افغان لڑکی جو امریکہ میں محفوظ تھی


جہاز اُڑتا رہا اور وہ بہت دیر تک ماحول کی آلودگی سے متعلق سوال کرتی رہی۔ مجھے اندازہ ہوگیا کہ وہ کافی سمجھدار اور پڑھی لکھی لڑکی ہے۔ سچ بات تو یہ کہ میں اس کی معلومات کا معترف بھی ہوگیا اور اس سے متاثر بھی۔

وہ سوال کرتی رہی، میں جواب دیتا رہا۔ ماحول اور اُس کی آلودگی سے بات شروع ہوکر اسلام آباد کی زندگی، پاکستان کی سیاست، فوجیوں کی سیاسی معاملات میں دخل اندازی، پاکستان ہندوستان کے تعلقات اور افغانستان کے حالات تک پہنچ گئی تھی۔

اس نے مجھے بتایا کہ وہ نیویارک کے ایک فرم کے کوالٹی کنٹرول کے شعبہ میں کام کرتی ہے اور اسی فرم کی ایک برانچ ہیوسٹن میں ہے جہاں ان کے کام کو دیکھنے گئی تھی اور اب گھر واپس جارہی ہے۔

بہت دلکش شخصیت کی مالک تھی وہ۔ اسے بہت خوبصورت بھی کہا جاسکتا تھا۔ اگر وہ مجھے نہیں بتاتی تو میں اسے امریکن ہی سمجھتا رہتا۔ میں نے سوچا کہ حسن و جمال کے ساتھ قدرت نے اسے ذہانت بھی دی ہے۔ اگر ذہین نہ ہوتی تو امریکہ میں بہت سے قابل لوگوں کے درمیان اس طرح جگہ بنا کر کسی ایگزیکٹیو پوسٹ پر کام نہیں کرسکتی تھی۔ فرسٹ کلاس میں عام امریکن سفر نہیں کرتا ہے۔ یا تو بہت مالدار ہوتا ہے یا کسی ایگزیکٹیو پوسٹ پر ملازم ہوتا ہے۔ عجیب بات تھی کہ اس نے مجھ سے دنیا جہان کے سوالات کرڈالے مگر مجھے موقع ہی نہیں دیا کہ میں بھی اس سے کچھ سوال کرتا، یہ خیال آتے ہی میں فوراً ہی پوچھ بیٹھا کہ آپ افغانستان سے کب آئیں؟

شاید وہ اس سوال کی اُمید ہی کررہی تھی پھر بھی میں نے اس کے سرخ و سفید چہرے پر رنگ کو آہستہ سے بدلتے ہوئے دیکھا۔ وہ آہستہ سے ہی بولی تھی، ”لمبی کہانی ہے تیمور صاحب۔ نہ آپ کے پاس سننے کا وقت ہے اورنہ ہی مجھ میں ہمّت ہے۔ یہ تو انسانوں کی آلودگی کی کہانی ہے، آپ آسمانوں، ہواؤں، زمینوں، سمندروں، فضاؤں کی آلودگی کے ماہر ہیں“ اس نے ایک اُداس سی مسکراہٹ کے ساتھ کہا تھا۔

اسی وقت جہاز نے آہستہ سے لاگارڈیا کے ایئرپورٹ کو چوما۔ بات اس کی صحیح تھی وقت تو گزر چکا تھا۔ اب میں لاگارڈیا سے ہوٹل چلا جاؤں گا اور وہ اپنے گھر، پھر کون کہاں ہوگا کس کو خبر۔

میں سوچ ہی رہا تھا کہ وہ پھر دھیرے سے بولی، ”آپ کے ملک پاکستان نے مجھے دربدر کردیا کہ آج میں نیویارک میں ہوں۔ وطن، اپنے گھر، اپنے لوگوں اپنے پیاروں سے دور۔ آپ کو سنانے کا فائدہ بھی کیا ہے آپ اس آلودگی کے ماہر نہیں ہیں جو آلودگی میرے ملک میں آپ لوگوں کی وجہ سے ہوئی۔ افغانستان کا انسانی ماحول تباہ و برباد ہوگیا۔ محبت کرنے والوں کے دلوں میں نفرت بھرگئی، انسان انسان نہیں رہا، جانور بن گئے، سب لوگ، ایسی پستی کا کس نے سوچا تھا“ اس نے پھر ہنسنے کی کوشش کرتے ہوئے اپنی آنکھوں میں اُبھرتی ہوئی نفرت کو جیسے دبایا تھا۔

