سانحۂ ساہیوال کا منطقی انجام کیا ہو گا؟


بنیاد تو یہ ہے دوستو کہ میرا وطن پاکستان اک مضبوط سیاسی ریاست ہے۔ مگر یہ اک ذمہ دار جمہوری ریاست نہیں ہے۔ سچ یہ ہے کہ جنوبی ایشیاء کے تمام اور دنیا کے اکثریتی ممالک، سیاسی ریاستیں ہیں، مہذب جمہوری ریاستوں کی تعداد بہت کم ہے۔

اس پر دو طرح کے دلائل آ سکتے ہیں۔

پہلی دلیل تو یہ ہے کہ ہمیں دل و جان سے اس سیاسی ریاست کو اک ذمہ دار جمہوری ریاست بنانے کے لیے تگ و دو کرنی چاہیے، چاہے اس کے لیے ہمیں کچھ بھی کرنا پڑے۔ یہ وہ رومانوی خواب ہے جو پاکستان کے آغاز میں ترقی پسند دانشوروں نے دیکھا اور دکھایا۔ اور بعد میں کچھ ترقی پیپلز پارٹی نے اپنے تئیں آئینی جمہوریت کے مقدمہ کو پاکستانی معاشرت میں آگے بڑھا کر کی۔

دوسری دلیل یہ ہے کہ ریاست کا مزاج اک لا ابالی اور نوجوان مرد کی طرح کا ہے اور یہ اس وقت تک آپ کے لیے کچھ نہیں کرتی جبتکہ وہ کام کرنے میں اس کا اپنا مفاد موجود نہ ہو۔ آپ بھلے اس لا ابالی نوجوان کے ساتھ تھوڑی بہت چھیڑ چھاڑ کرتے رہیں، یہ مسکرا کر آپ کو ٹالتی رہے گی، مگر جیسے ہی اس نوجوان نے اپنے ہی کسی خیال میں یا آپ کی کسی حرکت کی وجہ سے یہ سوچ لیا کہ آپ کا ہاتھ اس کی مسوں تک پہنچنے والا ہے، یا پہنچ چکا ہے، تو محترم، آپ کی خیر نہیں۔ آپ کے آس پاس کے لوگوں کی بھی خیر نہیں۔ پھر کسی کی بھی خیر نہیں۔

سیاسی ریاست اگر اک طرف، اور مہذب جمہوری ریاست دوسری سمت میں ہے تو درمیان میں دونوں کا ایگزیکٹو لنک پاکستان کے مضبوط سیکیورٹی نظام سے جڑا ہوا ہے اور پاکستان کے سیکیورٹی نظام کو چلانے والے اس نزاکت کو نہ صرف سمجھتے ہیں، بلکہ اس کام میں وہ انتہا درجے کے ماہر بھی ہیں۔ یہ مہارت کس درجہ کی ہے، اس کے لیے سٹیو کول کی شاندار کتاب، Directorate S آپ کو بہت عمدہ زاویہ نگاہ فراہم کر جائے گی۔ ہو سکے تو مطالعہ کر لیجیے گا۔

موضوع کی جانب لوٹتے ہیں۔

ریمنڈ ڈیوس نے جنوری 2011 میں دو پاکستانی مار دیے۔ اک طوفان کھڑا ہو گیا۔ میڈیا نے اسے امریکہ اور پاکستان کی جنگ بنا کر اچھالا دیا، جبکہ جماعت اسلامی نے اسے ملی غیرت اور مسلم حمیت کا مسئلہ بنا ڈالا۔ جب دِیت کا ذکر آیا تو جماعت اسلامی نے گویا پورے پاکستان سے غیرت فنڈ اکٹھا کرنے کا ڈول ڈالا اور قصاص کا مطالبہ کیا۔ غیرت فنڈ میں غیور پاکستانی عوام نے بمشکل چند لاکھ ڈالے۔ انہی دنوں میں اک گفتگو میں شریک تھا تو آس پاس کے دوستوں سے کہا کہ مرنے والوں کے گھر والے پیسے لے لیں گے، اور انہیں یہ پیسے لے لینے چاہئیں کہ خواہ مخواہی شور میں یہ موقع بھی ہاتھ سے گنوا دیں گے۔ میری بہت لے دے ہوئی۔ دو لیکچرز بھی مل گئے۔ بعد میں پیسوں پر ہی بات ختم ہوئی، نہ صرف ختم ہوئی، بلکہ آپس کے جھگڑے بھی ہوئے جس میں دو افراد کی جان بھی گئی۔

