‘بھاگ بھری‘ کا ساون آئے، ساون جائے


خالد جو اس خطے میں تباہی کی بنیاد رکھنے والا کردار ہے،یہ سب حال اپنی آنکھوں سے دیکھ کر بھی دل و دماغ پر ندامت کا کوئی چھینٹا محسوس نہیں کرتا۔ قاری سفیان کی طرف سے کی گئی ذہن سازی اب بھی اس پر حاوی ہے۔ معاویہ کے یہ بتانے کے باوجود کہ اب صرف خوراک اور پانی ہی لوگوں کا مذہب، عقیدہ، ضرورت اور خواہش ہے اور اسی کے لیے سب لڑائی ہے ساون عرف خالد یہ ماننے کو تیار نہیں کہ سب کچھ ختم ہو چکا ہے۔ وہ جیسے تیسے افغانستان پہنچنا چاہتا ہے کیونکہ اسے یقین ہے کہ قاری صاحب نے غزوہ ہند کی بابت جو حدیث سنائی تھی وہ باطل نہیں ہو سکتی۔ تعجب کی بات ہے کہ ناول کے خاتمے تک وہ کرداراپنے یقین پر قائم ہے اور قحط سالی کا دور دیکھتے بلکہ اسے محسوس کرتے ہوئے بھی اپنی سابقہ اسائن منٹ کے حوالے سے کسی تذبذب کا شکار نہیں ہوتا۔ ہمارے یہاں قائم ہونے والی جہاد انڈسٹری کی اصل خصوصیت ہی یہ ہے کہ اس انڈسٹری کے مالک، مزدور،منیجرز، ڈسٹری بیوٹرز اور کسٹمرز یک ذہن وجاں ہیں،وہ اپنے مقاصد کو لے کر کسی تذبذب،تزلزل، کج فہمی، ہچکچاہٹ یا تناؤ کا شکار نہیں ہوتے۔ ناول کے اس حصے میں داستانی رنگ حاوی ہونے کے باوجود واقعات سے زیادہ کردار اہمیت کے حامل ہیں۔ ان کرداروں کے ذریعے مذہبی انتہا پسندی کے پیچھے موجود خاص بیانیے اور عصری تاریخ دونوں کو واضح کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ ناول کے پلاٹ کا سب سے کمزور پہلو اختتام ہے کہ بالکل ایسے جیسے بالی ووڈ کی کوئی فلم ختم ہوتی ہے۔ ساون عرف خالد نے اگر خراسان پہنچنے کی خواہش دِل میں لیے تابکاری کے اثرات والے زہریلے پانی سے ہی موت کے منہ میں جانا تھا تو کہانی کو سیاسیات کی کلاس کا ایسا طویل لیکچر بنانے کی کیا ضرورت تھی کہ جس میں ٹیچرہر چار جملوں کے بعد یہ دہرائے کہ ڈئیر سٹوڈنٹس! ہماری سیاسی تاریخ کے بارے میں اب جو بات میں بتانے لگا ہوں وہ پچھلی سب باتوں سے اہم ہے۔

 میں لٹریچر کے ایک ایسے استاد کو جانتا ہوں جن سے آپ خواہ آج پوچھیں یا دس برس بعد کہ ‘جون ایلیا کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے؟ ‘ تو وہ برملا جواب دیں گے کہ ‘جون۔۔۔ ہاں ! وہ چھوٹی بحر کا اچھا شاعر ہے۔‘ آج سے دس برس پہلے بھی ان کی جون شناسی یہیں ختم ہو جاتی تھی۔ اردوناول کے حوالے سے میری شناسائی کا بھی کم و بیش یہی عالم ہے کہ جو خصوصیات میں نے گذشتہ صفحات میں ‘بھاگ بھری‘ کی بیان کی ہیں وہ ہر ناول میں سے نکال سکتا ہے اور اگرنہ نکال پاؤں تو بس یہ کہہ کر جان چھڑا لینا مناسب سمجھتا ہوں کہ ‘ہاں۔۔۔ !جس ناول کی آپ بات کر رہے ہیں وہ ایک بڑے کینوس پر لکھا گیا بہت اچھا ناول ہے۔ ‘سمجھ میں یہ آیا ہے کہ ناول پر تنقید آسان کام نہیں۔ یہ زندگی پر تنقید کرنے ایسا ہے اور زندگی پر تنقید کرتے ہوئے آپ یہ تو بتا سکتے ہیں کہ یہ کیسی ہے اور جیسی ہے ویسی کیوں اور اسے کیسی ہونا چاہیے لیکن ظاہر ہے کہ یہ نہیں بتایا جا سکتا کہ زندگی جیسی ہے اگر ویسی نہ ہوتی تو کیسی ہوتی۔ ‘بھاگ بھری‘ کا کمال یہ ہے کہ اس نے زندگی کے معصوم اور بھیانک روپ کو ایک ساتھ ہمارے سامنے رکھ دیا ہے۔ ہم اپنی اصل میں کیا ہیں، جہاں کھڑے ہیں وہاں تک کیسے پہنچے اور جس راستے پر گامزن ہیں وہ کس منزل تک لے جائے گا یہ سب گوشے باری باری وا ہوتے جاتے ہیں۔ میلان کنڈیرا نے کہا تھا کہ ناول حقیقت کا نہیں وجود کا مشاہدہ کرتا ہے اور وجود وہ واقعہ نہیں جو درپیش ہو چکا ہے بلکہ وجود انسانی امکان کی مملکت ہے۔ صفدر زیدی کا متذکرہ ناول ہماری سیاسی و سماجی تاریخ کے فیصلہ کن لمحات پر بے شک ایک گہری نظر کا نتیجہ ہے لیکن جہاں تک کہانی کا تعلق ہے تو اس میں انسانی وجود کے مشاہدے سے مختلف امکانات کھوجنے کی کوشش بھی واضح نظر آتی ہے۔

