افغان لڑکی جو امریکہ میں محفوظ تھی


انہوں نے بڑی حیرانی سے مجھے دیکھا، پھر بتانے لگیں کہ مزار شریف دراصل حضرت علیؓ کے مزار کی موجودگی کی بناء پر مزار شریف کہلاتا ہے اور یہ شہر تو ہر ایک کا شہر تھا، سنی، شیعہ، یہودی، پارسی، ہندو اور ہر طرح کے لوگ رہتے تھے وہاں پر، اور وہاں کا جشن نوروز، اس کی تقریبات سینکڑوں سالوں سے ہورہی ہیں۔ ہمارا سارا بچپن وہیں گزرا ہے۔ میں تمہیں جشن نوروز کے بارے میں بتاتی ہوں۔ انہوں نے بڑے ایکسائٹمنٹ کے ساتھ کہا تھا۔

نوروز دراصل سال نو کا آغاز ہے۔ 21 مارچ سے چالیس دن تک اس کی تقریبات ہوتی ہیں جس میں چھ دفعہ چہارشنبہ آتا ہے اور سات قسم کے کھانے جو حرف سین سے شروع ہوتے ہیں پکائے جاتے ہیں۔ سات قسم کے پھل لائے جاتے ہیں، کھائے جاتے ہیں اور چھوٹا بڑا مرد، عورت، بوڑھا، جوان ہر کوئی مزار شریف پر حاضری دیتا ہے۔ ان چالیس دنوں کے ہر ہفتے میں دو دن صرف عورتیں اور ایک دن صرف مرد آتے ہیں اور باقی دنوں میں سب مل جل کر آتے ہیں۔ خوشیاں مناتے ہیں۔ جشن کا سا سماں ہوتا ہے، وہاں لوگ نئے کپڑے، نئے زیور پہن کر بڑے انداز سے آتے ہیں۔ سارا سال تیاری ہوتی ہے نوروز کا جشن منانے کی۔ گل لالہ کے جشن کا بھی آغاز اسی وقت ہوتا ہے، ہر کوئی رقص کرتا ہے، فارسی لوک گانوں کی دھنوں پر۔

باک بربا مزار مُلّا دلبر جان
سیرِ گلِ لالہ زار ملا دلبر جان

مگر یہ سب کچھ ختم ہوگیا طالبان نے ختم کردیا، مزار شریف کی سڑکوں، گلیوں میں چُن چُن کر شیعوں کو مارڈالا گیا۔ کالے حجاب پر پابندی لگادی گئی، لڑکیوں کے اسکول کالج بند کردیے گئے، سینماگھروں ریسٹورانوں کو ختم کردیا گیا، نوروز پر پابندی لگادی گئی، صوبہ بلخ میں پہلے بھی بہت کچھ ہوا ہے مگر اس دفعہ تاریخ تمدن، ثقافت، تہذیب علم و ہنر کا جس طرح سے خاتمہ کیا گیا اس کی شاید مثال کبھی بھی نہ ملے۔ طالبان کو نہ جانے آپ لوگوں نے کیا پڑھایا تھا، کیا تعلیم دی تھی پتہ نہیں اسلام کے نام پر کیا پڑھادیا مگر انسان سے محبت نہیں سکھائی ان لوگوں کو۔ برباد ہوگئے ہم لوگ مکمل طور پر برباد۔ یہ کہہ کرثریا کی ماں خاموش ہوگئی تھی۔

مجھے پتہ تھا کہ افغانستان میں بڑی بربادی ہوئی ہے مگر بربادی سے متاثر ہونے والے کسی خاندان سے میں پہلی دفعہ ملا تھا، وہ بھی پاکستان اور افغانستان سے دور بہت، بہت دور حادثاتی طور پر امریکہ میں۔ میں نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ عام افغانی، پاکستان اور پاکستانیوں کے بارے میں کیا سوچتے ہوں گے یا سوچتے ہیں۔

