مذہبی راہنما گرمیت سنگھ ریپ کے بعد قتل کا مجرم بھی قرار


نئی دہلی: خواتین سے زیادتی کے الزام میں سزا یافتہ مذہبی رہنما گرمیت سنگھ کو عدالت نے قتل کیس کا مجرم بھی قرار دے دیا۔
تفصیلات کے مطابق ہریانہ کی عدالت سے سزایافتہ مجرم پر الزام تھا کہ انہوں نے بھارتی صحافی رام چندر چھترپتی کو قتل کیا اور اُن کے اہل خانہ کو سنگین نتائج کی دھمکیاں بھی دیں۔
بھارتی ریاست ہریانہ کی خصوصی عدالت ’سی بی آئی‘ نے گزشتہ روز سماعت میں مقدمے کا فیصلہ سناتے ہوئے مذہبی رہنما کو قتل کا مجرم بھی قرار دیا۔

صحافی کے بیٹے نے عدالتی فیصلے پر اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’گرمیت جیسے لوگ معاشرے کے دشمن ہیں، میرے والد خود اس شخص کے کالے کارتوتوں سے بہت اچھی طرح واقف تھے‘ ۔

رام چندر چھترپتی کے صاحبزادے انشل چھترپتی کا یہ بھی کہنا تھا کہ ’جب میرے والد نے گرمیت کا بھیانک چہرہ دنیا کے سامنے لانے کی کوشش کی تو لوگوں نے اس کا یقین نہیں کیا اور اُن کا مذاق بنایا مگر آج حقیقت سب کے سامنے آچکی ہے‘ ۔

اُن کا مزید کہنا تھاکہ ’گرمیت نے 15 برس قبل میری ماں کے سہاگ کو اجاڑا تھا مگر قدرت نے اُسے آج خود اجاڑ دیا، ہم نے والد کے قاتلوں کو سزا دلوانے میں بہت طویل جدوجہد کی اور نامساعد حالات کا سامنا بھی کیا‘ ۔

یاد رہے کہ بھارتی ریاست ہریانہ کی عدالت نے اگست 2017 میں ہندوؤں اور سکھوں کے مذہبی پیشوا گرو گرمیت رام سنگھ کو خواتین سے زیادتی کا جرم ثابت ہونے پر 20 سال قید کی سزا سنائی تھی۔

سُچا سودا مذہبی تنظیم کے سربراہ کو عدالت نے 2002 میں زیادتی کیس کا مجرم قرار دیا تھا جس کے بعد انہوں نے اس فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کردیا تھا البتہ وہ سپریم کورٹ میں بھی اپنی بے گناہی ثابت نہ کرسکے۔

مذہبی رہنما کی سزا کے خلاف پنجاب اور ہریانہ میں فسادت پھوٹ پڑے تھے جن میں تقریباً 31 افراد ہلاک ہوگئے تھے۔ مقامی حکومتوں نے ہنگاموں کے پیش نظر پولیس کی بھاری نفری کو تعینات کیا تھا مگر انتہاء پسندوں نے اپنے آگے قانون کی ایک نہ چلنے دی تھی۔

ہریانہ اور پنجاب میں پبلک ٹرانسپورٹ اور ٹرین سروس سمیت موبائل و انٹرنیٹ سروس بھی بند کردی گئیں تھیں۔
بعد ازاں پولیس اہلکاروں نے گرمیت سنگھ کو جیل سے فرار کرنے کی منصوبہ بندی کی جو ناکام ہوگئی، انتظامیہ نے بروقت کارروائی کرتے ہوئے چار پولیس اہلکاروں کو گرفتار کر لیا تھا۔
بشکریہ اے آر وائی نیوز۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).