وہ فرانسیسی لڑکی خود کش بمبار بننا چاہتی تھی


”تم مسلمان ہو؟“ اس نے میری آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر ذرا تیز سے لہجے میں پوچھا تھا۔
”مسلمان تو ہوں لیکن شراب بھی پیتا ہوں۔“ میں نے اپنے واڈکا کے گلاس میں تیرتے ہوئے چھوٹے چھوٹے برف کے ٹکڑوں کو گھورتے ہوئے جواب دیا۔

”I hate muslims very much۔ ۔ ۔ ۔ ۔ میں مسلمانوں سے نفرت کرتی ہوں، شدید نفرت۔“ اس نے نفرت سے ہی جواب دیا۔

”اوہ! یہ تو فیشن ہے آج کل۔“ میں نے ہنستے ہوئے کہا۔ ”ہر ایک مسلمانوں سے نفرت کرتا ہے۔“ میں نے واڈکا کا ایک تلخ گھونٹ اپنے حلق سے اُتارتے ہوئے بیرے کو اشارہ کیا۔ اس کے بکارڈی کا گلاس بھرنے کی ضرورت تھی، ”لیکن ہر مسلمان بن لادن یا فلسطینی نہیں ہے اور ہر ایک اپنے سروں پر بم باندھ کر نہیں گھوم رہا ہے۔“

”اوہ، مجھے فلسطینی پسند ہیں۔ I dont mind them۔ وہ بہت اچھے ہیں۔ ویری گڈ پیپل۔“

وہ مجھے پب میں مل گئی تھی۔ دبلا پتلا جسم، سرخ و سفید رنگت، ہلکے گھنگھریالے سے لمبے بال جو شانوں پر چھترائے ہوئے تھے اور بے انتہا پُرکشش آنکھوں پر بھاری بھاری پلکیں۔ ڈھیلے ڈھالے لباس میں اس کے چہرے پر کچھ اس طرح کی کشش تھی کہ دل بے اختیار ہوکر بات کرنا شروع کردے، میں نے بھی یہی کیا تھا اور بات شروع ہوتے ہی مجھے اندازہ ہوگیا کہ وہ فرانسیسی ہے۔ وہ مُنھ گول گول کرکے انگلش بول رہی تھی، مجھے بڑا اچھا لگا تھا۔ فرانسیسی جب انگلش بولتے ہیں تو ایسا لگتا ہے جیسے انگریز فارسی بول رہے ہوں۔

”مجھے فرنچ بہت اچھے لگتے ہیں۔“ میں نے مسکراتے ہوئے کہا۔
”ہر کوئی ہمیں پسند کرتا ہے، سوائے انگریزوں کے۔“ اس نے شوخی سے جواب دیا۔

بیرا بکارڈی سے بھرا ہوا نیا جام لے آیا جو اس نے شکریہ کہہ کر اپنے ہونٹوں سے لگالیا تھا۔ اس کی ذہین آنکھوں میں بلا کی چمک تھی۔
” الجزائریوں کے بارے میں تمہارا کیا خیال ہے۔ وہ تو فرانسیسیوں سے محبت نہیں کرتے ہوں گے۔ انگریزوں سے زیادہ نفرت ہے ان کو فرنچ لوگوں سے۔“ میں نے بھی ذرا چٹکی لی تھی۔
”ہاں وہ سب کچھ غلط تھا، بہت غلط۔“ اس کے سرخ و سفید چہرے پر جیسے ایک رنگ آیا اور آکر چلا گیا۔ وہ تھوڑی دیر کے لیے خاموش ہوگئی تھی۔

ہم لوگ لندن میں رسل اسکوائر پر لندن کے دو سو سال پرانے پب میں بیٹھے ہوئے تھے۔ یہ پب بھی عجیب قسم کا تھا۔ لمبا سا کمرہ اور دیوار کے ساتھ چھوٹی چھوٹی ٹیبلوں پر کرسیاں جمی ہوئیں۔ فرش پر لکڑی کا برادہ اور چھلی ہوئی لکڑی کا ڈھیر پھیلایا ہوا تھا۔ بظاہر گندہ نظرآنے والا پب اپنے اندر بڑی تاریخ لیے ہوئے تھا۔ میں اکثر و بیشتر یہاں شام کو آجایا کرتا تھا۔ کبھی اکیلا، کبھی دوستوں کے ساتھ یا کبھی لوریتا قسم کے لوگ مل جاتے جن سے دوستی بھی ہوجاتی تھی۔

آج بھی یہی ہوا، پب کچھ زیادہ ہی بھرا ہوا تھا اور وہ اُس میز پر اکیلی بیٹھی ہوئی بکارڈی کی ہلکی ہلکی چسکیاں لے رہی تھی۔ میں اس سے اجازت لے کر اس کے ساتھ ہی بیٹھ گیا تھا۔

