عالم گیریت کے ادبی و ثقافتی مضمرات: عصری تقاضے


کائنات خدا کا مظہر ہے اوریہ ایک ہی نظام کی پیروی کرتی ہے، اس میں توازن اس کی بقا کی ضمانت ہے۔  تو گویا زندگی اور اس کے گرد تمام کا انحصار اس ecosystem پر ہے جس کی شرائط کی ضمانت ظہور کائنات اور تعمیر کائنات کے وقت کی گئی تھی۔ خدا کا نظام عادل اور منصفانہ ہے۔  تب ہی تو ہمارے لئے  کھلا آسمان اور اس پر چاند ستارے، سورج اور کہکشاؤں کی بارات کی تصویر سجا دی گئی ہے۔  زمین بھی اپنے ظاہری خطوط اور تمام ذخائر کے ساتھ ساتھ ہمارے حوالے کر دی گئی۔

  اب ہمارا کام شروع ہوا، ہم ہیں کہ اس نظام میں اپنی اپنی کارفرمایوں کے نتیجے میں نظام کو اپنی خواہشات کے مطابق چلا رہے ہیں۔  جیسا کہ اگر غور کریں، تو انسان اور دیگر اشیا کے درمیان حد فاصل عقل ہے۔  اس نعمت کی معراج انسان کے پاس ہے اور یہ خوبی ہی اسے دیگر جانداروں سے مختلف بناتی ہے۔  یعنی خدا نے تو ہجت ہی تمام کر دی، کہ ہم کہہ نہیں سکتے کہ ہدایت ہی نہیں پہنچی۔ تاریخ گواہ ہے کہ بکھرے ہوئے انسان ایشیا سے افریقہ اور امریکہ تک اپنے اپنے سماج اور تہذیبوں کے ساتھ ساتھ اپنے ادب اورکلچر سمیت داخل ہوتے رہے ہیں۔  اور یوں غیر ارادی طور پر وہ اپنے ماحول کے اثرات کو ایک artifact طریقے سے ”منفرد ثقافت“ (unique culture)بن کر ابھرتے ہیں۔  یہ انفرادیت دراصل اس خطے کی ثقافتی توانائی کے ساتھ ساتھ صنعتی توانائی بھی ثابت ہوتی ہے۔

اب ہمارا یعنی انسان کا بنایا ہوا نظام بھی عمل میں آتا ہے، جس میں انسانی ضروریات کو ہمیشہ ہی سے اولین حیثیت حاصل رہی ہے، یعنی صنعتی دور سے قبل عہد وسطی تک انسان commodities کو ضروریات کے مطابق بناتا تھا، لیکن صنعتی دور نے عالمگیریت کے سحر انگیز ماحول کو ترتیب دینے میں اہم کردار ادا کیا۔ وہ یوں کہ انسان کی ضروریات کو پیش نظر نہیں بلکہ commodities کو بنا کر انسانی زندگیوں کے ماحول کو ان کی مطابق ترتیب دیا جاتا ہے۔ اور انسان کو اس میں ہر صورت adjust کروایا گیا ہے۔

لیکن یاد رہے کہ ابھی عالمگیریت کی مکمل تصویر بنی نہیں۔  معاشی اور سیاسی نظام کو کسے حد تک شکل دینے کی کوشش دی گئی ہے، لیکن موجودہ چند دھائیاں ثقافت اور تہذیبیں عالُم کاری کی لپیٹ میں ہیں۔  ثقافتی عالمگیریت کو نظر انداز اس لئے  نہیں کیا جا سکتا کہ اس میں مذہب اور اس سے متعلق رسم ورواج اور عادات واطوار بھی شامل ہیں۔  معاشرتی تہذیب میں تبدیلی کا یہ عمل ازل سے جاری ہے اس کا واحد مقصد انسان کی فلاح ہے۔

عمومی طور پر عالمگیریت کی تعریف یوں کی جاتی ہے کہ اس کے مقاصد ساری دنیا کو یکجا کرنا، یعنی ایک معاشرتی اور سرحدی حد بندیوں سے پاک معاشرہ جس میں زبان، ثقآفت اور فنون لطیفہ ہوں مگر سب کی جھلک نمایاں اور مناسب مقدار میں ہو۔ انسان انسان کی تلاش میں سرگرداں رہا ہے اور انسانیت کی تلاش اس سچ کی ہے جس کا نام ”خدا“ ہے۔  جس میں تہذیبوں کے تصادم نہیں ان کے ملاپ کی ضرورت ہے اور اس ہی کا دوسرا نام عالمگیریت (globalization) ہے۔

