سات سالہ یشفہ سے کچھ نہ پوچھو


بیس جنوری کو سورج اپنے وقت پر نکلا تھا مگر سیاہی کے ساتھ۔ میں دوپہر کا کھانا کھا رہی تھی کہ آفس سے کال آئی۔ ”سی ٹی ڈی نے دہشتگرد گرفتار کیے ہیں چیک کرو“ ۔ بالکل حسب معمول آپریشنز کی طرح وٹس ایپ پر انگریزی میں تفصیلات موجود تھیں۔ بس ایک بات کچھ الگ تھی۔ ”دو خواتین سمیت چار لوگ ہلاک“ اردو ٹکرز بناتے وقت ذہن میں خیال تو آیا مگر خبر کی تصدیق کی کوئی دوسری آپشن موجود نہیں تھی۔ سی ٹی ڈی کی خبر فائل کرنا سب سے آسان ہوتا ہے ”نہ کاونٹر چیک کرنے کی ضرورت اور نہ ہی فوٹیج کی فکر“ ۔ بس انگریزی سے اردو کرو اور ”دہشت گرد“ مار دو۔

لیکن اس بار معاملہ کچھ اور تھا۔ چور کی داڑھی میں تنکا تب نظر آیا جب اچانک ایک اور پریس ریلیز آگئی۔ فوری لگا جیسے ایک اور ریمون ڈیوس کی خبر کا پھڈا چلے گا اور بس پھر بلے بلے۔ حشر کا اندازہ اس وقت ہوا جب ساہیوال کی ہوا باغی ہونے لگی اور اچانک ننھے عمیر کا بیان سامنے آگیا، ہاتھ میں فیڈر پکڑے اس بچی پر گزری قیامت اور پھر ننھی کلی کا معصوم سا چہرہ۔ پورے ملک میں تہلکہ مچ گیا اور قومی چینل پر معاملے کا پوسٹ مارٹم کے لئے میں تجزیہ کار بن گئی۔

جیسے ہی پتہ چلا کہ ان لوگوں کا تعلق لاہور سے ہے۔ بس فوری پھر ان کی رہائش گاہ پہنچنے کی کوشش میں سویٹر پہننا بھی بھول گئی۔ محلے میں کہرام مچا ہوا تھا۔ خلیل کا گھر ماتم کدہ کا منظر پیش کر رہا تھا مگر مجھے جلدی تھی کہ کسی طرح اس چیخ و پکار میں ”ایکسکلوزو“ بیپر ہو جائے۔ چونکہ میں ایک خاتون ہوں تو اس کا فائدہ ہوا اور خلیل کی بہنوں کے ساتھ فوری ریکارڈنگ کی اور آفس والوں نے بھی نیکی اور پوچھ پوچھ والا حساب کیا۔ اب یہ فکر کہ کسی طرح خلیل کی والدہ کا شاٹ ہو جائے اس میں بھی کامیاب رہی۔ ہر رپورٹر چاہتا تھا کہ اہلخانہ کا بیان سب سے پہلے وہ چلائے۔

ابھی تک کون قصوروار تھا کچھ سمجھ نہیں آ رہی تھی مگر سی ٹی ڈی کی تیسری پریس بریفنگ نے پولیس مقابلے کو ایک معمہ بنا دیا۔ ایک دن گزر گیا۔ خلیل کے زندہ بچ جانے والے بچے گھر پہنچے۔ پھر اس بات کی ہبڑ دبڑ کہ بس ان سے ایسے سوال کریں کہ واٹر مارک کے ساتھ چلے۔ اور بیورو چیف اش اش کر اٹھے۔ پتھر دل اور دلیری کے ساتھ ہر گھنٹے میں ”لائیو ہٹ“ دے رہی تھی۔

صحافت کا تو پتہ نہیں مگر آفس کو بخوبی معلوم ہوگیا تھا کہ میں کام کر رہی ہوں۔ اب معاملہ ذیشان پر آکر رکا۔ اس کے گھر کے باہر لگی ہوئی نمبر پلیٹ سے لے کر محلے کا ہر شخص اس کی نیک نیتی کا گواہ تھا مگر حساس اداروں کو کون سمجھائے کہ ہر بار عوام بے وقوف نہیں بنتے۔ خلیل کے اہلخانہ کو چھوڑ کر اب صحافت نے رخ کیا ”ذیشان کی تحقیقات کا“ ۔ ”اس کا بھائی ڈولفن میں ہے“ ۔ دو بیپر اس کی نذر ہوگئے۔ اس کے بعد معلوم ہوا کہ اس کی سات سالہ بیٹی بھی ہے۔ یہ وہ وقت تھا جب تمام ٹی وی چینلز نے اپنے بہترین اداکاروں کو میدان میں اتارا۔ سب کا نشانہ اب وہ بچی تھی کہ اس کے جذبات کو کیش کیا جائے۔ میرے دل میں خواہش پیدا ہوئی کہ سب سے پہلے میں اس کے ساتھ بات کر کے ٹی وی پر چلاؤں۔

مبینہ دشتگرد کا گھر دلائل سے گونج رہا تھا۔ گورنر پنجاب کا پروٹوکول لگ چکا تھا۔ سب ان کی آمد کا انتظار کر رہے تھے۔ میں نے اس موقع کو بہترین جانا۔ اشارے سے سات سالہ یشفہ کو اپنے پاس بلایا۔ جیسے ہی میں نے اس کی آنکھوں کی بے بسی دیکھی ایک دم سنگ دل پھٹ سا گیا۔ ننھی یشفہ کو بہلانے کے لئے ادھر ادھر کے سوال پوچھنے لگی کہ سکول جاتی ہو؟ کون سی کلاس میں پڑھتی ہو؟ مجھے سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ کیسے اس کو اس موضوع کے لئے تیار کروں۔ اس سے پہلے کسی ٹی وی اداکار (رپورٹر) نے اس سے بات نہیں کی تھی۔

بڑی ہمت باندھ کر میں نے پوچھا کہ آپ کے بابا کدھر ہیں؟ اس نے جواب میں بڑے یقین سے کہا ”آپ کو پتہ ہے“ ۔ میں نے زور دیتے ہوئے سوال دہرایا۔ اس نے پھر وہی جواب دیا۔ میں نے اس کے گال پر پیار کرتے ہوئے جب تیسری بار یہی پوچھا تو اس نے کہا۔ ”آپ میرا مذاق اڑا رہی ہیں ناں؟“ اس جملے نے گویا میرے کان کے پردے پھاڑ دیے۔ حلق میں چیخ کہیں پھنسی ہی رہ گئی اور میں بالکل ساکن۔ اس کے بعد میری ہمت نہیں ہوئی کہ اس کا سامنا بھی کر سکوں۔ مجھے خود سے شدید نفرت ہو رہی تھی میں بس سب سے ہاتھ جوڑ کر یہی کہہ رہی تھی کہ ”سات سالہ یشفہ سے کچھ مت پوچھو“ ۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).