اس نے پھر الجزائر کا قصہ سنانا شروع کردیا۔ ”اوہ، بڑا ظلم کیا ہے ہم فرانسیسیوں نے ان لوگوں پر۔ عام انسانوں کا قتل، خواتین کی آبروریزی، جائیدادوں، ملکیتوں کی بربادی اور قدرتی وسائل کا استحصال، فرانس نے بھی جہاں جہاں کالونیاں بنائیں وہاں وہاں سے لُوٹ لُوٹ کر فرانس لُوٹتے رہے۔ اپنی تجارتی منڈی بنا کر رکھا ان ممالک کو اور بدلے میں کیا دیا، ان کا جو بھی قبائلی، غیر تہذیب یافتہ اور روایتی نظام تھا، اس نظام کے حصّے بخرے کردیے۔ ان کی مقامی معیشت کو تباہ و برباد کردیا، اس سماج میں ایک ایسی نسل کھڑی کردی جس کے مفادات ہمیشہ کے لیے فرانس سے وابستہ ہوگئے ہیں۔ اب اگر فرانس وہاں سے نکل بھی گیا ہے تو بھی فرانس وہاں موجود ہے۔ بڑی خراب تاریخ ہے ہماری۔ بڑے بُرے لوگ ہیں ہم لوگ۔“ اس نے بڑے تاسف سے کہا تھا۔

”مگر یہ تو ہر کالونیل طاقت نے کیا ہے، فرانس نے، ہالینڈ نے، اٹلی نے، برطانیہ نے، اس زمانے کا تو نظام ہی یہی تھا، اس کو بُرا بھلا کہنے کی کیا ضرورت ہے۔ اس سے کون سے مسئلے حل ہوجائیں گے۔ ماضی تو محض ماضی ہے۔ تاریخ دانوں کے لیے ایک چراگاہ جہاں وہ اپنی مرضی سے گھاس چرتے ہیں اور بعض تاریخ دان تو گھاس بھی اپنی مرضی کی ہی اُگا دیتے ہیں۔“ میں نے اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دھیرے سے کہا تھا۔

وہ ہنس دی تھی اور جب ہنسی تو ایسا لگا جیسے پورے پب میں رنگا رنگ قمقمے جلنے بجھنے لگ گئے ہیں۔ یکایک جیسے روشنی سی ہوگئی ہے اس کے فرانسیسی چہرے پر ایک خاص قسم کی رونق تھی وہ مجھے غور سے دیکھتے ہوئے گول گول مُنھ بنا کربولی۔ ”بہت دلچسپ باتیں کرتے ہو، آئی لائک اٹ۔ مگر اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ماضی کو بھول جایا جائے، جب ہم ماضی کو بھولتے ہیں تو وہ سب کچھ ہوتا ہے جوآج ہورہا ہے، دیکھ رہے ہو کیا ہورہا ہے، ہمارے چاروں طرف، تشدد، انسانی حقوق کی پامالی، عورتوں اور اقلیتوں پر ظلم و جبر اور انصاف سے خالی یہ دنیا۔ عجب سی دنیا، میرے خیال میں اس قسم کی دنیا کبھی بھی نہیں رہی ہے۔ انسان کی تاریخ میں اس قسم کا لمحہ شاید کبھی بھی نہیں آیا ہے انسان اتنا ظالم شاید کبھی بھی نہیں رہا ہے۔ اتنا بے تہذیب اور اتنا ظالم“ ۔

”کیا میں پھر اختلاف کرسکتا ہوں۔“ میں نے اسے غور سے دیکھتے ہوئے چھیڑنے کے سے انداز میں کہا۔
اس نے میرے خالی گلاس کودیکھتے ہوئے بیرے کو اشارہ کیا، ”واڈکا کہ سمرانوف، یہ دور میری طرف سے ہوجائے۔“
بیرے نے اسے بکارڈی اور مجھے واڈکا کے نئے جام لاکر دیے تھے۔

اس سے پہلے کہ وہ کچھ اور کہتی میں نے بولنا شروع کردیا۔ ”آج کل نا انصافیاں ضرور ہیں مگر قتل عام کا ایسا نظام نہیں ہے کہ انسانوں کے سروں کا مینار بنا کر کھڑا کردیا جائے آج کل کے ظالم تھوڑا ڈرتے بھی ہیں۔ انسان ذاتی غلامی کا طوق اپنی گردن سے نکال کر باہر پھینک چکا ہے۔ عیسیٰ ؑ سے پہلے کی جنگوں میں اور عیسیٰ ؑکے بعد کی جنگوں میں انسانوں کو جس طرح سے مارا گیا اس کی مثالیں اب کہاں ملتی ہیں۔ مصریوں، یونانیوں نے، زرتشت کے ماننے والوں نے، موسیٰ ؑکے پیروکاروں نے، مسلمانوں نے، منگولوں نے، مغلوں نے یا صلیبی جنگ لڑنے والوں نے ہر ایک نے اپنے بلندو بانگ انسانی دعوؤں کی بنیاد پر جنگیں لڑیں اورایسی لڑیں کہ نسلوں کی نسلیں تباہ کردیں۔ آج تو ایسا نہیں ہے۔ انسان آزاد ہے غلامی سے، اسے ذاتی رائے کی آزادی ہے، ایک دوسرے سے اختلاف کی آزادی ہے، دنیا بدل گئی ہے میڈم بہت بدل گئی ہے۔“

