الیکشن سے پہلے ووٹر داماد، الیکشن کے بعد امیدوار


ہندوستان اور پاکستان جیسے ممالک میں جہاں کہ پبلک ووٹ کی قدر و قیمت سے قطعی نا آشنا ہے، اور انتخابات میں کسی امیدوار کو ووٹ دینا صرف ایک ذاتی منفعت کا ذریعہ سمجھا جاتا ہے، انتخابات کو فتنہ پردازیوں کی طرح الیکشن پردازیاں ہی قرار دیا جانا چاہیے۔ اس سلسلے کے چند ذاتی تجربات ملاخطہ فرمائیے :۔ چند برس ہوئے دہلی میونسپلٹی کے انتخابات تھے، اور دریا گنج کے علاقہ سے ایک تو کمیونسٹ امیدوار تھے، اور دوسرے انڈی پنڈنٹ۔ انتخابات کی رونق اپنے جو بن پر تھی، تو انڈی پنڈنٹ امیدوار کے حق میں پراپیگنڈہ کرنے کے لئے ایک ڈیپوٹیشن دفتر ” ریاست“ میں آیا۔

راقم الحروف نے ان سے پوچھا، فرمایئے کیا حکم ہے؟ ڈیپوٹیشن کے ایک سر کردہ ممبر نے جواب دیا۔ یہ امیدوار اس علاقہ سے کھڑے ہوئے ہیں، اور اس ڈیپوٹیشن کے آنے کی عزض یہ ہے، کہ ایڈیٹر ”ریاست“ ان کو اپنا ووٹ دے۔ اس پر میرے اور امیدوار کے درمیان کے یہ بات چیت ہوئی:۔

میں :۔ آپ میونسپل کمیٹی کی ممبری کے لئے کیوں کھڑے ہو رہے ہیں؟
امیدوار :۔ تا کہ میونسپل کمیٹی میں جا کر لوگوں کی سیوا کی جائے۔

میں:۔ تو آپ کے خیال میں آپ ابھی اپنے گلی کوچوں کے لوگوں کی سیوا کر کے اپنا کام ختم کر چکے ہیں، اور اب اپنے علاقہ سے باہر شہر کی خدمت انجام دینا چاہتے ہیں؟
امیدوار :۔ جی ہاں! میری خواہش تو یہی ہے۔

میں :۔ آپ یہ غلط بیانی کیوں فرما رہے ہیں۔ کیونکہ جہاں تک سیوا یا خدمت کا سوال ہے، لوگ اتنے دکھی ہیں، کہ اگر آپ اپنی زندگی بھر صرف ایک گلی یا محلہ کی خدمت انجام دیں، تو اس کے لئے ایک زندگی تو کیا، کئی جنم چاہیں۔ یہ کہئے کہ آپ ڈپٹی کمشنر سے ہاتھ ملانے کی عزت اور ممبری کے ذریعہ ذاتی مفاد حاصل کرنے کے لئے میونسپلٹی میں جانا چاہتے ہیں۔

میرا یہ جواب سن کر ڈیپوٹیشن کے ممبروں نے سمجھ لیا، کہ یہ ووٹ نہ مل سکے گا۔ چنانچہ ڈیپوٹیشن واپس چلا گیا، اور میں نے اپنا ووٹ ان کے حق میں استعمال نہ کیا۔ کیونکہ میرے ضمیر کے مطابق کسی غیر مستحق شخص کو ووٹ دنیا پبلک کے ساتھ بے انصافی اور گناہ ہے۔

راقم الحروف کے ایک سکھ دوست ذاتی اعتبار سے بہت دلچسپ اور لطیفہ گو ہیں۔ آپ لدھیانہ میں رہتے ہیں، اور پنجاب اسمبلی کے ممبر رہے ہیں۔ آپ جب بطور امیدوار کھڑے ہوئے تو اپنے حلقہ میں گئے۔ الیکشن میں صرف تین روز باقی تھے، اور آپ پروپیگنڈہ اور اپنا اثر رسوخ استعمال کرنے کے لئے بے حد مصروف تھے۔

