ایک کال گرل کی کہانی


’’اس کہانی کا ایک مرکزی کردار ڈاکٹر عدیل ہے، جس کی عمر یہی کوئی پچاس پچپن سال ہو گی‘‘۔
’’ہوں‘‘!
وہ ہوٹل میں ایک کال گرل طلب کرتا ہے۔ پچیس چھبیس سال کی لڑکی‘‘۔
’’عمر کم نہیں ہو سکتی؟ یہی کوئی بیس بائیس سال‘‘؟

’’دیکھ لیتے ہیں۔ فی الحال مرکزی خیال سن لیں۔ سونیا نام ہے اُس کا‘‘۔
’’اصلی نام‘‘؟
’’ہاں! یہی سمجھ لیں‘‘۔

’’پر ایسی لڑکیاں اپنا اصلی نام نہیں بتاتیں‘‘۔
’’جی ایسا ہی ہے؛ یہ ہم واضح کر دیں گے۔۔ کہانی سناوں‘‘؟
’’ہاں ہاں! وہی تو سن رہے ہیں‘‘۔

’’ڈاکٹر عدیل نے اس سے پہلے کبھی کال گرل نہیں بلائی، تو اب اُس کی ہمت نہیں پڑتی، کہ وہ پیش قدمی کرے‘‘۔
’’اچھا! پھر‘‘؟

سچو ایشن ایسی بنتی ہے، کہ شیشے کا گلاس ٹوٹنے سے لڑکی کا پاوں زخمی ہو جاتا ہے۔ چوں کہ عدیل ڈاکٹر ہے، تو اُس کی مسیحائی کی حس بیدار ہو جاتی ہے۔ اُس کی مرہم پٹی کا بند و بست کرتا ہے‘‘۔
’’ہوٹل میں مرہم پٹی کا بند و بست کیسے ہو گا‘‘؟
’’ریسپیشن پہ کال کر کے منگوائے گا۔ ہوٹل میں فرسٹ ایڈ کا سامان ہوتا ہے‘‘۔
’’اچھا! پھر‘‘؟

’’سونیا کی مرہم پٹی کرتا ہے؛ سونیا کو یہ اچھا لگتا ہے۔ یہاں ہم دکھائیں گے، کہ وہ ڈاکٹر عدیل کو محبت بھری نظرں سے دیکھ رہی ہے، اور عدیل جھجک رہا ہے، شرماتا ہے‘‘۔
’’ہوں‘‘!

’’اور یہی سے ہماری کہانی آگے بڑھتی ہے۔ عدیل اُس کو کہتا ہے، تم آرام کرو؛ اب تم ’سروس‘ دینے کے قابل نہیں ہو۔ سونیا کہتی ہے، کوئی بات نہیں، تم نے جس مقصد کے لیے بلایا ہے، وہ پورا کر لو‘‘۔
’’کمال ہے۔ پھر‘‘؟

’’وہ دونوں باتیں کرنے لگتے ہیں۔ سونیا اُسے اپنی داستان سناتی ہے، کہ وہ اس فیلڈ میں کیسے آئی‘‘۔
”یہ کال گرل جھوٹی کہانیاں سناتی ہیں؛ تمھارا واسطہ نہیں پڑا ان سے؛ وہ اسے سچی کہانی کیوں‌ سنائے گی“؟

بڈھے کی عمر ستر کے قریب ہو گی۔ مزاج تھا کہ پروں پہ پانی نہ پڑنے دے رہا تھا۔ میں اپنے ایک واقف ڈائریکٹر کے بلاوے پہ اس کے یہاں آیا تھا۔ بالکل نیا پروڈکشن ہاوس تھا، پہلا پہلا کام تھا۔ ان کو کہانی چاہیے تھی۔ ایک کال گرل کی کہانی۔ ٹی وی سیریز میں ہر ہفتے ایسی خواتین کی کہانی دکھائی جانا تھی، جنھیں ’ورکنگ ویمن‘ کہا جاتا ہے۔ نرس، استانی، لیڈی ڈاکٹر، ریسپشنسٹ، ٹیلے فون آپریٹر، بیوٹی پارلر والی اور اسی طرح کے مختلف شعبوں میں خواتین کن مشکلات سے گزرتی ہیں، گھر اور باہر اُن کے مسائل کیا ہوتے ہیں، وہ اس سیریز کا موضوع ہوتے۔

”یہ تو میرا کام ہے، اُس کال گرل سے سچ اگلوانا؛ اسکرپٹ لکھوں گا، تو اس سچو ایشن سے انصاف کروں گا“۔
”بھئی نہیں ہو گا؛ کیسے ہو گا؟ اس سے اچھی کہانی تو میں خود بنا سکتا ہوں‘‘۔ بڈھے نے زِچ آ کے کہا۔

مجھے لگا، اب قصہ ختم کر دینا چاہیے۔ اس فیلڈ میں جو نئے نئے لوگ آتے ہیں، یہ بہت لہو پیتے ہیں۔ انھیں سمجھانا جان جوکھم میں ڈالنے والی بات ہے۔
”ٹھیک ہے؛ پھر اسے رہنے دیتے ہیں۔ آپ خود ہی لکھ لیجیے گا“۔

سیریز کا متوقع ہدایت کار سمجھ گیا تھا، کہ میرا مزاج بگڑ رہا ہے۔ اُسے خدشہ تھا، کِہ کوئی اور ہدایت کار کسی دوسرے رائٹر کو یہاں لے آیا تو اس کی دال روٹی کا حرج ہو گا۔ فورا بولا۔
”اوپننگ تو اچھی ہے؛ اور ظفر بہت اچھا رائٹر ہے، سنبھال لے گا“۔

پھر میری طرف دیکھ کے مخاطب ہوا۔
”وہ انھیں بتاو ناں، تمھاری وہ سیریل! وہ کیا نام تھا۔۔۔ وہی جو ساری کی ساری طوائفوں پہ تھی“۔
شہادت کی انگلی اور انگوٹھے کو ملا کے چھلا بناتے داد دینے کے سے انداز میں بڈھے سے کہا۔

مزید پڑھنے کے لئے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں

ظفر عمران

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3 4

ظفر عمران

ظفر عمران کو فنون لطیفہ سے شغف ہے۔ خطاطی، فوٹو گرافی، ظروف سازی، زرگری کرتے ٹیلی ویژن پروگرام پروڈکشن میں پڑاؤ ڈالا۔ ٹیلی ویژن کے لیے لکھتے ہیں۔ ہدایت کار ہیں پروڈیوسر ہیں۔ کچھ عرصہ نیوز چینل پر پروگرام پروڈیوسر کے طور پہ کام کیا لیکن مزاج سے لگا نہیں کھایا، تو انٹرٹینمنٹ میں واپسی ہوئی۔ آج کل اسکرین پلے رائٹنگ اور پروگرام پروڈکشن کی (آن لائن اسکول) تربیت دیتے ہیں۔ کہتے ہیں، سب کاموں میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا پڑا تو قلم سے رشتہ جوڑے رکھوں گا۔

zeffer-imran has 323 posts and counting.See all posts by zeffer-imran