وہ ہنس دی دوبارہ مگر تعجب کے ساتھ۔ پھر آہستہ آہستہ بولی۔ ”نہیں اتنی بھی نہیں بدلی ہے، غلامی کی صورتیں بدل گئی ہیں۔ اب ہم سب غلام ہیں، بینکوں کے غلام، اپنے اپنے کریڈٹ کارڈ کے غلام، بڑے بڑے ڈپارٹمنٹل اسٹوروں کے غلام، اپنے قومی مفادات کے غلام اور سب کچھ کرڈالتے ہیں اس غلامی میں بغیر کسی خوف اور شرم کے، بغیر کسی ہچکچاہٹ اور تامل کے اور اسے نئے نئے رنگ دے دیتے ہیں۔ زرتشت کے ماننے والوں نے انسانیت کے لیے جنگ نہیں لڑی تھی، اقتدار کی جنگ تھی وہ اور یہی کہہ کر لڑی گئی، چنگیز خان بھی دولت اور طاقت کے حصول کے لیے مخالفوں کے سروں کی دیوار چنتا رہا اور اپنی جنگوں کو انسانیت کا نام نہیں دیا اس نے۔ صلیبی جنگیں مذہبی جنگیں تھیں اور یہی کہہ کر لڑی گئیں۔ آج کل تو جنگ لڑی جاتی ہے اور اسے خوبصورت نام دے دیے جاتے ہیں۔ انسانوں کو قتل کیا جاتا ہے تو مخصوص نعرے دے دیے جاتے ہیں۔ نہیں مسٹر، اتنا بُرا نہیں تھا پہلے۔“

”میرا نام رشید ہے، میں لندن میں ہی رہتا ہوں، پاکستان سے آیا تھا کہ پڑھ لکھ کر چلاجاؤں گا مگر کمانے میں لگ گیا تو اب کمارہا ہوں اور یہاں کا ہی ہوکر رہ گیا ہوں۔“ میں نے اسے اپنا نام بتایا اور اپنا تعارف بھی کرادیا تھا۔

”میرا نام لوریتا ہے ہاں تو میں کہہ رہی تھی سینور رشید کہ ابھی کچھ ہی دنوں کی بات ہے کہ افریقہ میں ہوٹو لوگوں نے اپنے جیسے ہی افریقیوں کو خون کے دریا میں ڈبودیا۔ سربوں نے بوسنیائیوں کو چن چن کر زندہ زمین میں گاڑ دیا، ابھی کل ہی کی بات ہے کہ انڈونیشین لوگوں نے اپنے ہی جزیرے تیمور میں رہنے والوں کے گلوں پر چھریاں چلادیں۔ اور فلسطین میں جو کچھ ہورہا ہے وہ تو تم کو پتہ ہی ہوگا۔ ایک پوری قوم کو زندہ درگور کرکے رکھ دیا ہے اسرائیلیوں نے اور تم تو ہو ہی پاکستانی۔ کیا ہورہا ہے کشمیر اور افغانستان میں لوگ مررہے ہیں اور بے تحاشا، بے موت مایوسی کی موت۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کہاں ہے انصاف؟ انصاف ایک خیالی پرندہ ہے جو آسمانوں کی بلندیوں پر پرواز کررہا ہے اور کبھی بھی زمین پر نہیں اُترے گا اور غریب لوگ، غریب قومیں، سسک سسک کر اپنے بچوں، عورتوں، ماؤں، بہنوں، بیٹوں کی لاشوں پر دردناک نوحے گاتی رہیں گی۔ یہی پہلے ہوتا تھا یہی اب بھی ہورہا ہے۔“ اس نے لمبی چوڑی تقریر کرڈالی۔

میرا نہیں خیال تھا کہ اتنی خوبصورت لڑکی اپنی صراحی دار گردن کے اوپر رکھے ہوئے گھنے بالوں سے ڈھکے ہوئے سر میں یہ سب کچھ بھرے بیٹھی ہے، اس کی بڑی بڑی غزالی آنکھیں ڈسکو کی روشنی سے چکاچوند نہیں ہوئی ہیں بلکہ دنیا کے حالات کو اس باریک بینی سے دیکھتی رہی ہیں۔ میں اس سے مرعوب ہوگیا تھا۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں

ڈاکٹر شیر شاہ سید
Latest posts by ڈاکٹر شیر شاہ سید (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2