سانحہ ساہیوال! سیاسی مقاصد کے لئے استعمال مت کیجئے


غصے میں انسان کو فیصلہ نہیں کرنا چاہیے اور شادمانی کے لمحات میں وعدہ لیکن ہماری قوم ان دونوں کاموں میں طاق ہے۔ ایک گروہ وہ ہے جس نے ہتھیلی پر سرسوں جمانے کا پیمان کیا تھا لیکن ابھی تک یہ ادراک نہیں کر پایا کہ ہوائی قلعے مسمار ہو چکے۔ مد مقابل دوسرا گروہ ہے جو اپنی ذمہ داری سے تو عہدہ برآ ہو چکا لیکن نہیں جانتا کہ ہر چیز کا ایک وقت مقرر ہے۔

مطالبہ یہ ہے کہ ساہیوال میں ہونے والے اندوہناک واقعہ پر کچھ لکھوں لیکن بوجوہ اس مطالبے کوپورا کرنے سے قاصر ہوں اور وجہ بیان کرنے سے بھی معذور، سو اعتذار قبول فرمائیے۔ تاہم دو وجوہات بیان کی جا سکتی ہیں۔ ایک تو خوش قسمتی یا بدقسمتی سے میں انسان ہوں اور مجھ پر اس جہاں میں رونما ہونے والے واقعات کا اثر ہوتا ہے۔ ساہیوال میں گزرے اتوار جو ہوا، دنیا کے کسی بھی معاشرے میں اس کا کوئی جواز نہیں شرط یہ کہ وہ معاشرہ انسانی ہو۔ سخت رنج کا عالم ہے اور میں اس واقعے کے بعد سے سکون کی نیند سو نہیں پایا۔ ہاں جسم کا نڈھال ہو کر بستر پر گر جانا الگ بات ہے۔ اس ذہنی حالت کے ساتھ ایک انتہائی نازک موضوع کے ساتھ میں انصاف کر پاؤں گا اس بات کا مجھے یقین نہیں۔ دوسرا! میری دستیاب معلومات کی حد تک سانحہ ساہیوال پر بننے والی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم شاید پاکستان کی تاریخ میں پہلی تحقیقاتی ٹیم ہے جسے تحقیقات کے لئے صرف تین دن دئیے گئے ہیں۔ معاملہ انتہائی نازک اور مسلمہ شہری حقوق سے متعلق ہے اور تین دن کا وقت بھی بہت زیادہ نہیں اس لئے جو اڑتالیس گھنٹے (تادم تحریر) باقی ہیں ان میں مزید حقائق سامنے آجائیں گے اور حتمی حکومتی موقف بھی۔ تب اس معاملے پر لکھنا زیادہ مناسب ہو گا۔

سر دست دو معاملات کی طرف توجہ دلانا مقصود ہے۔ ایک تو معاملے کو سیاسی رنگ مت دیا جائے اور دوسرا لسانی یا صوبائی عصبیت کو ہوا مت دی جائے۔ مشاہدہ یہ ہے کہ سماجی ذرائع ابلاغ پر بعض افراد بنا سوچے سمجھے یہ دونوں کام زور و شور سے جاری رکھے ہوئے ہیں۔ پیر کی صبح موبائل فون پر نظر ڈالی تو ایک پرانے تعلق والے صاحب کو بلاجھجک خیرباد کہنے میں راحت محسوس کی، کیونکہ موصوف نے باقاعدہ یہ استدلال قائم کیا کہ چونکہ سانحہ ماڈل ٹاؤن کی پاداش میں شہباز شریف کو پھانسی پر نہیں لٹکایا گیا اس لئے سانحہ ساہیوال سے متعلق کوئی شخص وزیراعلیٰ پنجاب کا نام ہی زبان پر نہ لائے۔ یہ جرم وزیراعلیٰ عثمان بزدار یا وزیراعظم عمران خان پر کس منہ سے دھرا جا رہا ہے۔ جوابی بیانیہ یہ ہے کہ چونکہ سانحہ ماڈل ٹاؤن کی وجہ سے شہباز شریف اور نواز شریف سے استعفیٰ طلب کیا گیا تھا تو اب استعفے طلب کرنے والے خود گھر جائیں۔ ایک کہتا ہے گولی عثمان بزدار یا عمران خان نے نہیں چلائی۔ دوسرا کہتا ہے پھر تو شہباز شریف اور نواز شریف دونوں ہی سانحہ ماڈل ٹاؤن سے باعزت بری ہوگئے۔ خاکسار کی رائے میں دونوں گروہ کج بحثی کر رہے ہیں۔ دونوں ہی گروہ بنیادی نقطے سے ہٹ کر مکرہ سیاسی پوائنٹ سکورنگ کر رہے ہیں جس کی وجہ سے مرنے والوں کے ورثا تو اذیت میں ہیں ہی اس کے ساتھ ساتھ اصل مسئلہ بھی بہت پیچھے چلا جاتا ہے۔

