منٹو، جالب اور صدر ایوب


یومِ منٹو منانے کا زبردست پروگرام پاک ٹی ہاؤس کی میزوں پر تیار ہوا تھا اور تقریب کے لیے ہمیں محکمہ قومی تعمیرِنو نے جو آڈیٹوریم عطا کیا تھا وہ بھی ٹی ہاؤس کے سامنے ہی تھا۔ چنانچہ جلسے میں آنے والے لوگ وقتِ مقررہ سے کافی پہلے جمع ہونا شروع ہوگئے۔
سب سے زیادہ بے چینی حبیب جالب کو تھی۔

ہم نے یومِ منٹو کے سلسلے میں جو پوسٹر تیار کیا تھا اس میں یہ لائن بھی درج تھی: ’۔ ۔ ۔ اور مشہور شاعر حبیب جالب منٹو کو منظوم خراجِ عقیدت پیش کریں گے۔ ‘ جب یہ پوسٹر منظوری کے لیے ہم نے اپنے گُرو امین مُغل کو دکھایا تو انھوں نے ’مشہور شاعر‘ کے الفاظ کاٹ دیے۔ حبیب جالب فوراً شکوہ کرنے کے لیے امین مغل کے پاس پہنچ گئے اور کہنے لگے ’ کیا میں تمہارے خیال مَیں ایک مشہور شاعر نہیں ہوں‘ امین مغل پہلے تو شاعر کی اِس معصومیت پر مسکراتے رہے۔

پھر سمجھانے کے انداز میں بولے ”علامہ اقبال کے نام کے ساتھ تم نے کبھی ’مشہور شاعر‘ کا اضافہ دیکھا ہے؟“ حبیب جالب نے کچھ دیر سوچا اور پھر خاموشی سے اپنا احتجاج اور اعتراض واپس لے لیا۔ بہر حال یومِ منٹو کی تقریب میں حبیب جالب بہت بے چین تھے اور چاہتے تھے کہ انھیں پہلے پڑھوا لیا جائے، لیکن ہم نے مقررّین کی ایک خاص ترتیب رکھی ہوئی تھی جس میں عابد حسن منٹو اور احمد راہی کے بعد حبیب جالب کو بلانا تھا۔

عابد حسن منٹو کا مضمون بہت دلچسپ تھا اور سعادت حسن منٹو کے خاندانی پس منظر کی روشنی میں اس کا نفسیاتی تجزیہ پیش کرتا تھا۔ جبکہ احمد راہی نے کچھ ایسے ذاتی تجربات کا حوالہ دیا تھا جن سے منٹو کی زندگی کے آخری ایّام کی یاد تازہ ہوتی تھی۔ لیکن یہ کوئی خوشگوار یاد نہ تھی، اِس میں منٹو کی گرتی ہوئی صحت اور بڑھتی ہوئی شراب نوشی کا تذ کرہ تھا اور ایک جگہ تو احمد راہی اتنے جذباتی ہو گئے کہ اُن کی آواز بھّرا گئی اور آنکھوں سے آنسو رواں ہو گئے۔ اِس مضمون کے بعد ہال میں ایسا سکوت طاری تھا کہ سوئی بھی گرتی تو آواز سُنائی دیتی۔ لیکن پھر اچانک باہر مال روڈ پر کچھ شور سنائی دیا جو بتدریج بڑھتا ہی جا رہا تھا۔ چند منٹ بعد ’صدر ایوب مردہ باد ‘ کے نعروں کا یہ شور بالکل ٹی ہاؤس اور ہمارے آڈیٹوریم کے قریب پہنچ گیا۔

جلسے کی کارروائی رُک گئی اور لوگ کھڑکیوں سے مال روڈ کا نظارہ کرنے لگے جہاں صدر ایوب کے خلاف بہت بڑا جلوس جا رہا تھا۔ کچھ منچلے ہال سے باہر نکل کر سڑک پر چلے گئے اور یوں لگا کہ بس ہمارا جلسہ درہم برہم ہو چکا ہے۔ لیکن کچھ ہی دیر بعد آنسو گیس کے گولے چلنے لگے اور فائر بریگیڈ کی سیٹیاں فضا میں گونجنے لگیں۔ جلوس کا کچھ حصّہ آگے نکل گیا اور کچھ منتشر ہو گیا۔ جی پی او سے پنجاب یونیورسٹی تک کا حصہ ہجوم سے صاف ہو گیا اور اب وہاں محض پولیس کی گاڑیاں دکھائی دے رہی تھیں۔

