امریکی وزیر دفاع جیمز میٹس نے اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا


جیمز میٹس

امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اعلان کیا ہے کہ وزیر دفاع جیمز میٹس آئندہ سال فروری کے آخر میں ’اعزاز کے ساتھ‘ ریٹائر ہو جائیں گے۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے ٹویٹ کی کہ جیمز میٹس نے ’اتحادیوں اور دوسرے ممالک کو فوجی ذمہ داریوں کا حصہ ادا کرنے میں میری بہت مدد کی تھی۔‘ امریکی صدر نے جیمز میٹس کے جانشنین کا نام نہیں لیا تاہم ان کا کہنا تھا کہ نئے وزیر دفاع کا اعلان جلد کر دیا جائے گا۔

امریکی وزیر دفاع کا عہدہ چھوڑنے کا اعلان ٹرمپ کی جانب سے شام سے امریکی افواج کی واپسی کے ایک روز بعد سامنے آیا ہے۔ اپنے استعفے میں جیمز میٹس نے ’اتحادیوں کے احترام کے بارے میں اپنے خیالات کو بیان کیا‘ اور ’عام دفاع کی فراہی کے لیے امریکی طاقت کے تمام وسائل کو استعال کرنے کا ذکر کیا۔‘ جیمز میٹس نے لکھا ’آپ کو ہم خیال سیکریٹری دفاع رکھنے کا حق حاصل ہے،میرے لیے بہتر ہے کہ میں عہدے سے الگ ہو جاؤں۔‘

خیال رہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک دن پہلے ہی شام سے امریکی افواج کی واپسی کا اعلان کیا تھا۔

امریکی فوج

صدر ٹرمپ کے شام سے امریکی فوج واپس بلانے کے فیصلے پر امریکی سینیٹرز کے علاوہ اس کے اتحادی ممالک کی جانب سے بھی تحفظات کا اظہار کیا تھا۔ امریکی صدر کی جماعت ریپبلکن پارٹی کے اہم سینیٹرز نے اس فیصلے پر کھل کر تنقید کی اور اسے ایک بری اور بڑی غلطی اور ایران اور روس کی فتح قرار دیا۔ برطانیہ نے بھی صدر ٹرمپ کے ان اندازوں پر سوال اٹھائے ہیں جن کے مطابق ان کے خیال میں دولتِ اسلامیہ کے شدت پسندوں کو شکست ہو چکی ہے۔ صدر ٹرمپ کے اس فیصلے کو امریکہ میں حزبِ مخالف اور خود ان کی اپنی جماعت کے سینیٹرز کی جانب سے شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔

رپبلکن سینیٹر لنڈسی گراہم جو کہ آرمڈ سروسز کمیٹی کی رکن بھی ہیں، کہتی ہیں کہ یہ اقدام ‘اوباما جیسی غلطی ہے’۔ انھوں نے کہا کہ یہ ایران اور روس کی بڑی فتح ہے۔ سینیٹ کی فارن سروسز کمیٹی کے سربراہ باب کروکر نے اسے برا فیصلہ قرار دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ ریپبلکن سینیٹرز کو صدر ٹرمپ کے اس فیصلے سے افسوس ہوا اور دھچکا پہنچا کہ وہ اپنے کرد اور عرب اتحادیوں کو صدر اسد اور ترکی کے رحم و کرم پر چھوڑ دیں گے۔ سابق صدارتی امیدوار سینیٹر مارکو روبیو نے اس فیصلے کو ایک ایسی بڑی غلطی قرار دیا جس کے سنگین نتائج برآمد ہوں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ دولتِ اسلامیہ کو شکست نہیں ہوئی ہے۔

دولتِ اسلامیہ نے چار برس قبل شام کے بڑے علاقے میں اپنا اثرونفوذ قائم کر لیا تھا اور امریکی افواج کے شامی کردوں اور عرب جنگجوؤں کے ساتھ مل کر کام کرنے سے شمالی علاقے سے تقریباً دولتِ اسلامیہ کا صفایا ہو گیا ہے۔

تاہم اب بھی شدت پسند کچھ مقامات پر موجود ہیں۔ ایک حالیہ امریکی رپورٹ کے مطابق شام میں اس وقت دولتِ اسلامیہ کے تقریباً 14 ہزار شدت پسند ہیں جبکہ ہمسایہ ملک عراق میں یہ تعداد کہیں زیادہ ہے اور یہ خدشہ ہے کہ وہ اپنا نیٹ ورک دوبارہ بنانے کے لیے گوریلا جنگ کا سہارا لے سکتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32502 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp