اچھے وقت کو خواہ مخواہ کے ٹویٹ لکھنے سے ضائع نہ کریں


کراچی میں چینی قونصل خانے پر دہشت گردوں کی جانب سے ہوئے حملے کو مناسب سرعت اور انتہائی پیشہ وارانہ انداز میں ناکام بنانے کے چندہی گھنٹوں بعد’’ذرائع‘‘ کی مہربانی سے ہمیں اس حملے کے مبینہ ماسٹر مائنڈ کا نام اور موجودہ جائے قیام بھی بتادئیے گئے تھے۔

بلوچ علیحدگی پسندوں کی ایک کالعدم تنظیم سے جڑے اس شخص کا نام اسلم ہے اور ذرائع کے مطابق وہ ان دنوں بھارتی دارالحکومت کے ایک ہسپتال میں زیرعلاج ہے۔ اپنی زندگی کے کئی برس خارجہ امور کے بارے میں رپورٹنگ میں صرف کرنے کی وجہ سے میں نے بڑے خلوص سے یہ امید باندھی کہ ہماری سرکار مذکورہ اطلاع کا کماحقہ استعمال کرے گی۔

خواہ مخواہ کا شور برپا کرنے کے بجائے اپنے پاس موجود معلومات کو سفارت کارانہ مہارت سے استعمال کرتے ہوئے چینی حکومت کے حوالے کرے گی۔

ہمارا دیرینہ دوست ہوتے ہوئے بھی چین نے دہشت گردوں کی فنڈنگ روکنے کے نام پر قائم ہوئی تنظیم FATFکے اجلاس میں ہمیں اسکی بنائی گرے لسٹ پر ڈالنے کی حمایت میں ووٹ دیا تھا۔ کراچی میں حملہ مگر اسی کے قونصل خانے پر ہوا۔ فوری وجہ اس کی یقینا CPEC کے تحت چلائے منصوبے تھے جنہیں پاکستان کو ترقی یافتہ صنعتی ملک بنانا ہے۔ بلوچستان کے گوادر کا اس ضمن میں کردار کلیدی ہے۔

چین۔بھارت تعلقات مخاصمانہ نہیں مگر بہت دوستانہ بھی نہیں ہیں۔ یہ حقیقت بلکہ عیاں ہوتی جارہی ہے کہ امریکہ، آسٹریلیا اور جاپان کے ساتھ مل کر بھارت کو ایشیاء میں چین کے متبادل عالمی اثر رکھنے والی قوت بنانے پر تلابیٹھا ہے۔ چین کو اس گیم کی ہم سے کہیں زیادہ سمجھ ہے۔

اس کے باوجودہ وہ بھارت کے ساتھ کسی نہ کسی نوعیت کے مشترکہ مفادات کی نشان دہی کو ترجیح دیتا ہے۔ ایرانی تیل کی برآمد پر لگائی امریکی پابندیوں کو ان دوممالک نے منظورنہیں کیا۔ ایران کے ساتھ اپنے تجارتی تعلقات برقراررکھنے کے حق کو بلکہ واشنگٹن سے بھی تسلیم کروایا۔

کراچی میں ہوئے حملے کے بعد مگر ہمیں چند شواہد کی مدد سے ایک بھرپور موقع ملا۔ اسے سفارتی مہارت سے استعمال کرتے ہوئے ہم چین کی مدد سے بھارت کو یہ باور کرواسکتے تھے کہ CPECمنصوبوں کی بروقت تکمیل صرف پاکستان اور چین ہی نہیں بلکہ پورے جنوبی ایشیاء میں کاروبار کے نئے امکانات کو جنم دے گی۔

یہ امکانات اس خطے میں دائمی امن کو یقینی بنانے میں بھی مدد گار ثابت ہوں گے۔ بھارت کو دیرپاامن کی خاطر اس منصوبے کے خلاف تخریبی کارروائیوں کی سرپرستی سے گریز کرنا ہوگا۔

میری توقعات کے عین برعکس مگر سوشل میڈیاپر ہمارے وزیر خارجہ جناب شاہ محمود قریشی صاحب کا ایک ٹویٹ نمودار ہوگیا۔ اس کے ذریعے بھارتی وزیر خارجہ کو دعوت دی گئی کہ وہ وزیر اعظم عمران خان کی جانب سے کرتارپور راہداری کی افتتاحی تقریب میں شرکت کریں۔

میں شاید گزرے وقتوں میں رائج سفارت کاری سے ہی آشنا ہوں۔ گئے دنوں میں رائج اصولوں کے مطابق سوشل میڈیا کے ذریعے بھارتی وزیر خارجہ کو ہمارے ہاں ہونے والی ایک تقریب میں شرکت کے لئے مدعو کرنے سے قبل نام نہاد بیک ڈور ڈپلومیسی کے ذریعے اس امر کو یقینی بنایا جاتا کہ دلی سے اس دعوت کا مثبت جواب آئے گا۔

ایسا مگر ہو نہیں پایا۔ ہفتے کی شام بھارتی وزیر خارجہ نے ایک سرکاری چٹھی ۔ ٹویٹ نہیں۔کے ذریعے 28نومبر کو ہونے والی تقریب میں عدیم الفرصتی کا عذر تراشتے ہوئے معذرت کا پیغام بھیجا ہے۔