آج ہم کسی حد تک اس عالمگیریت کے ماحول میں رہ رہے ہیں اور ہم اس کا حصہ بھی ہیں۔  دراصل ماحول باطنی ہو یا بیرونی، زمان ومکاں کے ساتھ ساتھ وہ بھی ارتقائی منازل سے گزرتا ہے۔  ہر عمل کے ساتھ رد عمل لازم ہے۔  مگر سوال یہ ہے کہ انسان بہادر آج عالمگیریت سے کیوں گھبرا رہا ہے تاریخ گواہ ہے کہ انسان ڈارون کی تھیوری کو پس پشت کرتا ہوا سٹرنگ تھیوری تک پہنچ گیا ہے۔  ہم اور ہمارا ماحول ضرورتوں کے تابع ہیں۔  ہم مصلحتوں کا دائرہ معاش اور سماج کے گرد بناتے ہیں۔  ہمارے عقیدے، ہماری اقدار، ہمارے ماحول اور حتی کہ ہم خود بھی تغیرو تبدل کے عمل سے گزر رہے ہیں۔  اس میں ایک منفرد پہلو ہے کہ وہ جو گزر گیا، جو آئے گا اور جو گزر رہا ہے وہ اپنے عمل سے گزر کر اپنا حصہ اس عمل میں ڈالتا ہے۔

اب لمحہ ء فکریہ ہے کہ ہم عمل اور رد عمل کے ظہورو امکان کی دنیا کے عہد جدید میں سماجی، اخلاقی، معاشرتی، ثقافتی اور ادبی منظر نامے میں اپنا رنگ کیسے زندہ رکھیں۔  ہم یہ بخوبی جانتے ہیں کہ انسان قدرت کے ساتھ یوں جڑا ہے جیسے لاووزی ”LAOZI کے ہاں TAO Te CHINGتاؤ تی چنگ“ ہے تاوو کہتا ہے کہ ہم قدرت Ecosystem سے یوں جڑے ہیں جیسے پھول سے خوشبو، درخت سے زندگی اور توانائی اور پہاڑ سے مضبوطی۔ پس اس نظام کو سمجھو اور اس کی گہرائی میں اتر کر نچلی سطح پر جا کر یعنی نشیبی سطح تک زرخیزی کر دوُ۔

ہمیں انسانوں اور قدرت دونوں سے عاجزانہ رویوں سے پیش آنا ہے اور یہ ہی ہماری بحالی اور خوشحالی کی ضمانت ہے۔

عالمگیریت نظام نہیں زندگی کی ارتقا کا ایک پہلو ہے، جس میں انسان سٹون ایج سے ایگری کلچرل ایج انڈسٹریلن ایج اور اب موجودہ انفارمیشن ٹیکنالوجی یعنی سلیکون ایج میں پہنچ کیا ہے، دراصل عالمگیریت کے اس احاطے میں دنیا سکڑ گئیی ہے فاصلے کم اور رابطے ممکن ہو گئے ہیں۔  خبرییں آگ کی تیزی جیسے دنیا میں پھیل جاتی ہیں۔  اس میں امیر اور غریب سب کو بلا تخصیص انفارمیشن مل رہی ہے۔  زمین کا نقشہ بدل رہا ہے، گلوبل وارمنگ کا بگل بج چکا ہے۔

تھوڑا سا غور کریں تو لگنے لگتا ہے کہ ہم complex سے simple کی طرف آ رہے ہیں۔  خون کا ایک قطرہ بیماریوں کی تشخیص کر دیتا ہے۔  یہ سائینی ترقی سائنس کی نہیں انسانی فکر اور سوچ کی ہے۔  سب کچھ ہمارے گرد تھا بس آگے بڑھ کر دیے سے دیا جلانا ہے۔  یعنی فیثا غورث نے 500 قبل مسیح کائنات کے بنیادی عناصر پانی، آگ، ہوا اور مٹی کے بارے میں بتایا اور A + B=C کا انکشاف کیا۔ آئن سٹائن نے ہزاروں سال بعد E=MC 2 کا فارمولا دیا اور پھر ہم آج سٹیفن ہاکنگز کی بلیک ہول تھیوری کو نمائندہ بنا کر آگے بڑھ رہے ہیں۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں

بینا گوئندی
Latest posts by بینا گوئندی (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3