مہک کی مہک


یہ خوشبو، یہ مہک، گلاب کی کلی کی صبح سویرے، شبنم کے موتیوں سے بوجھل، پنکھڑیوں کے چٹکنے اور تڑخنے سے پیداہونے والی، چمن کی پہلی خوشبو کی لہر کی مانند ہوتی ہے جو پورے گلستان میں، آنِ واحد میں مشکِ نافہ کی مانند پھیل جاتی ہے۔ اور اس کلی سے سانس کشید کرنے والے یابادِبہاری پر سواری کرکے، جہاں جہاں اس خوشبوکے جھونکے پہنچتے ہیں، وہاں ایک سرشاری ہوتی ہے۔ ہر چیز پر خماری ہوتی ہے۔ ہر زندہ چیز خواہ، چرندپرند، نباتات و جمادات یا حیوان و انسان، سب پر ایک سرورکی کیفیت طاری ہوتی ہے۔ پورا جنگل اس سے کسی نہ کسی طور متاثر ضرورہوتاہے۔ ہاں کچھ پر ”پاگل پن“ اور کچھ پر ”سودا“ آجاتاہے۔

بالکل اس طرح جس طرح کئی کلو ٹن ایٹمی دھماکہ ہونے پر اس کی شاک ویوز (Shock Waves) نینوسکینڈ (Neno Second) سے بھی کم عرصہ میں، اوپر نیچے اور دائیں بائیں، آگے پیچھے، پھیل جاتی ہیں اور آنِ واحد میں سب کچھ خاکستر ہوجاتا ہے۔ اور ہر ذی روح صدیوں تک نسل در نسل اس کے اثرات سے متاثر ہوتا رہتاہے۔ اسی طرح کنوارے ”ِپنڈے“ کی خوشبو، سب کو پاگل کردیتی ہے۔ اور پھراس پاگل پن اورسوداکے اثرات، نسل در نسل منتقل ہوتے رہتے ہیں۔

چھٹکارانہیں ملتا اس سے، کچھ آنِ واحد میں خاک ہوجاتے ہیں، چند ایک اس خوشبو میں لپٹ کر خوشبو کا حصہ بننے کی کوشش میں، پوری زندگی کے دکھ اور عذاب جھیلتے رہتے ہیں۔ کچھ اس کو جسم کا حصہ بنا کر عمراس کے ساتھ جیتے ہیں۔ کچھ پوری زندگی نہ اسے حاصل کرتے ہیں اور نہ دوسروں کو اس خزانے سے مستفید ہونے دیتے ہیں۔ کچھ ایسے اس خوشبو اور مہک میں ڈوبتے ہیں کہ دنیا و مافیہا کی خبر نہیں رہتی اورخود سے فراموش ہوکر جنگلوں بیابانوں میں اپنی زندگی کا سفر اس کے تعاقب میں طے کرتے ہیں، اسے تلاش کرتے رہتے ہیں۔ اور یوں اس تعاقب، حاصل، خوشبو اور انسان کا سفر چلتارہتاہے۔ نسل در نسل جاری رہتاہے۔ نامختتم سفر !

میں نے زندگی میں کبھی کتاب، قلم اور مستقبل سے آگے سوچا نہ تھا۔ یہ انسانوں کو دیکھنے کے بعد، محسوس کرنے اور سمجھنے اور پھرجھپکنے کے بکھیڑے کون پالتا۔ سومیں نے اس کے سارے فلسفے کے جواب میں خاموشی کو عافیت جانتے ہوئے، بڑی سی گردن گھما کر نفی کا پیغام دے دیا۔

۔ ”۔ پھر آپ کے لئے ابھی بہت کچھ دیکھنا، سوچنا، محسوس کرنا، مس کرنا اور چکھنا باقی ہے۔ “ وہ بولی۔ زندگی اس سے بہت خوبصورت ہے جو آپ گزاررہے ہیں۔ زندگی کو جینا سیکھیں۔ ایک مکمل زندگی۔ آپ کو ابھی مکمل ہونا باقی ہے۔ آپ ابھی نامکمل ہیں۔ نامکمل۔ شدید نامکمل ! میں آپ کی تکمیل کرنا چاہتی ہوں۔ آپ کو زندہ کرنا چاہتی ہوں۔ آپ کومکمل کرنا چاہتی ہوں۔ وہ سب کچھ دینا چاہتی ہوں جس کے بعد آپ کو کسی دوسری چیز کی ضرورت نہ پڑے۔

کسی اور کی ضرورت نہ پڑے۔ کسی اورسوچ، فکر، خواہش، جذبات اور احساس کی ضرورت نہ رہے۔ میرے بعد تم صرف میرے ہوجاؤ، ہمیشہ کے لیے۔ ہمیشہ تک۔ صرف میرے۔ میں تمھیں مکمل کرنا چاہتی ہوں۔ اپنی زندگی دے کر تمھاری زندگی کے دکھ لے کر۔ میں اپنے ہونٹوں کے رس سے تمھارے جسم کا زہرکشید کرنا چاہتی ہوں۔ تریاق بننا چاہتی ہوں۔ ”

وہ بولتی رہی اور میں سنتا رہا۔ مگر میرے چہرے کی بیزاری سے تنگ آکر اس نے بڑے دکھ سے کہا، چلیں۔ کافی وقت گزرگیا ہے۔ چوکیدار بھی باربار گھوررہا ہے۔ میرے خیال میں گھر چلتے ہیں اور میں اٹھا، حسب ِعادت پیچھے سے کپڑوں کو جھاڑا اور سرجھکا کرخاموشی سے اس کے ساتھ چل دیا۔ میرے پاس کہنے کو بہت کچھ تھا مگر اس کو دینے کے لیے کچھ بھی نہیں تھا۔