میرے خیال میں اپنے ہم زاد سے سوال کرنے کی اب میری باری ہے۔۔۔

‘تو۔۔۔ کیوں جناب!! کافی نہیں ہو گیا؟ ‘

‘مجھ سے کیا پوچھتے ہو، مرضی ہے تمہاری۔۔۔ تم اگر اس دور کی پیداوار ہوتے جب کیمرے کی ایک رِیل سے صرف چھتیس فوٹوز ہی بن سکتے تھے اور پھر رِیل نکلنے، دھلنے اور پیسے خرچنے سے پہلے پتا نہیں ہی چلتا تھا کہ فوٹو بنا بھی ہے یا نہیں اور اگر بنا ہے تو کیسا۔ ۔ تو میں دیکھتا کہ یہ سوال تم کیسے پوچھتے۔۔۔ !! اب ڈی ایس ایل آر ہاتھ میں ہے۔۔۔ بناتے جاؤ تصویریں جب تک کہ خود نہ تھک جاؤ۔ بھاگ بھری کی۔۔۔ ساون کی۔۔۔ ان کے گاؤں کی۔۔۔ وڈیرے کی۔۔۔ مدرسے کی۔۔۔ قاری سفیان کی۔۔۔ خالدکے ساتھی مجاہدین کی۔۔۔ پھر اس ناول میں تو آباد اور اجڑی دونوں دنیائیں ہیں۔۔۔ تمہارے ڈی ایس ایل آر کی بیٹری ختم ہو جائے گی لیکن فطرت کی خوشیاں اور غمیاں ختم نہیں ہوں گی۔ ‘

‘یار تم بیٹری کی فکر مت کرو۔ اگر یہ جواب دے گئی تو 64 GB میموری والا Oppo ہے نا جیب میں۔۔۔ بس تم یہ بتاؤ کہ جتنی تصویریں تمہیں دکھائی ہیں وہ کافی ہیں یا اور بناؤں۔۔۔ ‘

‘نہیں! اور نہیں چاہئیں۔۔۔ بس ایک تصویر اس پورے ناول میں نظر نہیں آئی، اگر کہیں ہے تو وہ بنا کر لاؤ اور دکھاؤ۔ ‘

‘کون سی؟ ‘

‘یار کوئی لڑکی وڑکی،اس سے چھوٹی موٹی محبت۔۔۔ یا۔۔۔ چلو۔۔۔ پسندیدگی ہی سہی۔ مطلب ساون، معاویہ یا ان کے ساتھیوں میں سے کسی کو کوئی لڑکی اچھی لگی ہو۔۔۔ ساون عرف خالد تو شعیوں کو مارنے کراچی سے گلگت تک گیا، وادی کیلاش میں بھی وہ لوگ اس مقصد کے لیے گئے۔۔۔ تم نے بتایا کہ وہ تو ہندوستان میں بھی گھس گیا دھماکے کرنے۔۔۔ تو یار کہیں تو کوئی لڑکی بھی اچھی لگ ہی جاتی ہے۔ ‘

