چشم دید گواہی: ’پاکستان کوارٹرز‘ والوں کے ساتھ کل کیا ہوا؟


ایم کیو ایم بہادر آباد کے عامر خان جب آئے انھیں دیکھ کر فاروق ستار ناراضگی کا اظہار کر کے دوسری جانب چل دیے۔ عامر خان نے کہا کہ ہم حکومت میں شامل ہیں تاہم پالیسی سازی میں نہیں لیکن اگر مکینوں کی بیدخلی کو ممکن بنایا گیا تو حکومت سے علیحدہ ہونے پر غور کیا جاسکتا ہے۔

خواجہ اظہار بھی کہتے نظر آئے کہ حکومت پچاس لاکھ گھر بنانے کی بات کر رہی ہیں لیکن ان لوگوں کو گھروں سے بیدخل کرنے کا جو طریقہ اختیار کیا گیا ہے وہ ناقابل قبول ہے۔ اسی دوران پاکستان تحریک انصاف کے خرم شیر زمان نے بھی دلاسہ دینے کی بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے کا موقع غنیمت جان کر دبنگ انٹری ماری۔ لیکن نئے پاکستان کے پرانے پاکستان کوارٹرز کے مشتعل مکینوں نے ایسا پتھراؤ کیا کہ گاڑی ریورس میں ساری اسپیڈ کو مات دے گئی۔

علاقہ مکینوں کا دعوی ہے کہ ان کے پاس کاغذ پورے ہیں کوئی یہاں قیام پاکستان سے تو کوئی چار سے پانچ دہائی سے یہاں بیٹھا ہے۔ کئی ایسی بیوائیں بھی ہیں جن کے شوہر کے بعد اب یہ کوارٹر ہی سر چھپانے کا آسرا ہے۔ یہاں کئی ایسی غیر شدہ ادھیڑ عمر خواتین بھی ہیں جن کے باپ کو نوکری کے عیوض یہ کوارڑ ملے اب والدین حیات نہیں اور وہ ان میں رہ رہی ہیں۔ لیکن دوسری جانب کئی ایسے بھی رہائشی ہیں جنھوں نے کم پیسوں میں یہ کوارٹرز خریدے اور ان پر مزید منزل تعمیر کر کے اس میں آبسے۔ کچھ کوارٹر خریدنے والوں نے انھیں آگے کرائے پر چڑھا دیا۔ اب کرائے دار کو فکر زیادہ نہیں وہ کبھی بھی خالی کر کے کوئی اور مکان لے لے گا۔ لیکن جنھوں نے گھر خریدے وہ اور جن سے خریدے وہ سرکاری افسران برابر کے قصور وار ضرور ہیں۔

ایسے رہائشی جو یہاں کے اصل مکین ہیں ان کا اپنی چھت چھوڑنا کسی قیامت سے کم نہیں۔ وسائل زیادہ نہیں اور مالی معاونت کی کوئی ضمانت نہیں ایسے میں وہ کہاں اور کیسے جائیں گے۔ دلچسپ بات یہ کہ اسٹیٹ آفس سب سے کرائے نہ صرف وصول کر رہی ہے۔ بلکہ خرید و فروخت ہونے والے گھروں کے معاملات سے بھی اچھی طرح واقف ہے۔ یہ سب ان کی ناک کے نیچے ان کی مرضی اور مشاورت سے ہوتا رہا لیکن اس وقت اسٹیٹ آفس خاموش رہا۔

علاقہ مکینوں کا کہنا ہے کہ حکومت ایک سروے کرائے او ر ان لوگوں کے خلاف قانونی کارروائی کرے جنھوں نے یہ سرکاری اراضی بیچی اور پیسہ کما کر سرکاری املاک کو نقصان پہنچایا لیکن ان لوگوں سے چھت نہ چھینے جن کے پاس اس گھر کے سوا کچھ نہیں۔ گیہوں کے ساتھ گھن کو پیسنے کی روش درست نہیں۔

اس سارے معاملات میں کل کئی سوالات نے جنم لیا جن کے جوابات ملنا بے حد ضروری ہے۔ مثال کے طور پر کل جب پاکستان کوارٹرز کو خالی کروانے کے لئے اسٹیٹ آفس کے اہلکاروں کے ساتھ پولیس کی بھاری نفری آئی تو ان کے پاس کوئی ایسی قانونی دستاویزات کیوں نہیں تھیں جو علاقہ مکینوں کو دکھائی جاتیں، صرف یہ کہنا کہ عدالت کا حکم ہے سمجھ سے باہر رہا دوسری جانب جب آپ کوئی بھی ایسا آپریشن کرنے کہیں بھی داخل ہوں تو تمام تر ایس او پیز کو ملحوظ خاطر رکھا جاتا ہے۔

صبح سے دوپہر تک کئی گھنٹے علاقہ میدان جنگ کا منظر پیش کرتا رہا، طاقت کا بے دریغ استعمال ہوا لیکن ایک بھی ایمبولینس پولیس کی نفری کے ساتھ دکھائی نہ دی۔ یہاں تک لاٹھی چارج سے زخمی ہونے والے اور آنسو گیس سے متاثر ہونے والے بچے اور خواتین کو بھی بروقت طبی امداد کے لئے اپنی مدد آپ کے تحت سب انتظام کرنا پڑا۔ ایک بھی ایمبولینس پاکستان کوارٹر میں پولیس کی موجودگی تک داخل نہ ہوسکی۔

گھروں کو خالی کروانا ہی مقصد تھا یا کوئی طاقت کا ٹریلر دکھانا تھا؟ وزیر اعلی سندھ کی جانب سے جب پولیس کو اس عمل سے باز رہنے کے آرڈرز آگئے تو بھی ایک گھنٹے تک آنسو گیس کی شیلنگ کیوں جاری رہی؟ سرکاری احکامات ہوا میں کیوں اڑا دیے گئے؟

پاکستان کوارٹرز جس حلقے میں ہے یہ این اے 245 ہے جہاں مقابلہ کل کے دوست آج کے حریف فاروق ستار اور ڈاکٹر عامر لیاقت حسین کے درمیان تھا اور جیت پاکستان تحریک انصاف کی ہوئی۔ حلقے سے جیت کا تاج سر پر سجانے سے قبل عامر لیاقت نے یہاں سے ووٹ لینے سے پہلے یہاں کے مکینوں سے بلند و بانگ دعوے اور وعدے کیے۔ یہاں تک کہا کہ اگر کوئی ان گھروں کو خالی کرانے یا مسمار کرنے آیا تو میں ان شیطانوں کے سامنے ڈٹ جاؤں گا۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں

سدرہ ڈار

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3

سدرہ ڈار

سدرہ ڈارنجی نیوز چینل میں بطور رپورٹر کام کر رہی ہیں، بلاگر اور کالم نگار ہیں ۔ ماحولیات، سماجی اور خواتین کے مسائل انکی رپورٹنگ کے اہم موضوعات ہیں۔ سیاسیات کی طالبہ ہیں جبکہ صحافت کے شعبے سے 2010 سے وابستہ ہیں۔ انھیں ٹوئیٹڑ پر فولو کریں @SidrahDar

sidra-dar has 82 posts and counting.See all posts by sidra-dar