سانحہ ماڈل ٹاؤن کی آخری ذمہ داری اس وقت کے وزیر داخلہ اور وزیر اعلیٰ پنجاب ہی کو تسلیم کرنا چاہیے۔ اسی اصول اور ضابطے کے تحت ساہیوال میں مارے جانے والے بے گناہوں کے خون کے ذمہ داروں کا تعین بھی کیا جانا چاہیے۔ لیکن یہ بات دھیان میں رہے کہ دونوں واقعات میں حتمی اختیار ہونے کے باوجود بنیادی ذمہ دار عناصر مختلف ہیں اور ان کو کیفر کردار تک نہ پہنچانا باعث شرم ہے۔ بات تو اس رویے پر ہونی چاہئے جو انصاف کے مروجہ اور مسلمہ اصولوں سے ہٹ کر اختیار کرنے کی وجہ سے معاشرتی بگاڑ اور انتشار کا باعث بن رہا ہے۔

کون دہشت گرد تھا اور کون معصوم؟ یہ تو سوال ہی بعد کا ہے۔ بنیادی سوال تو یہ ہے کہ کسی بھی الزام کی پاداش میں کسی بھی فرد کو قانون نافذ کرنے والے ادارے کیسے موت کے گھاٹ اتار سکتے ہیں؟ عینی شاہدین کی گواہی کی روشنی میں اب اس بات کو تسلیم کرنے کے لئے کوئی بھی تیار نہیں کہ سانحے میں جاں بحق ہونے والوں کی طرف سے فائرنگ میں پہل کی گئی یا کسی بھی قسم کی مزاحمت کی گئی۔ موقعے پر موجود شہریوں نے جو ویڈیوز بنا کر یوٹیوب اور فیس بک یا ٹوئٹر پر اپ لوڈ کی ہیں ان میں واضح طور پر دیکھا جا سکتا ہے کہ سی ٹی ڈی کے اہلکار گاڑی میں سے بچوں کونکالنے کے بعد فائرنگ کر رہے ہیں۔ بہرحال کسی بھی مہذب معاشرے میں ملزم کو گرفتار کر نا ہی مقصود ہوتا ہے نہ کہ جان سے مار دینا۔

فیس بک اور ٹوئٹر پر دوسرا رجحان اس سے بھی زیادہ خطرنا ک ہے کہ پنجاب میں کوئی ظلم ہو جائے تو پورے ملک کا میڈیا یک زبان ہو جاتا ہے لیکن دوسرے صوبوں میں کچھ بھی ہوجائے پنجاب والے آواز نہیں اٹھاتے۔ ایک پنجابی ہونے کے ناطے مجھے اس استدلال پر سخت اعتراض اور کبھی کبھار غصہ بھی آتا ہے۔ ایک صاحب نے تو منظورپشتین سے یہ التجا بھی کی ہے کہ اور تو کوئی نظر نہیں آتا اس لئے وہی اس سانحہ پر احتجاج کی کال دیں۔ دیکھتے ہیں یہ التجا تسلیم کی جاتی ہے یا نہیں۔ خاکسار کا خیال تو یہ ہے کہ ظلم کہیں بھی ہو، اسے پنجابی ، پختون یا بلوچی اور سندھی کی نظر سے دیکھنا بجائے خود ظالم کی حمایت کے مترادف ہے۔ کیا یہ بحث چھیڑنے والوں کا حافظہ ختم ہو گیا ہے جو ایسی بات کرتے ہیں؟

یاد کیجئے جب ڈمہ ڈولہ سے چند تصاویر میڈیا کو موصول ہوئی تھیں تو اہل پنجاب نے اس ظلم پر بھرپور احتجاج کیا تھا۔ کوئی ایک پنجابی مجھے ایسا دکھا دیں جو نواب اکبر بگٹی کے قتل پر مشرف کو رعایت دینے کے موڈ میں ہو۔ بلوچستان کے بعض سیاستدانوں کی بات کر کے میں خود اسی بحث میں نہیں الجھنا چاہتا جسے میں ملک و قوم کے لئے نقصان دہ سمجھتا ہوں۔ کراچی میں رینجرز کے ہاتھوں مارے جانے والے نوجوان کی ویڈیو سامنے آئی تو کیا پنجاب میں اس پر آواز نہیں اٹھائی گئی؟ جس نواز شریف پر تخت لاہور کی پھبتی کسی جاتی ہے کیا اس نے بلوچستان، خیبر پختونخوا اور قبائلی علاقوں میں قیام امن کےلئے اقدامات نہیں کئے۔ کیا نواز شریف نے بلوچستان میں قوم پرستوں کے اشتراک سے حکومت بنا کر انہیں قومی دھارے میں لانے کے لئے سنجیدہ اور عملی اقدام نہیں کیا؟ کیا سانحہ اے پی ایس میں قتل کئے جانے والے معصوم فرشتے پنجابی تھے جن کی یاد میں آج بھی پنجاب کی مائیں افسردہ ہوجاتی ہیں۔

خدارا! ان اذیت ناک لمحوں میں قوم کو جوڑنے کی بات کیجئے۔ گروہ در گروہ تقسیم کرنے کی نہیں۔ سنی سنائی باتوں پر دو چار گھنٹے کا تماشہ تو لگایا جا سکتا ہے لیکن دانش کدہ تعمیر کرنا ناممکن ہے۔ اپنی نظر ہدف پر رکھئے، ہدف یہ ہے کہ اس ملک میں انسانی حقوق کی فراہمی کے لئے جدوجہد جاری رکھی جائے اور یہ اسی صورت ممکن ہے جب پاکستانی قوم متحد رہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).