‘دیکھو۔۔۔ اب تم نان سیریس ہورہے ہو، بھئی ان لوگوں کے سامنے بڑا مقصد ہوتا ہے، جب جنت میں حوریں مل ہی جانی ہیں تو پھر کوئی دنیا کے اس عارضی حسن سے دِل کیوں لگائے۔۔۔ ‘

‘اچھا چلو چھوڑو۔۔۔ تم نے بتایا کہ گلیشیئرز پگلنے سے آنے والے سیلاب میں سب کچھ بہہ گیا۔۔۔ مطلب سب کچھ سے مراد سب کچھ ہی ہے نا۔۔۔ توساون اپنی ماں کو ساتھ لیے غزوہ ہند لڑنے کیسے نکل پڑا؟ کوئی ہتھیار۔۔۔ کوئی افرادی قوت۔۔۔ کوئی سواری۔۔۔ کوئی خوراک ‘

‘بھئی تم نے تو سوال و جواب کا سیشن شروع کر لیا ہے۔ سب سوالوں کا ایک ہی جواب ہے کہ ناول خود پڑھ لو۔۔۔ جب ایک دفعہ بتا چکا ہوں کہ عقل، فہم، سوچ یعنی۔۔۔ یوں کہہ لو کہ منطق۔۔۔ اس چیز کو خالد خراسانی جیسوں کی ذہن سازی کے دوران اپنڈکس کی طرح کاٹ دیا جاتا ہے۔ ویسے اگر یہ تمہارا آخری سوال ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ ساون کو اس کے سسر اللہ وسایا نے ایک اونٹنی دی تھی اور اس پر خوراک اور پانی کافی تعداد میں لاد دیا تھا،یہی ان کی سواری بھی دی۔ ‘

‘ہاہاہا۔۔۔ اونٹنی نہ ہوئی چوبیس ویلر ٹرالا ہو گیا بھئی۔۔۔ ہاہاہا۔۔۔ ‘

‘شٹ اَپ یار ‘۔۔۔

میں نے اپنے ہم زاد کی شرارت کو بھانپ لیا ہے۔ اس سے پہلے کہ وہ غیر سنجیدگی میں مزید اول فول بکے،مجھے ‘بھاگ بھری‘ کے انتساب پر اپنا اعتراض ریکارڈ کروا کر اجازت چاہیے ہوگی۔ یہ انتساب ‘اجڑی ماؤں کے نام ‘ ہے۔ ہم سب کو ماؤں سے بہت پیار ہے اوردل سے دعا نکلتی ہے کہ کبھی کوئی ماں نہ اجڑے لیکن یقین کیجیے کہ کبھی کبھار ماؤں کے ساتھ باپ بھی اجڑ جاتے ہیں، خاص طور پر تب جب انھیں پتا چلے کہ جس بیٹے کو انھوں نے ہارورڈ، آکسفورڈ یا اپنے نسٹ اور لمز وغیرہ تک پہنچانے کے لیے زندگی بھر محنت کی وہ ایسے کسی تعلیمی ادارے سے ہو کر افغانستان یا عراق پہنچ گیا۔ ویسے ناول میں ایسا کچھ نہیں ہے۔ یہ آخری جملہ تو میں نے اپنے بیٹے کے لیے لکھا ہے جسے ایک ہفتہ پہلے میں بلوم فیلڈ ہال اسکول کی پریپ ون کلاس میں بٹھا کر آیا ہوں۔

خاور نوازش

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3 4 5

خاور نوازش

ڈاکٹر خاور نوازش بہاء الدین زکریا یونیورسٹی ملتان کے شعبہ اُردو میں اسسٹنٹ پروفیسر ہیں۔ اُردو اور ہندی تنازع کی سیاسی، سماجی اور لسانی جہات پر تحقیقی مقالہ لکھ کر ڈاکٹریٹ کی سند حاصل کی۔ اُن کے پہلی کتاب‘ مشاہیرِ ادب: خارزارِ سیاست میں’ 2012ء میں مقتدرہ قومی زبان اسلام آباد سے شائع ہوئی۔ ‘ادب زندگی اور سیاست: نظری مباحث’ کے عنوان سے اُن کی دوسری کتاب مثال پبلشرز فیصل آباد نےشائع کی۔ اُردو کی ادبی تحقیق و تنقید کے ساتھ ساتھ عصری سیاست اور سماجی موضوعات پر بھی لکھتے ہیں۔ اُن سے اس میل ایڈریس پر رابطہ کیا جا سکتا ہے۔[khawarnawazish@bzu.edu.pk]

khawar-nawazish has 5 posts and counting.See all posts by khawar-nawazish