ریمنڈ ڈیوس کے بعد چھلانگ مار کر نقیب محسود کے واقعہ پر آ ٹھہرتے ہیں۔ نقیب بیٹے کی ناحق شہادت کے نتیجے میں پشتون تحفظ موومنٹ وجود میں آئی جو حقوق کے نقطہء آغاز سے روانہ ہوئی، اور نسل پرستی کی کھائی کی جانب تیزی سے بڑھتی چلی گئی۔ شدید دباؤ کے باوجود، ریاست نے اپنے سیکیورٹی کے ایگزیکٹو کے اک کرتا دھرتا، راؤ انوار صاحب کا مان رکھا۔ راؤ صاحب ریٹائر ہو گئے ہیں اور اب اللہ کے بلاوے پر اپنے کردہ و ناکردہ گناہ بخشوانے شاید عمرہ کر آئے ہیں، یا کرنے کی تیاری میں ہیں۔ بلاشبہ، یہ بڑے کرم کے ہیں فیصلے، یہ بڑے نصیب کی بات ہے۔

ساہیوال کے واقعہ میں پنجاب کے وزیرِ قانون نے یہ ارشاد فرمایا کہ یہ آپریشن آئی ایس آئی کا تھا جس پر عمل سی ٹی ڈی نے کیا۔ اک ماں، باپ، بیٹی کھیت رہے۔ دو معصوموں کو گولیاں لگ گئی جبکہ اک ڈرائیور، جو کہ مرکزی مشتبہ تھا، ہلاک کر دیا گیا۔ یہ گزرے دنوں کا وہ سچ ہے جو کسی کا بھی کمال قدرت نہیں بدل سکتا۔

پسماندگان اس وقت غم و غصے کی اک مسلسل کیفیت میں ہیں۔ ہونا بھی چاہیے۔ میرے عزیزوں کے ساتھ بھی یہ واقعہ پیش آیا ہوتا تو میں بھی اسی کیفیت میں ہی ہوتا۔ یہ عین انسانی فطرت ہے۔

سوال مگر یہ ہے کہ کیا اس کیفیت سے آنے والے دنوں کے مسائل کا کوئی حل نکلتا ہے؟ اس سوال کا جواب انہیں اور آپ کو بھی معلوم ہے۔ میرا ان کو مخلص ترین مشورہ ہے کہ وہ ریاست سے دو بیٹیوں اور بیٹے کے لیے اک بہترین بارگین حاصل کریں۔ ریاست دو کروڑ تک کا کہہ چکی ہے، اس رقم میں جتنا ممکن ہو سکتا ہو، اضافہ کروائیں۔ ریاست سے بھی فاش غلطی ہوئی ہے، وہ بھی مزید مہربانی کا سلوک کرے۔

ان بچوں کو ان کے ماں اور باپ، اور بوڑھی ماں کو اس کا بیٹا واپس نہیں مل سکتے۔ جذبات جو بھلے ہے کہتے ہوں، ٹھنڈے مزاج کی ذمہ داری سے پسماندگان کا مستقبل بہتر سے بہترین بنانے کی کوشش کریں۔ غیرت کا تڑکہ لگانے سے قبل درخواست ہے کہ جماعت اسلامی کے 2011 کے غیرت فنڈ کا حال بھی معلوم کر لیں۔ اک خیال یہ بھی ہے کہ ذیشان پر سے دہشتگردی کا الزام ختم نہیں ہو گا۔

ساہیوال سانحہ کا ہونا اک بہت بڑی ٹریجڈی ہے، مگر پاکستانی ریاست نے پچھلے اٹھارہ سالوں میں بہت مارا ماری سہی ہے۔ اس مارا ماری نے ریاست کے سیکیورٹی کے آپریٹس کو شدید حساس اور دشمن سے پہلے کارروائی کرنے کا عادی بنا ڈالا ہے، تو وہ اپنے لیے لڑنے اور مرنے والے اہلکاروں کا تحفظ کرے گی اور ہر قیمت پر کرے گی۔ ریاست تحفظ اس لیے بھی کرے گی کہ سایوں میں جاری دہشتگردی کے خلاف جنگ میں جو سامنے آ پاتا ہے، اس سے لاکھوں گنا ایسا ہے جو عوام و معاشرے میں آ ہی نہیں پاتا۔

پچھلے اٹھارہ برس میں ریاست نے معاشرے کو اور معاشرے نے ریاست کو ناکام کیا ہے۔ معاشرے میں مکالمہ و گفتگو کا باہم توازن ہوتا تو ریاست کے ساتھ مکالمے اور گفتگو کی گنجائش موجود تھی، مگر یہاں قومی میڈیا پر سیکیورٹی سے جڑے اداروں اور ان کے اہلکاروں کو ڈفرز قرار دیا گیا اور تماشا کے شوقین عوام نے بغلیں اور تالیاں بجائیں۔ بغلیں اور تالیاں بجانے کا اک اور مظاہرہ ابھی حال ہی میں اسلام آباد میں منعقدہ اک قومی مکالمہ میں بھی دیکھنے کو ملا۔ بغلیں بجانے سے کیا مسئلہ حل ہوا؟
آپ مجھے بھی تبریٰ نوازنے میں آزاد ہیں، مگر افسوس، کہ مسئلہ اس سے بھی حل نہ ہوگا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).