پاکستان: سرمائے کی واپسی کا سنہرا خواب اور حقائق


پاکستان کی نو منتخب حکومت نے غیر قانونی طریقے سے بیرون ملک منتقل کیا جانے والا سرمایہ واپس لانے کے لیے ایک ٹاسک فورس قائم کی ہے، لیکن سوال یہ ہے کہ کیا سرمائے کی یہ واپسی اتنی آسان ہے؟ معاشی ماہرین کا کہنا ہے کہ اس میں کئی رکاوٹیں اور چیلنجز کا سامنا کرنا پڑے گا۔

اثاثے عدالتوں میں غیر قانونی ثابت کرنا ہوں گے

پاکستان کے سابق سیکریٹری خزانہ ڈاکٹر وقار مسعود خان کا کہنا ہے کہ مجموعی طور پر مثبت پیش رفت ہے تاہم کم توقعات کے ساتھ آگے بڑھنا چاہیے کیونکہ اس راہ میں دقتیں پیش آئیں گی اور وقت بھی لگ سکتا ہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ عدالتوں کی مدد بھی درکار ہوگی۔

’پہلے مرحلے میں نشاندہی ہونی ہے کہ فلاں فلاں افراد کے فلاں جگہ اثاثے ہیں، اب یہ ثابت کرنا ہے کہ یہ صحیح طریقوں سے نہیں بنائے گئے بلکہ ٹیکس چوری، منی لانڈرنگ یا کرپشن سے بنائے گئے ہیں، اس کے بعد ان الزامات کو اپنی عدالتوں میں ثابت کرنا ہو گا وہ ثابت ہو جائیں اور عدالتوں کے فیصلے ہوں تو پھر حکومت کے ہاتھ مضبوط ہو جائیں گے اور وہ تقاضا کر سکتی ہے۔‘

غریب اور طاقتور دونوں متاثرین

دنیا میں ایتھوپیا جیسے غریب ممالک سے لے کر طاقتور ممالک میں بھی کرپشن سے کمائے گئے سرمائے کی بیرون ملک منتقلی کی کئی مثالیں موجود ہیں۔

اقتصادی محقق مزمل اسلم کا کہنا ہے کہ پاکستان سے پہلے دنیا کے بڑے طاقتور ملک بھی یہ مشق کر چکے ہیں لیکن وہ بھی کامیاب نہیں ہوئے۔

’انڈیا میں وجے مالیا لاکھوں کا قرضہ لے کر یورپ فرار ہو گئے، انڈین حکومت ان کے پیچھے پڑی ہوئی ہے، سینٹرل لندن روسی سرمائے سے بھرا ہوا ہے سب کو پتہ ہے کہ یہ روس میں کرپشن کا پیسہ ہے، روس کی تمام تر کوششوں کے باجود وہ واپس نہیں آیا، امریکہ نے سوئٹزر لینڈ کو دھمکی لگائی تھی کہ تمام ڈیٹا شیئر کریں کہ امریکیوں کا کتنا پیسہ سوئس بینکوں میں پڑا ہے اگر تعاون نہیں کیا تو آپ کا کاروبار بند کر دیں گے لیکن سوئٹزر لینڈ نے کہا کہ تین سال کے بعد اس کا ڈیٹا شیئر کریں گے۔‘

پاکستانی حکومت نے شہریوں کو مشورہ دیا ہے کہ وہ ایسے لوگوں کی نشاندہی کریں جو غیر قانونی طریقے سے اثاثے باہر منتقل کر چکے ہیں انھیں 20 فیصد انعام دیا جائے گا۔

مزمل اسلم کا کہنا ہے کہ ایک امید ہے کہ پاکستان جو معاشی ترقی میں تعاون کی عالمی تنظیم، او سی ای ڈی کا رکن بنا ہے اس سے معلومات تک رسائی تو مل جائے لیکن اثاثوں تک رسائی دشوار ہو گی۔

’اگر کسی پاکستانی شہری کی دبئی میں جائیداد ہے تو وہاں کی حکومت پاکستان سرکار سے رابطے کرکے معلومات کا تبادلہ کرتی ہے لیکن ان رقومات کو واپس لانا اور مقدمات کی پیروی کرنا بہت مشکل کام ہے، اگر ایسے لوگ دبئی میں رہائش اختیار کر لیتے ہیں تو پاکستان کا یہ دعویٰ ختم ہو جائے گا کیونکہ دبئی کہہ گا کہ یہ اب میرا شہری ہے اب میرا اور اس کا معاملہ ہے۔‘

قانون میں سقم اور کمزوریاں موجود تھیں

وزیراعظم کے مشیر برائے احتساب بیرسیٹر شہزاد اکبر کا کہنا ہے کہ 100 بڑے ’مگر مچھوں‘ کی چھان بین کریں گے اور ان کی دولت کو پاکستان لائیں گے، بقول ان کے حکومت میوچل لیگل سٹیٹ ایکٹ لا کے ذریعے سے بیرونی ملک سے ہنگامی بنیادوں پر اطلاعات حاصل کی جا سکیں۔

نجکاری کمیشن کے رکن اور ٹیکس اصلاحات کے ماہر اشفاق تولہ کا کہنا ہے کہ اگر آپ بزنس مین کے پیچھے پڑیں گے تو یاد رکھیں کہ پاکستان میں بزنس بہت تھوڑا ہے اور بزنس مین بھی تھوڑے ہیں تو پھر کسی کے لیے بھی یہاں بزنس کرنا یا مزید سرمایہ لے کر آنا بہت مشکل ہو جائے گا۔

’جب یہ سب کچھ ہو رہا تھا تو اس وقت قانون میں سقم اور کمزوریاں تھیں صرف ایک انکم ٹیکس آرڈیننس تھا جس میں کسی قدر مضبوطی تھی اس پر انھوں نے عملدرآمد نہیں کیا، اب چھ سال گزرنے کے بعد آپ اس پر عملدرآمد نہیں کر سکتے۔ ان کا تعاقب کریں جو بڑے بڑے کنسلٹنٹ ہیں جنھوں نے یہ مشورہ دیا کہ پیسے کس طرح سے باہر لے کر جانا ہے۔‘

پاکستان کی معشیت کو سہارے کی تلاش

پاکستان کے غیر ملکی زرمبادلہ میں مسلسل گراؤٹ کا رجحان ہے، جمعرات کو سٹیٹ بینک کی جاری کردہ رپورٹ کے مطابق یہ اثاثے مزید 342 ملین ڈالرز کم ہو کر 9885 ملین ڈالرز تک پہنچ چکے ہیں، حکومت بین الاقوامی مالیاتی فنڈ سے 12 ارب ڈالرز کے بیل آؤٹ پیکیج کی خواہشمند ہے۔

کراچی کے بزنس مین محمود غفار کا کہنا ہے کہ موجودہ حالات میں معاشی صورتحال خراب ہے ایسے اقدامات نظر نہیں آ رہے جس سے فوری طور پر کوئی بہتری آئے حکومت اوورسیز پاکستانیوں کے لیے بانڈز کی سکیم لے کر آرہی ہے اس کے ذریعے شاید کچھ پیسے آئیں گے لیکن وہ بھی ایک دو ارب ہوں گے جبکہ ٹیکس نیٹ بڑھانا دشوار ہے ٹیکس کی وصولی ان سے ہی کریں گے جو پہلے سے ادا کر رہے ہیں تو یہ بہت برا ہو گا اس سے بزنس مین دباؤ کا شکار ہو جائے گا ۔

ایمنیسٹی سکیم بھی مددگار نہ ہوئی

تحریک انصاف کی حکومت سے قبل مسلم لیگ ن کی حکومت نے معاشی دباؤ سے نکلنے کے لیے بیرون ملک اور اندرون ملک اثاثے قانونی بنانے کے لیے ایمنیسٹی سکیم کا اعلان کیا تھا۔

ایمنیسٹی سکیم کے ایک خالق اشفاق تولہ بھی ہیں ان کا کہنا ہے کہ ایمنیسٹی سکیم 2017 میں لانا چاہتے تھے لیکن پانامہ لیکس کی وجہ سے حکومت محتاط ہو گئی اور جب یہ سکیم آئی تو اس وقت مسلم لیگ ن کی حکومت کمزور ہو چکی تھی امید یہ تھی کہ 60 سے 70 ارب روپے کے غیر ملکی اثاثے ظاہر ہوں گے جو فوری ریلیف کے لیے درکار ہے لیکن ایسا نہیں ہو سکا۔

’کچھ لوگوں نے جب ان کی شہریت پاکستانی تھی اس وقت کے اثاثے ظاہر کر دیے کچھ لوگوں نے خیراتی ٹرسٹ میں دکھائے لیکن مارکیٹ ویلیو کے مطابق سامنے نہیں لائے۔

اشفاق تولہ ایمنیٹسی سکیم کے ٹارگٹ حاصل نہ کرنے کا ذمہ دار نگران وفاقی وزیر خزانہ شمشاد اختر کے رویے کو بھی قرار دیتے ہیں۔

’کچھ ایسے پاکستانی ہیں جن کی خلیجی ممالک میں املاک ہیں اور وہ انھیں ظاہر کرنا چاہ رہے تھے لیکن ان کے پاس وہاں کا بینک اکاؤنٹ نہیں تھا، انھوں نے ایک درخواست کی تھی جو قانون کے عین مطابق تھی پاکستان میں موجود فارن کرنسی کمپنیز جو سٹیٹ بینک سے رجسٹرڈ ہیں کیونکہ اس کے پاس صارف کی پوری تفصیلات موجود ہوتی ھیں یعنی شناختی کارڈ نمبر، ٹیکس نمبر اور اس سے منی لانڈرنگ کا معاملہ نہیں آتا کیونکہ یہ ڈیل حکومت کے ساتھ تھی لیکن شمشاد اختر نے فنانشل ٹاسک فورس کے دباؤ کو جواز بنا کر ایسا نہیں ہونے دیا۔‘

اقتصادی محقق مزمل اسلم کا کہنا ہے کہ اس اسکیم میں ایک خامی یہ تھی کہ وہ صرف کاروباری حضرات اور پرائیوٹ لوگوں کی لیے تھی نہ سیاست دانوں کے لیے تھی فوجیوں اور نہ ہی بیورکریٹس کے لیے تھی یہ جو کرپشن ہوتی ہے بزنس مین تو اس کا ایک حصہ ہوتا ہے جبکہ باقی اداروں کے لوگ ہوتے ہیں جب ان کو شامل نہیں رکھا گیا تو جو پیسہ ان کے ناموں پر تھا یا ان کے توسط سے گیا ہوا ہے وہ واپس نہیں آ سکا یہ ہی وجہ ہے کہ ایمنیٹسی سکیم توقع سے کم رہی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32292 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp