فہمیدہ ریاض: اس ڈھلی شام کا حاصل کیا ہے؟


اتنے دن ہو گئے وہ آواز میرے ساتھ چلی آ رہی ہے۔

میں جہاں جاتا ہوں میرے کانوں میں گونجنے لگتی ہے۔ ان کی ہنسی کی کھنکتی ہوئی آواز۔ اس ہنسی کے بغیر میں ان کا تصوّر نہیں کر پاتا۔ اور میں ایسا کرنا بھی نہیں چاہتا، حالاں کہ ان مل بے جوڑ معلوم ہوتا ہے موت کے موقع پر ہنسی کو یاد کرنا۔ ان کا نام سُن کر جگہ جگہ پہنچ جانے کی کوشش کرتا ہوں، میں فہمیدہ ریاض کا مُستقل ماتم دار بن گیا ہوں۔ بار بار اپنے بکھرے ہوئے احساسات کو جمع کرتا ہوں۔ زندگی کے دوسرے بڑے صدمات کی طرح اس کو مندمل ہونے میں وقت لگے گا مگر میں تعزیت سے بڑھ کر فہمیدہ ریاض کی زندگی اور ادبی کارنامے کو سیلی بریٹ کرنا چاہتا ہوں، ایک جشن کی طرح جو ختم ہو کر بھی تمام نہ ہو۔

آخری ملاقات کے وقت اندازہ نہیں ہو پایا مگر آخری دم تک ان سے پہلی ملاقات یاد رہے گی۔ میں نے جب انہیں پہلی بار دیکھا تھا اور حیران رہ گیا تھا۔ وہ انگلستان سے تازہ تازہ واپس آئی تھیں اور کراچی کے ادبی حلقوں میں گفتگو کا موضوع بن گئی تھیں۔ ادارۂ یادگار غالب کے مہتمم مرزا ظفر الحسن نے غالب لائبریری میں بیرون ملک سے واپس آنے والی دو خواتین، فہمیدہ ریاض اور عرفانہ عزیز کے ساتھ گفتگو اور شعر خوانی کی محفل کا اہتمام کیا۔ اس زمانے میں غالب لائبریری، جو ناظم آباد میں واقع ہے، ایسی ادبی محفلوں کا مرکز بن گئی تھی۔

چھوٹی عمر سے ہی میرے والد مجھے ادبی محفلوں، مشاعروں میں لے کر جایا کرتے تھے۔ اس لیے مجھے کئی بار جوش ملیح آبادی کو قریب سے سننے کا اتفاق ہوا اور فیض احمد فیض کو بھی، احسان دانش کو سُنا اور حفیظ جالندھری کو دیکھا۔ فہمیدہ ریاض کو سننے سے پہلے، ان کو دیکھنا یاد رہ گیا۔ اس محفل میں کسی نے میرے والد کو ٹوک دیا۔ ”ڈاکٹر صاحب، آپ کو کیا ہوگیا ہے؟ اپنے ساتھ بیٹے کو بھی لے کر آئے ہیں۔ یہ خیال نہیں کہ لڑکے کے اوپر کتنا بُرا اثر پڑے گا؟ “ میرے والد نے تو ہنس کر ٹال دیا۔ مجھے فکر ہوگئی کہ بُرا اثر آخر کس بات کا پڑے گا۔ شعر و شاعری تو میں خوب سُنا کرتا تھا۔ شاید اس کا تعلق اس بات سے ہو کہ میں نے پہلی دفعہ کسی خاتون کو سر محفل سگریٹ پیتے ہوئے دیکھا، وہ فہمیدہ ریاض تھیں۔ سگریٹ کا کوئی اثر یوں نہیں پڑا کہ تھوڑے دنوں بعد دل کے شدید دورے کے بعد میرے والد نے یہ کام یکسر ترک کر دیا جو سارے گھر والوں کے لیے حیرت اور تحسین کا موجب بنا۔ سگریٹ نوشی سے بڑھ کر فہمیدہ ریاض کی شاعری کا اثر ہوا۔

میرے والد ہنستے ہوئے سنایا کرتے تھے کہ یہ نظمیں سُن کر، جن میں ”زُبانوں کا بوسہ“ بھی شامل تھی۔ میں نے ذرا بلند آواز میں پوچھا، ”اور تو باتیں میں سمجھ گیا لیکن یہ زمین دوز ریلوے کیا ہوتی ہے؟ “

