ایسا تو سب کرتے ہیں


بینا ایک نجی اسکول میں سائنس ٹیچر تھی۔ اس کا گھرانہ مثالی خوشیوں کا نمونہ تھا۔ اس کا شوہرجبران وسیع ذہن رکھتا تھا۔ اس کی دو بیٹیاں تھیں ایک کالج میں اور ایک یونی ورسٹی میں پڑھ رہی تھی۔

جبران کا کا روڈ ایکسیڈینٹ ہوا اور وہ اسپتال پہنچ گیا۔ ہوش میں آتے ہی اس نے اپنی بیوی اور بچیوں کو اپنے پاس بلایا اور کہا کہ نجا نے کیوں اسے لگ رہا ہے کہ اب وہ نہیں بچے گا اس نے بینا سے کہا کہ اس کے بعد وہ بڑی ہمت سے کام لے گی اور جس طریقے سے اس نے اس کے ساتھ زندگی گزاری ہے ویسے ہی اس کے بعد بھی گزارے گی۔ اس نے اپنی ماں بہنوں کو بلا کر تاکید کی کہ وہ اس کی بیوی پر کسی قسم کی کو ئی پابندی نہیں لگا ئیں گے۔ اس کی بیوی کیوں کہ اس کی زندگی میں بھی نوکری کرتی تھی لہذٰا اس کے بعد بھی وہ اسی طرح نوکری کرے گی۔ اس نے کہا ماں سے کہا کہ عدت کے نام پر اسے گھر نہ بٹھانا۔ ورنہ ان دنوں میں ان کی گزر بسر کا کو ئی کیسے خیال رکھ پائے گا۔ سب گھر والے جبران کو ڈانٹنے لگے کہ اس کی ایسی حالت نہیں کہ نا امیدی کی باتیں کرے۔

کچھ دنوں بعد جبران کا انتقال ہو گیا۔ بینا اور اس کی بیٹیا ں شدید صدمے کی حالت میں تھیں۔ جبران کی خالہ، گو کہ اس کی موت کے غم سے نڈھال تھی، لیکن ایمان کی دولت نے انہیں اتنا ہوش میں ضرور رکھا تھا کہ وہ بینا کو اس کی بیوگی کا حساس دلانے کے لیے اس کی سونے کی چوڑیا اتار لی جائیں، شیبا نے اپنی ماں کے ہاتھ سے کلائیاں اترتے دیکھیں تو آکر خالہ کا ہاتھ زور سے جھٹک دیا۔
خالہ نے نرم آواز میں اسے شرعی احکامات سمجھانے اور بیو گی کے لو ازمات بتانے کی کوشش کی تو وہ چیخ کر بولی امی بیوہ ہوئیں ہیں لاوارث نہیں۔

خالہ نے آنکھیں نکال کر اسے ڈانٹا، تو اس کی پھپھی بھی خالہ کا ساتھ دینے کا آموجود ہوئی اور اسے قرآن کے احکامات بتانے لگی۔
قبرستان سے مرد گھر آئے تو بینا کو یہ کہہ کر ایک کمرے میں قید کر دیا گیا کہ اب تمہاری عدت کے دن شروع ہو چکے ہیں اب تم کسی غیر محرم کے سامنے نہیں آؤ گی۔

بینا غم کے طوفان میں گھری تھی دس پندرہ دن تو اسے کسی بات کا ہوش نہ تھا، لیکن پھر ایک دن اس کے پاس اس کے اسکول کی ایک کلیگ کا فون آیا کہ اسکول میں اس کی جگہ کسی دوسری ٹیچر کا انتظام کیا جارہا ہے تب اسے خیال آیا کہ اب اس کے لیے نوکری پہلے سے زیادہ ضروری ہے۔ اس نے کپڑے بدلے اور سر پر چادر ڈال کر دروازے تک آئی تو اس کے جیٹھ ( جو رات کو اپنے چار منزلہ گھر کا کنیکشن، بجلی کے تار سے کھمبے کے تار میں اپنی چھت پر چڑھ کر جوڑ دیا کرتے تھے ) ابھی بجلی کا تار ہٹا کر پلٹے ہی تھے کہ ان کی نظر بینا پر پڑی۔ تم کہاں جا رہی ہو عدت کے دنوں میں بیوہ کا گھر سے باہر قدم نکالنا کتنا بڑا عذاب ہے نہیں جانتیں کیا۔ چلو جا ؤ اندر۔

مجھے اسکول جانا ہے، ورنہ اسکول والے دوسری ٹیچر رکھ لیں گے۔
تو رکھ لیں دوسری۔ تمہیں کوئی نوکریوں کی کمی ہے، ماشاللہ قابل ہو۔

اسی وقت اس کا بھائی گھر میں داخل ہوا۔ بینا اس کے ساتھ چلتی ہو ئی کمرے میں آئی۔
فرقان بھا ئی! بڑی پریشانی ہے گھر میں، اتنے دن گھر بیٹھوں گی تو گزارا کیسے ہوگا۔

جیسے اب ہورہا ہے، کس چیز کی کمی ہے بتاؤ۔ مگر عدت کے دنوں میں عورت کا قدم گھر سے با ہر نکلنا بڑے عذاب کو دعوت دینا ہے۔ یہ ہم نہیں کہتے قرآن میں لکھا ہے۔
بینا کی بڑی بیٹی نینا اندر کمرے میں تھی۔ ماموں کی بات سن کر تیر کی طرح نکلی ماموں! آپ جو دو دو نوکریاں کرتے ہیں ایک گورمنٹ کی اور ایک پرائیوٹ، گورمنٹ کی صرف تنخواہ لیتے ہیں۔ وہ حرام نہیں ہے کیا حرام کے بارے میں قرآن میں کچھ نہیں لکھا۔