کوئی اپنے ووٹ کی قیمت دس روپیہ اور کوئی ایک سو روپیہ طلب کرتا۔ کوئی شراب کی ایک بوتل پر مطمئن تھا، اور کوئی چاہتا تھا، کہ ووٹ کی قیمت کے طور پر امیدوار اس کے مقدمہ میں تحصیلدار یا مجسٹریٹ سے سفارش کرے۔ ایک ووٹر نے مطالبہ کیا، کہ اگر امیدوار گانے کی محفل منعقد کرے، اس محفل میں گانے کے لئے کسی طوائف کو منگایا جائے اور شراب کا دور ہو، تو اس ووٹر کے زیر اثر پچاس کے قریب ووٹر آپ کے حق میں ووٹ دیں گے۔

چنانچہ ” قہر ووٹر برجان امیدوار“ اسی روز آپ نے اپنا ایک نمائندہ فیروزپور بھیج کر وہاں سے مجرا کرنے والی ایک طوائف ساٹھ روپے نقد اور ریلوے کا کرایہ دے کر منگائی۔ شراب کی ایک درجن بوتلیں آئیں اور ووٹر صاحبان کی دعوت ہوئی۔

یہ امیدوار بہت دلچسپ اور لطیفہ گو ہیں۔ آپ نے جب یہ حالات دیکھے، تو اپنے ایک دوست سے کہا، ” یہ کمبخت ووٹران آئندہ تین روز میں جو بھی مطالبہ کریں گئے میں پورا کروں گا۔ کیونکہ یہ ووٹ دینے کے وقت تک اپنے آپ کو میرا داماد سمجھتے ہیں اور ناجائز مطالبات پیش کیے جا رہے ہیں۔ مگر میں آئندہ پانچ برس تک ان کا داماد بنا رہوں گا، اور ان کے ووٹ کے طفیل زیادہ سے زیادہ ذاتی مفاد حاصل کروں گا۔ چنانچہ روپیہ اور دوسرے ناجائز ذرائع استعمال کرنے کے بعد یہ سردار جی ممبر اسمبلی منتخب ہوئے، اور انہوں نے ڈنکے کی چوٹ سے لیڈری کا لطف اٹھایا۔

رائے بہادر ڈاکڑ متھرا داس آف موگا آنکھوں کے سرجنوں میں بہت بڑی اہمیت رکھتے ہیں۔ آپ نے آنکھوں کے اتنے آپریشن کیے ہیں، جن کا مقابلہ دنیا کا کوئی سرجن نہیں کر سکتا۔ ذاتی اعتبار اور کریکڑ کی بلندی کے اعتبار سے بھی آپ بہت ہی بلند ہیں، جن کی مہاتما گاندھی نے بھی ریڈیو پر تعریف کی تھی۔ انہوں نے ایک غلطی (بلکہ اپنی زندگی میں سب سے بڑی غلطی ) کی۔ آپ پنجاب اسمبلی کی ممبری کے لئے کھڑے ہو گئے۔ آپ کو یقین تھا، کہ اس حلقہ کے ہزاروں افراد آپ کے مداح اور زیر بار احسان ہیں۔

آپ کے مقابلہ پر کانگرسی امیدوار تھا۔ آپ کو اور آپ کے تمام دوستوں کو یقین تھا، کہ آپ بہت بڑی اکثریت سے کامیاب ہوں گے۔ مگر ووٹنگ سے چار روز پہلے پنڈت نہرو وہاں پہنچ گئے اور انہوں نے کہا، کہ گو ڈاکڑ متھرا ادس بہت ہی بلند اور نیک ہیں، مگر سوال کانگرس کے پریسٹج کا ہے، اس لئے ووٹ کانگرس کے نمائندہ کو دیا جائے، جس نے انگریزوں کا مقابلہ کیا۔ پنڈت جی کی اس تقریر کا نتیجہ یہ ہوا، کہ ڈاکڑ صاحب ناکام ہوئے۔ کیونکہ اس وقت مناسب اور غیر مناسب کا نہیں، بلکہ کانگرسی اور غیر کانگرسی کا سوال تھا۔

