھر سنبھالے نہ جائیں۔ گے۔ یہاں عشق کی آتش اڑتی پھرتی ہے کہ جو چاہے مجھے اپنے کندھے پر بٹھا لے، جو چاہے مجھے سینے سے لگا لے۔ یہاں کوئی کمتر اور کوئی افضل نہیں۔ نبٌی پاک کے دربار میں پہنچ کر سبھی ایک ہو چکے ہیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3 4