بس کے سفر میں، ٹوٹی ہوئی کھڑکی سے اندر آنے والی یخ بستہ ہوا، ساتھ والے موٹے صاحب کی طرف سے میری پسلی پر پڑنے والا کہنی کا مسلسل دباؤ اور سرکے عین اوپر پھٹے ہوئے سپیکر میں سے آنے والی مہدی حسن کی آواز ”تیرے بھیگے بدن کی خوشبو سے“۔ نے ایک دفعہ پھر مجھے برسات، بھیگی جوان لڑکی اور خوشبو کے چکر میں پھنسا دیا۔

اور میں اپنے سامنے تیسری سیٹ پر، کھڑکی کی سمت بیٹھی ہو ئی، اس لڑکی کو نہ صرف دیکھ رہا تھا، بلکہ اس کے بھیگے بدن کو، اس کی خوشبو سمیت، محسوس بھی کررہاتھا۔ باغِ جناح سے بس تک کے سفر میں، وہ مجھ سے کچھ مایوس اور میری بے پروائی سے بددل ہوگئی تھی۔

اور ہم بس سٹاپ پر اکٹھے اترے، ایک دوسرے کی طرف دیکھا اور بن بات کیے روانہ ہوگئے۔ اس کی آنکھوں میں ایک شکوہ تھا۔ ایک اداسی تھی جیسے Rejection کا دکھ ہو۔

دوبسیں بدلنے کے بعد اور تقریباً کوئی دوسو بیس گز پیدل چلنے کے بعد، میں گھر پہنچ گیا۔ بس سے جلدی سے اترنے کے بعد، ادھراُدھر دیکھ کر سڑک کراس کرنا۔ تانگے والوں کی صدا اور کھینچا تانی اور ان کو بازواور ہاتھ کے اشارے سے پرے دھکیلنا اور بتانا کہ ابھی گاڑی سے اُترا ہوں اور نہرکنارے اونچی نیچی پٹڑی پر چلتے جانامعمول تھا۔ واپسی پر ریل کی پٹڑی کو ادھراُدھر، سگنل دیکھ کر عبورکرنے اور چاچے ریڑھی والے سے سلام کرکے، گھرکی طرف روانہ ہونے کا یہ سارا سفر، آج بہت جلد، ایک خواب میں ختم ہوگیا۔

اور سفرکے بعد رات کی نیند میں بھی بارش کے قطرے، جسم و سانسوں کی مہک، ذہن وجسم کو پریشان کررہی تھی۔ آیت الکرسی، آیتِ کریمہ، تیسراکلمہ اور جو بھی کچھ قاری صاحب نے سوتے میں وسواس اورگندے خیالات سے بچنے کے لیے بتایا تھا، سب پڑھا۔ باربارپڑھا۔ مگر ذہن اور خیال سے جسم کے ساتھ چپکی ہوئی قمیص اور کمر سے لپٹے ہوئے بال نکلیں، تو نیند آوے۔ جتنا زور اور شدت سے ورد کرتا اتنا ہی یہ بلامیرے سرچڑھ کر بولتی تھی۔ تمام جنترمنتر اور ورد فیل ہوگئے۔

وہ میری تکمیل کرنا چاہتی تھی یا وہ میری تکمیل کرکے اپنی تکمیل چاہتی تھی، اس کا فیصلہ کرنے کی پوزیشن میں تو میں تھا نہیں۔ مگرمجھے اتنا احساس ضرورتھا کہ، میرے کھنڈرجسم، سوچ اور دل کی عمارت پر جتنا مرضی خرچ کیا جائے، جیسا مرضی آرکیٹکٹ اور مستری، مزدور آجائیں اور غیرملکی میٹریل بھی استعمال کرلیں، یہ کھنڈرہی رہے گا۔ بھلاتباہ ہونے والے گھر اور اجڑنے والے مکان میں بھی کبھی بسیراہوا ہے، نہیں ناں !

میں یہ باتیں اس کو سمجھانے سے قاصر تھا۔ اس کے خیالات اور جذبات کی روانی دیکھ کر، میری سوچ اور الفاظ بے معانی ہو جاتے تھے۔ زبان گنگ ہو جاتی تھی اور اس میں لکنت آجاتی تھی۔ خیالات منتشراور الفاظ بکھرجاتے تھے۔ اور میں اپنی خاموش ہار مان کر، چپ سادھ رکھنے میں ہی عافیت جانتا تھاتاکہ یہ سلسلہ چلتا رہے۔ کیونکہ شاید یہ میری محبت سے زیادہ ضرورت بن چکاتھا۔ شاید انسان محبت کے بجائے اپنی ضرورتوں کے ہاتھوں زیادہ مجبور ہوتاہے، بے بس ہوتاہے۔ یا شاید محبت بھی انسان کی ایک ضرورت ہے۔ دیگر بہت ساری ضرورتوں کی طرح، ایک ضرورت !
کتاب حاصل لا حاصل سے اقتباس۔

لیاقت علی ملک

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3

لیاقت علی ملک

لیاقت علی ملک ۔۔۔ داروغہ ہے۔ خود ہی عدالت لگاتا ہے، خود ہی فیصلہ سناتا ہے اور معاف نہیں کرتا۔۔۔ بس ایک دبدھا ہے۔۔۔وہ سزا بھی خود ہی کاٹتا ہے ۔۔ ۔۔کیونکہ یہ عدالت۔۔۔ اس کے اپنے اندر ہر وقت لگی رہتی ہے۔۔۔۔

liaqat-ali-malik has 12 posts and counting.See all posts by liaqat-ali-malik