مجھ سے کچھ کہا نہیں گیا، جہاز رُک چکا تھا سیٹ بیلٹ کے کُھلنے کی آوازیں اُبھر رہی تھیں اور لوگ اُٹھ کھڑے ہوئے تھے۔ میں نے اپنے کوٹ کی جیب سے اپنا کارڈ نکال کر اسے دیا۔ ”یہ میرا کارڈ ہے، گھر اور موبائل کا نمبر۔ کبھی بھی اسلام آباد میں کوئی کام ہو یا آپ اسلام آباد آؤ تو میرا گھر حاضر ہوگا۔ پاک صاف ستھرا ماحول ہر طرح کی آلودگی سے محفوظ آپ کے لیے۔ آپ کے شوہر اور گھر والوں کے لیے، یقین کرو میرے گھر میں تمہارے لیے کچھ بھی آلودہ نہیں ہوگا۔ میں نے بڑی انکساری اور شاید تھوڑا معذرت کے انداز میں کہا تھا۔ ساتھ ہی ہم دونوں اُٹھ کھڑے ہوئے تھے۔

ایئرپورٹ کے باہر مجھے کوئی لینے نہیں آیا۔ میں سوچ ہی رہا تھا کہ لوکل منتظم کے آفس فون کرکے ہوٹل کا پتہ کروں کیونکہ نیویارک سے آنے والا دعوت نامہ میں غلطی سے ہیوسٹن میں ہی چھوڑ کر آگیا تھا جس پر ہوٹل کا نام اور پتہ درج تھا لیکن اس وقت شام کے چھ بجے کون ہوگا آفس میں، یہ سوچتا ہوا میں فون کی طرف بڑھا ہی تھا کہ ثریا مجھے اپنی طرف آتی نظر آئی۔

”گاڑی نہیں آئی آپ کی؟“ اس نے مسکراتے ہوئے مجھ سے کہا۔ ذرا سارُکی پھر فوراً ہی بولی ”آپ ایسا کریں کہ میرے گھر چلیں یہاں سے بیس منٹ کی ڈرائیو پر نیوجرسی میں گھر ہے میرا۔ وہاں سے ہی فون وغیرہ کرلیجیے گا۔ اگر کوئی مل گیا تو رات کا کھانا کھاکر میں خود آپ کو چھوڑدوں گی اور اگر نہیں ملا تو رات میرے گھر رُک جائیے گا۔ میرا آفس بھی نیویارک میں ہے میں آپ کو کانفرنس سینٹر پہنچادوں گی، کیا خیال ہے۔“ پھر ہنستے ہوئے بڑے انداز سے اس نے کہا کہ میرے گھر میں آلودگی نہیں ہے ڈاکٹر صاحب، آپ ہی کے گھر کی طرح۔

میں نے مزید کچھ سوچنا اور کہنا مناسب نہیں سمجھا اور اس کے ساتھ پارکنگ کی طرف روانہ ہوگیا تھا۔ لاگارڈیا ایئرپورٹ کے پارکنگ لاٹ میں اس کی ہلکے نیلے رنگ کی ٹویوٹا کیمری کھڑی تھی۔ پیچھے بوٹ میں ہم نے اپنا سامان رکھا اور اس نے ڈرائیونگ سیٹ سنبھال لی۔

نیوجرسی بھی کیا خوبصورت جگہ ہے، ہر ے بھرے اونچے اونچے درخت، خوبصورتی سے کٹے ہوئے سنوارے ہوئے گھاس کے لان، باضابطہ بنے ہوئے مکانات، ایسا لگتا ہے جیسے آپ کسی خوبصورت کیلنڈر کے کسی صفحے پر سفر کررہے ہیں، ہر قدم پر نیا مہینہ۔ ہیوسٹن کے مقابلے میں یہاں بہت زیادہ سبزہ تھا اور موسم بھی بہت ہی اچھا۔ ہلکی ہلکی بارش نے نیوجرسی کی خوبصورتی میں مزید اضافہ کردیا تھا۔ وہ مجھے راستے میں لگے ہوئے خوبصورت پیڑوں، جھاڑیوں، سڑکوں اور علاقے کے بارے میں بتاتی رہی۔

”میں ہائی وے سے لے کر نہیں جارہی ہوں آپ کو۔ ہائی وے سے تو کچھ پتہ ہی نہیں لگتا ہے، اس سے جلدی تو پہنچ سکتے ہیں مگر سفر کرنے کے باوجود ایسا لگتا ہے جیسے فاصلہ نہیں کٹ سکا، یہ چھوٹی سڑکیں گھومتی لہراتی ہوئی میدانوں جنگلوں کے درمیان سے گزرتی ہوئی مجھے اچھی لگتی ہیں اور یہ بھی لگتا ہے کہ کچھ سفر بھی ہوا۔“

تھوڑی دیر میں اس کا مکان آگیا۔ خوبصورت سا گھر درختوں میں گھرا ہوا، ایک چھوٹی سڑک کے آخر میں۔ فاصلے فاصلے سے چھ سات مکان ایک آدھے دائرے کی شکل میں بنے ہوئے تھے۔ گاڑی میں بیٹھے بیٹھے ہی اس نے بٹن دبا کر گیراج کا شٹر کھولا اور گاڑی ایک بڑے سے دالان نما گیراج میں داخل ہوگئی۔ وہاں ایک اور گاڑی بھی کھڑی تھی۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں

ڈاکٹر شیر شاہ سید
Latest posts by ڈاکٹر شیر شاہ سید (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3 4