وہ بات قہقہوں میں دب گئی، اس لیے اس کا جواب مجھے خود ہی تلاش کرنا پڑا۔ پھر ایک عرصے تک میں اس تلاش میں سرگراں رہا۔ اس وقت کیا معلوم تھا کتنا کچھ زمین دوز ہوتے ہوئے دیکھنے کو ملے گا۔

کراچی کی محفلوں میں فہمیدہ ریاض کو برابر دیکھتا، ان سے بات چیت بھی ہوتی۔ ان کی شاعری نے بہت گہرا تاثر مرّتب کیا تھا۔ لیکن ”بدن دریدہ“ کے بعد ”دھوپ“ کچھ let۔ down سی معلوم ہوئی۔ نیا نیا قلم سنبھالا تھا، اس پر ریویو آرٹیکل لکھا جو حمید زمان صاحب نے ”مورننگ نیوز“ کے صفحات میں شائع کیا۔ کراچی یونیورسٹی میں انجمن طلباء کے منعقد کردہ مشاعرے میں فہمیدہ ریاض کو دھیمے لہجے میں گرج دار نظم پڑھتے ہوئے سنا۔ پھر سمجھ میں آ گیا کہ سرکاری تعلیمی اداروں میں فہمیدہ ریاض کے پڑھنے پر بالخصوص اور مشاعروں پر بالعموم پابندی کیوں لگ گئی۔

پھر سُنا کہ فہمیدہ ریاض ہندوستان چلی گئی ہیں۔ اس پر بہت قیاس آرائیاں ہوئیں۔ تفصیلات آہستہ آہستہ معلوم ہوئیں۔ ان کا حال احوال بھی تھوڑا بہت معلوم ہوتا رہا۔ پہلی بار دہلی جانے کا موقع ملا توکسی نہ کسی خیرخواہ نے سختی سے خبردار کیا، فہمیدہ ریاض سے ملنے کی کوشش مت کرنا۔ ان کی باقاعدہ نگرانی ہوتی ہے اور ان سے ملنے والوں کی انکوائری شروع ہو جاتی ہے۔ دلّی جانے کا ایک بار پھر موقع ملا مگر فہمیدہ ریاض سے ملاقات نہیں ہونے پائی۔

جاسوسی کے خوف سے بڑھ کر ایک اور چیز مانع آگئی۔ ہوا یہ کہ فہمیدہ ریاض نے پاکستانی ادب کے بارے میں انگریزی میں مختصر سی کتاب لکھی جو دلّی سے شائع ہوئی۔ میں مورننگ نیوز سے آگے بڑھ کر ہیرلڈ کے صفحات میں کچھ نہ کچھ لکھنے کی کوشش کرنے لگا تھا۔ رضیہ بھٹّی نے وہ کتاب مجھے تھمائی اورکہا، اس کے بارے میں لکھ دو۔ اس وقت لکھنے کا جوش بھی نیا تھا اور ولولہ بھی۔ میں نے خاصے تیز فقروں کے ساتھ تبصرہ لکھ دیا جو رضیہ بھٹی نے معمولی سی ادارتی ترمیم کے بعد شائع کر دیا۔ یہ تحریر فہمیدہ ریاض تک پہنچ گئی اور ان کی برہمی کی خبر بھی مل گئی۔ مگر درمیان میں ایک سرحد کا فاصلہ تھا۔ میں عافیت میں رہا۔

جلاوطنی کا طویل دورانیہ کاٹ کر فہمیدہ ریاض واپس آئی ہیں تو اس عرصے میں لکھی جانے والی نغموں کا مجموعہ ہم رکاب کے نام سے شائع ہوا۔ کتاب کی تعارفی تقریب آرٹس کاؤنسل میں منعقد ہوئی۔ جہاں تک مجھے یاد ہے، جلسے کے مضمون نگاروں میں میرے چچا انور احسن صدیقی شامل تھے اور کشور ناہید جولاہور سے آئی تھیں۔ میں نے وہ کتاب حاصل کی اور پوری عقیدت کے ساتھ شاعرہ سے دستخط کروا لیے۔ اس کے فوراً ہی بعد فہمیدہ ریاض سے باقاعدہ تعارف ہوا۔ ان کو نام یاد تھا اور ان کے چہرے پر غصّے، ناگواری کی لہر دوڑ گئی۔ ”ایسے جُملے نہیں لکھنے چاہیے تھے۔ “ انہوں نے چھوٹتے ہی اس تبصرے کا حوالہ دیا۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2