زبان اور انسان


خدا تعالیٰ اس دنیا کے اس جہان فانی کے خالق و مالک ہیں۔ اسی نے دنیا تخلیق کی ہے۔ رب کائنات کی تخلیق کے شاہکار جابجا ہمیں اس کائنات میں نظر آتے ہیں۔ انسان حیوان چرند پرند سب اس مالک کی ہی تخلیق ہیں۔ اگر دیکھا جائے تو جانور اور انسان دونوں میں بہت سی باتیں قدر مشترک ہیں۔ دونوں ہی جنس رکھتے ہیں اہنے وقت پر کھاتے پیتے سوتے اور جاگتے ہیں۔ مگر ایک عضر جس نے انسانوں کو جانوروں سے الگ کرکے اشرف المخلوقات بنایا ہے وہ ہے زبان۔

خدا نے ہمیں جیسی نعمت سے نوازا تاکہ ہم اللہ تعالیٰ اور قرآن کے احکامات کو بنی نوع تک پہنچائیں۔ مگر افسوس صد ہزار افسوس جس مقصد کے لئے ہمیں پیدا کیا گیا تھا اس مقصد سے ہم ہٹ گئے ہیں۔ مگر دور حاضر میں ان اعضا کا استعمال صرف دوسرے لوگوں کی توہین اور دل آزاری کے لئے کیا جاتا ہے۔ اور خاص کر ان کی جو ہم سے کم تر ہیں یا وہ جنہیں حقیر جانا جاتا ہے۔

خطبہ حجۃ الوداع کے موقع پر نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے جس کا مفہوم کچھ یوں ہے۔
”کسی عربی کو عجمی پر اور کسی عجمی کو عربی پر کوئی فوقیت حاصل نہیں۔ اللہ کے نزدیک برتری کی بنیاد تقویٰ ہے۔ “

زبان کا مسئلہ اکثر دفاتر اور میڈیا ہاوسز میں دیکھنے میں آیا ہے۔ جہاں چھوٹی سی بات کو اتنا بڑھایا جاتا ہے جیسے یوں معلوم ہوتا ہے کہ بات بہت تھی مگر کچھ بھی نہ تھی۔ اعلیٰ عہدے داروں کا اپنے ماتحتوں کے ساتھ سلوک کسی طور بھی اخلاقی قدروں کی ضامن نہیں۔ ایک تو ماتحتوں کے ساتھ ناروا سلوک اور ساتھ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ جب ہم آپ کی جگہ تھے تو ہمارے ساتھ بھی یہی سلوک ہوتا تھا۔ اب اگر ہم سینیئر ہیں تو اپنی فرسٹیشن تو نکالیں گے ہی۔

اسی طرح دوسری مثال راہ چلتے گداگروں کی ہے۔ جنہیں بھی جواباً جھڑک دیا جاتا ہے۔ جس سے اس غریب کی بھی دل آزاری ہوتی ہے۔ اسی طرح ایسی بہت سی مثالیں ہیں جو جابجا ہمیں اس معاشرے میں نظر آتی ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ موضوع کی باریکی کو سمجھتے ہوئے سنجیدگی سے سوچا جائے کیونکہ ایک اور جگہ ارشاد ہے ”وہ شخص مومن نہیں جس کی زبان سے دوسرے محفوظ نہ رہ سکیں“ (مفہوم) ۔ تنقید برائے تنقید کے بجائے تنقید برائے اصلاح کی جائے اور سوچا جائے کہ اگر اس شخص کی جگہ آپ ہوتے تو کیسا محسوس کرتے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).