انتخابات کے سلسلہ میں کانگرسی کے عروج و زوال کے متعلق بھی ایک دلچسپ واقعہ سن لیجیے۔ انگریزوں کے زمانہ میں الیکشن ہوا، تو سیالکوٹ کے حلقہ میں ایک امیدوار تو گانگرس کا تھا، جو نہ صرف دنیاوی اعتبار سے بلکہ قابلیت کے لحاظ سے بھی معمولی تھا، اور اس کے مقابلہ پر ایک رائے بہادر تھے، جو بہت بڑے رئیس اور اعلیٰ تعلیم یافتہ تھے۔ رائے بہادر صاحب کے مداحوں کا ایک ڈیپوٹیشن ووٹ کی ترغیب دینے کے لئے ایک ووٹر کے پاس پہنچا۔

اس ڈیپوٹیشن کے ایک ممبر نے جب یہ کہا، کہ کانگرسی امیدوار کے مقابلہ پر رائے بہادر بہت لائق ہیں، تو اس ووٹر نے جواب دیا، ”رائے بہادر چاہے کتنے بھی لائق ہیں، مگر وہ کانگرس کے نمائندہ کو ووٹ دیں گے۔ کانگرس چاہے کسی بازاری کتے کو کھڑا کر دے“۔

یہ واقعہ تو کانگرس کے عروج کے زمانہ ہے۔ اور زوال کا یہ کہ سیالکوٹ کے رہنے والے اسی شخص کے پاس ( جو پرانا قلعہ نئی دہلی میں آباد ہے) کانگرسیوں کا ایک ڈیپوٹیشن ووٹ لینے کے لئے گیا، تو اس نے جواب دیا تھا، کہ کانگرس کو ووٹ نہ دوں گا، چاہے بازاری کتے کو ووٹ دنیا پڑے“۔

راقم الحروف کے پڑوس میں ایک بزرگ رہا کرتے تھے۔ ، جو دوسرے چوتھے روز تشریف لاتے، اور ضرورت کے مطابق مشورہ بھی طلب فرماتے۔ انتخابات کا زمانہ تھا، اور شہر میں دس دس روپیہ میں ووٹ کا اقرار فروخت ہو رہا تھا۔ بعض جگہوں پر ووٹ کا نرخ بیس اور تیس روپیہ تک جا پہنچا تھا۔ آپ نے فرمایا، ووٹ کے متعلق آپ نے کیا فیصلہ کیا ہے؟ “

مجھے شرارت سوجھی۔ میں نے کہا، ” جناب ہمارے تو دو ووٹ ہیں۔ ایک میرا، اور ایک میرے پہاڑیے ملازم کا۔ تو ایک ایک سو روپیہ سے کم قیمت پر ووٹ نہ دیں گے“۔ یہ سن کر ان بزرگ نے فرمایا، ” ہمارے گھر کے تو آٹھ ووٹ ہیں“ اس پر میں نے جواب دیا، آپ کے آٹھ سو روپے کھرے۔ جس امیدوار سے چاہو، مل جائیں گے۔ تیسرے روز یہ حضرت قریب کے سکول میں ووٹ دینے پہنچے۔ امیدواروں نے ان کی آؤ بھگت کی، کہ ووٹ ان کو دیا جائے۔ مگر جب امیدواروں نے ان سے سو سو روپیہ فی ووٹ، یعنی آٹھ سو روپیہ کی رقم سنی، تو ٹھنڈے ہو گئے۔ کیونکہ اس روز اس علاقے میں ووٹ کا ریٹ دس روپیہ تھا۔ اس طرح یہ بزرگ منہ دیکھتے رہ گئے۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں

دیوان سنگھ مفتوں

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2

دیوان سنگھ مفتوں

سردار دیوان سنگھ مفتوں، ایڈیٹر ہفتہ وار ”ریاست“ دہلی۔ کسی زمانے میں راجاؤں، مہاراجوں اور نوابوں کا دشمن، ان کے راز فاش کرنے والا مداری، صحافت میں ایک نئے خام مگر بہت زور دار انداز تحریر کا مالک، دوستوں کا دوست بلکہ خادم اور دشمنوں کا ظالم ترین دشمن۔ سعادت حسن منٹو کے الفاظ۔

dewan-singh-maftoon has 26 posts and counting.See all posts by dewan-singh-maftoon