پولیس کے کچھ دستے مال روڈ کی ذیلی سڑکوں اور گلیوں میں ’تخریب کاروں‘ کو تلاش کر رہے تھے۔ لوگ دُکانوں اور گھروں میں گھس رہے تھے تاکہ پولیس کی نظروں میں نہ آجائیں۔ ہمارے جلسے کے وہ شرکاء بھی جو تماشہ دیکھنے کے لیے باہر نکل گئے تھے اب جان بچا کر واپس ہال کی طرف بھاگے اور دیکھتے ہی دیکھتے ہال پھر سے بھر گیا۔

جلسے کا یہ دور عجیب گھٹن کے سے ماحول میں ہو رہا تھا۔ باہر مال روڈ پر سنّاٹا تھا۔ شام گہری ہو رہی تھی اور ہم سب کو گھر بھی لوٹنا تھا۔ کچھ لوگوں کو فکر تھی کہ کرفیو لگ گیا تو کیا ہوگا۔

جلسے کی کارروائی دوبارہ شروع ہوئی۔ پہلے کچھ باوردی پولیس والے اندر آئے اور معلوم کیا کہ یہ تخریب کاروں کا اجتماع تو نہیں ہے۔
انھیں یہ کہہ کر مطمئن کر دیا گیا کہ یہ ایک ادبی محفل ہے۔ ان کے جانے کے بعد بغیر وردی کے کچھ پولیس والے آئے جنھیں ہم نے اُن کی حجامت اور چّپلوں سے پہچان لیا۔

جلسہ دوبارہ شروع ہوتے ہی حبیب جالب اشاروں سے پوچھنے لگے کہ میری باری کب آئے گی۔ دو تین مقررین کے بعد ہم نے حبیب جالب کو دعوت دی۔ وہ تیزی سے اسٹیج پر آئے گویا انھیں شک ہو کہ ہم یہ دعوت واپس نہ لے لیں۔
جالب نے مائیک سنبھالتے ہی جو پہلی لائن پڑھی وہ ہم سب منتظمینِ جلسہ کے ہوش اُڑانے کے لئے کافی تھی۔

جالب کی نظم کا پہلا مصرعہ تھا ’منٹو کسی ایّوب سے دبتا تو نہیں تھا‘ اب ہماری یہ حالت تھی کہ ’کاٹو تو لہو نہیں بدن میں‘
پانچوں نوجوان ایک دوسرے کی طرف دیکھ رہے تھے۔

ہمیں یقین تھاکہ ابھی وہ فوجی حجامت اور پشاوری چپلوں والے ’خُفیہ‘ کے کارکن اُٹھیں گے اور حبیب جالب کے ساتھ ساتھ ہم پانچوں کو بھی گرفتار کر لیں گے۔ ہر لمحہ سوہانِ روح تھا۔

حبیب جالب نے منٹو کو محض بہانہ بنایا تھا، ان کا اصل مقصد صدر ایّوب کو کھری کھری سنانا تھا۔ نظم کا ہر مصرعہ ایّوب خان کے خلاف ایک فردِ جرم تھا البتہ نظم کے آخری شعر میں غالباً ہمیں خوش کرنے کے لئے منٹو کا نام بھی ڈال دیا گیا تھا لیکن کچھ اس انداز میں:
بے با کی و حق گوئی کی تلوار تھا منٹو
تم کون ہو، تم کیا ہو، مِرا یار تھا منٹو

فوجی حجامتوں اور پشاوری چپلوں والے لوگ ہمیں گرفتارکیے بغیر چلے گئے، لیکن حبیب جالب کو ایک ہفتے کے اندر اندر ’ غل غپاڑے ‘ والی دفعہ کے تحت گرفتار کرلیا گیا اور چند روز بعد ٹی ہاؤس میں اُن کا وہ شعر زبان زدِ خاص و عام تھا جو انھوں نے گھر پہ ہونے والی متعدد گرفتاریوں میں سے ایک کے موقع پر کہا تھا:
اُس کو شاید کھلونا لگی ہتھکڑی
میری بچی مجھے دیکھ کر ہنس پڑی


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).