اگست 2018میں حکومت سنبھالنے کے بعد سے عمران حکومت کو دوستانہ پیغامات کے جواب میں وصول ہوئی یہ پہلی معذرت نہیں ہے۔ اس سے قبل ہمارے وزیر اعظم نے اپنے بھارتی ہم منصب کو خط لکھ کر پیش کش کی تھی کہ ستمبر2018میں ہوئے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس کے دوران پاکستانی اور بھارتی وزیر خارجہ وقت نکال کر ایک خصوصی ملاقات کریں۔ اس ملاقات میں دونوں ممالک کے درمیان دیرپاامن کی خاطر بامقصد مذاکرات کا سلسلہ بحال کرنے کی راہ نکالی جائے۔

بھارت نے اس دعوت کا بھی پہلے ہاں اور پھر انتہائی بے ہودہ انداز میں ناں میں جواب دیا۔ عمران خان صاحب کی انا کو اس ناں سے بہت دُکھ ہوا۔ ایک ٹویٹ لکھ کر انہوں نے بڑے عہدوں پر ’’چھوٹے لوگوں‘‘ کے فائز ہوجانے کی حقیقت پر دکھ کا اظہار کیا۔ میرا اصرار ہے کہ اس واقعہ کے بعد ہمیں بھارتی وزیر خارجہ کو ایک اور دعوت دینے سے قبل سوبار سوچنا چاہیے تھا۔

میں سفارت کاری کے پیچیدہ ہنر کا ہرگز ماہر نہیں۔ دوٹکے کا رپورٹر ہوں۔ محض پیشہ وارانہ ذمہ داریوں کی وجہ سے 1984سے مگر بھارت جاتا رہا ہوں۔ 2005کے آخری ایام میں یہ سلسلہ رکا۔

انٹرنیٹ کی بدولت مگر اب بھی بھارت کی اندرونی سیاست پر کئی برسوں کے تجربے کی وجہ سے عادتاََ گہری نگاہ رکھنے پر مجبور ہوں۔ میری ناقص رائے میں بھارت کی مودی حکومت فی الوقت پاکستان سے تعلقات کو بہتر نہیں بلکہ تھوڑا نارمل بنانے کی جرأت دکھانے کی صلاحیت سے بھی محروم ہوچکی ہے۔

ہندوانتہاء پسندی کے جنون میں مبتلا نریندرمودی نے اپنی ’’56انچ کی چھاتی‘‘ پھلاتے ہوئے پاکستان کو سبق سکھانے کی بڑھکیں لگاتے ہوئے 2014ء میں اپنی جماعت کے لئے لوک سبھا میں پہلی بار تاریخی اکثریت حاصل کی تھی۔ وزیر اعظم منتخب ہونے کے بعد سے مگر وہ ہمیں کوئی سبق سکھا نہیں پایا ہے۔

پاکستان کو سبق سکھانے کے علاوہ مودی کا وعدہ یہ بھی تھاکہ وہ بھارتی اور غیر ملکی سیٹھوں کی مدد سے بھارت میں تابڑ توڑ سرمایہ کاری کے ذریعے معاشی رونق لگا دے گا۔ وہ یہ وعدہ نبھانے میں بھی ناکام رہا ہے۔

اس کی جانب سے کئے ’’نوٹ بندی‘‘ کے فیصلے نے اس کے دوست سیٹھوں کو بلکہ ناراض کر دیا ہے۔ کچھ مہینوں سے فرانس سے جدید طیارے خریدنے کے حوالے سے اس کے ساتھ ’’پانامہ‘‘ بھی ہو چکا ہے۔ کانگریس کا راہول گاندھی ’’چوکیدار‘‘ کو ’’چور‘‘ بن جانے کے طعنے دے رہا ہے اور بھارت میں عام انتخابا ت ہونے میں اب چند ہی ماہ باقی رہ گئے ہیں۔

مودی اور اس کی جماعت کو ہرانا اگرچہ اب بھی ممکن نظر نہیں آرہا ہے۔ ایک بات مگر عیاں ہے اور وہ یہ کہ مودی کو شاید وزیر اعظم کے منصب پر لوٹنے کے لئے کسی اور جماعت سے مل کر آئندہ انتخابات سے قبل یا ان کے نتائج آنے کے بعد مخلوط حکومت بنانا ہوگی۔

اس امکان کو روکنے کی خاطر وہ ایک بار پھر ہندوانتہا پسندی سے رجوع کرنے کو مجبور ہے۔ پاکستان سے نارمل ہوتے ہوئے تعلقات اس انتہا پسندی کو گوارہ نہیں۔ پاکستان کے لئے بہتر یہی ہے کہ مودی کو اس کے حال پر چھوڑدے۔ بھارتی انتخابات ہونے تک صبر سے کام لے۔ سوشل میڈیا کے ذریعے دعوتوں کے نام پر خود کو جنوبی ایشیاء میں امن کا واحد خواہاں ملک ثابت کرنے کی کوشش نہ کرے۔

ہمارے وزیراعظم اور وزیر خارجہ خوش نصیب ہیں۔ ان کا کوئی ’’سجن جندل‘‘ ہمارے وطن پرست میڈیا نے ابھی تک دریافت نہیں کیاہے۔ کلبھوشن یادیو کی کہانی بھی پرانی ہوچکی۔ اس حکومت کو ’’مودی کا یار‘‘ کہہ کر پکارنے کے لئے اپوزیشن کے پاس کوئی ٹھوس جواز موجود نہیں ہے۔

خوش نصیبی مگر موسموں کی طرح بالآخر جانے کے لئے آتی ہے۔ اپنے اچھے وقت کو خواہ مخواہ کے ٹویٹس لکھنے کے ذریعے ضائع نہ کریں۔

بشکریہ نوائے وقت


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).