ماموں سناٹے میں آگئے۔ دھیمے لہجے میں بولے، بیٹا! ایسا تو سب کرتے ہیں۔
بینا کی بہن ثوبیہ کمرے میں داخل ہوئی۔
میں کس کس چیز کے لیے دوسروں کا منہ دیکھوں گی، ثوبیہ تم ہی ان لوگوں کو سمجھاؤ۔ نینا کی یونی ورسٹی کی فیس جانی ہے وہ کیسے جائے گی۔
بینا نے ثوبیہ سے مدد چاہی۔
وہ تو جبران کی وجہ سے میں خاموش تھا۔ کیا ضرورت ہے نینا کو یونی ورسٹی میں لڑکوں کے ساتھ پڑھانے کی۔ اس سے پہلے کے ثوبیہ منہ کھولتی فرقان دوبارہ شروع ہو گیا۔

ثوبیہ نے ہمدردی سے بینا کو دیکھا۔ ہم ہیں نا۔ تمہیں کیا ضرورت ہے کسی کی طرف دیکھنے کی۔ ہمارا بھی کوئی فرض ہے۔ اگر ہم نے تمہیں عدت نہیں کرائی تو اللہ ہم سے ہی پوچھے گا عذاب تو ہماری گردن پر ہوگا۔ عدت کا حکم قرآن میں ہے ہم اپنی طرف سے نہیں کہہ رہے۔

خالہ آپ صرف بی اے ہیں اور سفارش سے کالج میں پڑھا رہی ہیں۔ کیا آپ نے سب کو یہ نہیں بتایا کہ آپ ایم اے ہیں۔ نینا ان کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بولی۔
مجھے کوئی ڈر نہیں ہے ایسا تو ادارے کی طرف سے مجھے کہا گیا ہے کہ میں سب پر یہ ہی ظاہر کروں کہ میں ایم اے ہوں۔
خالہ جھوٹ بولنا سب سے بڑا گناہ ہے کیا یہ قرآن میں نہیں لکھا۔ شیبا بھی بہن کی مدد کو آگئی۔
مگر یہ تو سب کرتے ہیں۔ اتنا تو چلتا ہے۔ ثوبیہ ڈھٹائی سے ناک پھلا کر بولی۔

آج بینا کی عدت خرم ہو رہی تھی۔ بینا کے میکے اور سسرالی رشتے دار بھی جمع ہو چکے تھے۔ سب لوگ بینا کی عدت کے ختم ہونے کی رسم میں بڑے ذوق و شوق سے شریک تھے۔ یوں لگتا تھا، خوشی کی کوئی تقریب ہے۔ بینا کو محسوس ہو رہا تھا جیسے آج ہی جبران کا انتقال ہوا ہے۔
سب لوگ بینا کے لیے لائی ہوئی چیزیں چوڑیاں اور رنگین جوڑے ایک جگہ سلیقے سے رکھ رہے تھے۔

خواتین اپنے اپنے چہروں کو سنجیدہ بنائے آنکھوں کو نمی لانے کی کوششوں میں مصروف تھیں۔ اچانک اس کی جیٹھانی زور زور سے چیخی۔ ارے اس کی عدت تو کل ختم ہو رہی ہے۔
بینا! تم نے صحیح سے تو حساب لگا یا تھا نا۔ بینا کی ساس نے تسبیح کے دانوں پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا۔
جی امی عدت آج ہی ختم ہو رہی ہے، میں نے حساب لگا کر آپ کو بھی بتا یا تھا۔ بیان گھبرا گئی۔
سب نے حساب لگا نا شروع کیا۔ تو معلوم ہوا کہ جیٹھانی کا اندازہ ٹھیک تھا عدت ختم ہو نے میں ایک دن باقی تھا۔

تو اس سے کیا فرق پڑتا ہے۔ نینا بولی۔
تمہیں معلوم ہے، قرآن میں کیا لکھا ہے اس بارے میں۔ ایک دن آگے پیچھے نہیں ہو نا چا ہیے کتنا سخت عذاب ہے معلوم ہے تمہیں۔

بینا اور اس کی لڑکیوں کو ان کا کچا چٹھا معلوم تھا، ان کے بارے میں جبران نے بتا یاتھا کہ وہ چائے کے تازہ پیکٹ بڑی احتیاط سے کھول کر سنبھال کر رکھ دیتیں، چائے کی استعمال شدہ پتی دھوپ میں سکھانے کے بعد وہ اسے چائے کے پیکٹوں میں ڈالتیں اور پیک کر کے اسی دکان دار( جس کے پاس سے ان کے ہاں مہینے بھر کا سودا آتا تھا) کو یہ کہلا کر بھجوا دیتیں، کہ انہوں نے یہ والی نہیں بلکہ دوسری والی چائے کی پتی منگوائی تھی۔ ان کے شوہر دواؤں کے محکمے میں تھے۔ وہ دفتر سے دوائیں چوری کر کے لاتے اور میڈیکل اسٹور میں بیچ دیتے۔
شیبا اور نینا جانتی تھیں کہ اگر انہیں آئینہ دکھا یا گیا تو یہ ہی جواب ہو گا کہ ایسا تو سب کرتے ہیں۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2