مجھے ایسا لگا جیسے بہ حیثیت پاکستانی میں کسی کٹہرے میں کھڑا کردیا گیا ہوں۔ میں سوچ ہی رہا تھا کہ ثریا نے اپنے بارے میں بتانا شروع کردیا۔ ”میں اپنے شوہر کے ساتھ باغ بلا میں رہتی تھی یہ ہوٹل انٹرکون کے ساتھ بہت اچھا سا علاقہ ہے۔ حالات خراب ہوتے ہی میرے شوہر نے مجھے مزار شریف بھیج دیا کہ بعد میں وہ میرے پاس آجائے گا۔ میں اپنی بچّیوں کے ساتھ اپنی نانی کے گھراپنی ماں کے پاس ہی پہنچ گئی تھی مگر بہت جلد طالبان نے مزار شریف پر بھی قبضہ کرلیا اور ساتھ ہی مجھے خبر ملی کہ میرے شوہر کی لاش انٹرکون ہوٹل کے سامنے ملی ہے، خبر کے ساتھ ہی دنیا اُجڑ گئی تھی میری۔ دو چھوٹی چھوٹی بچّیاں، گھر سے باہر نکلنے پر پابندی، سر سے پاؤں تک ایسا پردہ کہ پہن کر الجھن ہوتی تھی، میرا تو جیسے مستقبل کسی اندھیرے میں کھوگیا تھا۔ ایک ایسا کنواں جو صرف گہرا ہی گہرا ہے۔“

”کچھ مہینوں کے بعد میں اپنی بچّیوں سمیت اپنے سسرال آگئی تھی جہاں دو مہینے ہی گزرے تھے کہ میرے سسر نے فیصلہ کیا کہ وہ میری شادی اپنے دوسرے بیٹے سے کردیں گے جو مجھے بالکل بھی قابل قبول نہیں تھا۔ میرے شوہر کا چھوٹا بھائی ایک اچھا آدمی تھا، اچھا آدمی ہوگا مگر میں اسے اپنے شوہر کی جگہ نہیں دے سکتی تھی۔ میری زندگی محض دوسروں کے فیصلوں پر نہیں گزر سکتی تھی۔ میرے بھی کچھ خواب تھے۔ میری بھی کوئی منزل تھی۔ میں نے بھی کچھ سوچا تھا۔

مجھے اپنے دیور سے شادی منظور نہیں تھی۔ ایک دن میں اپنے ماں کے گھر جانے کے بہانے وہاں سے نکل کھڑی ہوئی اور اپنی دونوں بچّیوں کے ساتھ صبح سے شام تک کا سفر کرکے جلال آباد کے راستے پشاور پہنچ گئی تھی۔ جہاں دو دن اپنے ایک والد کے رشتہ دار کے پاس رہ کر اسلام آباد آگئی اور امریکن ایمبیسی میں امریکہ کے ویزا کے لیے درخواست دی تھی۔ میری ماں کو میرے ماموں کی وجہ سے ویزا مل گیا جو پہلے ہی سے واشنگٹن میں تھے اور مجھے بھی شاید میری ماں کی وجہ سے ویزا مل گیا۔

پھر ہم سب لوگ امریکہ آگئے تھے میں نے یہاں کا امتحان پاس کیا اور اب میں یہاں نوکری کررہی ہوں۔ طالبان سے اپنے سسرال سے دور دیارِ غیر میں۔ میں حجاب پہنتی ہوں اور نہ ہی گھر کے بند اندھیرے کمروں میں بند ہوں، آزاد ہوں مکمل طور پر آزاد۔ اپنی خود مالک، اپنے وجود کو بچائے ہوئے، کوئی مجھے مار نہیں سکتا ہے۔ شیعہ یا سنی ہونے کی بناء پر یا علی کے شرائن پر ڈانس کرنے پر۔ افغانستان میں بہت آلودگی ہے ڈاکٹر صاحب، دم گھٹتا تھا وہاں پر۔ ماحول میں زہر ہے زہر۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مرکری، آرسنک، لیڈ اور کاربن مونو آکسائڈ سے بھی زیادہ۔ “

میں نے اس کی طرف غور سے دیکھا اس کی آنکھوں میں چمک تھی اور چہرے پر رونق۔ میں نے سوچا کہ کاش دلوں کے درمیان جو آلودگی ہے اس کو ختم کرنے کے لیے بھی کوئی قانون بنتا، کوئی کانفرنس سیمینار، مذاکرہ، سمپوزیم ہوسکتا، کچھ ایسا ہوتا کہ یہ آلودگی دُھل جاتی، بہہ جاتی۔ دماغوں دلوں سے نکل کر ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ختم ہوجاتی۔ یہ آلودگی تو بڑی زہریلی ہے، زندگی کے ساتھ سب کچھ ختم کردے گی۔

ڈاکٹر شیر شاہ سید
Latest posts by ڈاکٹر شیر شاہ سید (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3 4