پاک ہند اپنے مشترکہ دشمن کو پہچانیں؟


 

آج ارادہ تو سعودی کراؤن پرنس کے دورہ پاک ہند پر لکھنے کا تھا مگر اس خطے میں ایک مرتبہ پھر نفرت اور جنونیت کی جو آندھی اٹھی ہے وہ مجبور کر رہی ہے کہ اس کی جڑوں تک پہنچا جائے۔ اس مردم خیز اور زرخیز سرزمین کی بدقسمتی ہے کہ لاکھوں انسانوں کو اپنے گھروں سے بے دخل کر کے دربدر بھٹکانے اور ذلت کی موت مروانے کے باوجود جنونیت کا طوفان تھم نہیں سکا ہے چار جنگیں لڑنے کے باوجود شاید جنونی اپروچ کو تسکین نہیں مل سکی ہے وہ شاید ناگا ساکی، ہیرو شیما اور یورپ کی دو بدترین جنگوں کے مناظر اس خطے کی تقدیر بنانے کے لیے بے چین ہے جس بربادی کا منظر نامہ دیکھ کر بچ جانے والے روتے ہوئے یہ گنگنا سکیں کہ ”کل چمن تھا آج اک صحرا ہوا، دیکھتے ہی دیکھتے یہ کیا ہوا“۔

سیانے کہتے ہیں برُے تجربے نہ کرو، مشاہدے کر لو۔ آج کے جاپان اور یورپ کو دیکھ لو، آج کا جاپانی ایٹم کے نام سے بھی خوفزدہ ہے آج کا یورپ جنگی جنون سے اس قدر الرجک ہے کہ جرمنی اور فرانس جیسے ازلی ہمسایہ دشمنوں نے اپنے بارڈر کی جان نکال دی ہے اس سانپ کے دانت یوں توڑ دیے ہیں کہ شہریوں کو پتہ ہی نہیں چلتا وہ کب جرمنی سے فرانس میں داخل ہو گئے۔ اس منزل تک پہنچنے کے لیے کیا یہ ضروری ہے کہ ہم بھی ویسے ہی آگ اور خون کے دریا عبور کریں انسانی بربادیوں کا بیوپار کریں اس کے بعد بھی کیا گارنٹی ہے کہ ہماری منتقم مزاجی مزید کتنی نسلوں کو بربادیوں کی بھینٹ چڑھانے کا تقاضا نہیں کرے گی؟

سبق سیکھنے کے لیے کیا پارٹیشن کی تباہ کاریاں کافی نہیں تھیں؟ کیا 65 ء، 71 ء اور کارگل کی معرکہ آرائیاں جو ”ثمرات“ دے کر گئی ہیں سمجھنے کے لیے ان پر گزارا نہیں کیا جا سکتا؟ جس چمنستان کی ڈال ڈال پر کبھی سونے کی چڑیاں چہچہاتی تھیں اقبال کے الفاظ میں ”چشتی نے جس زمیں میں پیغامِ حق سنایا نانک نے جس چمن میں وحدت کا گیت گایا تاتاریوں نے جس کواپنا وطن بنایا جس نے حجازیوں سے دشتِ عرب چھڑایا یونانیوں کو جس نے حیراں کر دیا تھا سارے جہاں کو جس نے علم و ہنر دیا تھا مٹی کو جس کی حق نے زر کا اثر دیا تھا ترکوں کاجس نے دامن ہیروں سے بھر دیا تھا“ آج وہ خطہ ارضی اسلحہ بندی کی مسابقت میں تو ایٹمی ہتھیاروں اور میزائلوں سے بھر چکا ہے لیکن انسانی ترقی و خوشحالی کے حوالے سے کم مائیگی کا جائزہ لیں تو پسماندگی میں شاید افریقہ کو بھی مات دے رہا ہے ہماری جنونیت نے ہر دو ممالک کے کروڑوں باسیوں کی تقدیر میں خوشحالی کی جگہ غربت اور علم و ہنر کی جگہ جہالت جیسی بدنصیبیاں لکھ دی ہیں۔

کیا کوئی ہے جس کو اس خطے کے اصل وارثوں، کروڑوں بدقسمت غریب انسانوں کے دکھوں کا احساس و ادراک ہو؟ کیا اب اپنی انا کی تسکین میں ان بد نصیبوں کو ایٹمی اسلحے اور میزائلوں سے بھون دینا چاہتے ہو؟ اے اس بد قسمت خطے کے اصل حکمرانو! اے جلتی پر تیل ڈالنے والے بد زبانو! کچھ خدا کا خوف کرو کروڑوں ماؤں بہنوں اور معصوم بچوں پر ترس کھاؤ۔

اگر پلوامہ میں خود کش حملے کی واردات ہوئی ہے جس میں درجنوں انسان جلے مرے ہیں تو سب مل کر اس گھٹیا گٹھنا یا دہشت گردی کی مذمت کرو اور حلف اٹھاؤ کہ خود کش حملے یا دہشت گردی جہاں بھی ہو گی جس رنگ روپ میں بھی آئے گی قابلِ مذمت و حقارت ہی ٹھہرے گی۔ برادر مقدس مملکت سعودی عرب کی قیادت نے بھی نئی دہلی میں ٹھیک انہی الفاظ کا چناؤ کیا ہے۔ اگر کوئی ننگی دہشت گردی کے لیے اپنے ذہن میں تحفظات رکھتا ہے تو ایسی بیمار ذہنیت کا علاج حکمت و دانش اور انسان نوازی کے احساسات سے کیا جانا چاہیے اسی طرح اگر کوئی بلا ثبوت دوسرے پر اس کا پورا الزام دھرتا ہے تو اس کا جواب بھی شعوری دلائل سے دیا جانا چاہیے۔

ہر دو اطراف میں کسی کو بھی جنگی جنون پھیلانے کی اجازت نہیں ہونی چاہیے کسی بھی مطلب یا مقصد کے تحت جنگی جنون کو ہوا دینا بھی دہشت گردی کی طرح ہی قابلِ مذمت گردانا جانا چاہیے۔ ہم وزیراعظم نریندر مودی اور ان کی بی جے پی کو توجہ دلانا چاہتے ہیں کہ وہ اپنے جذبات اور زبانوں پر کنٹرول کریں جنگی ماحول کو بڑھاوا دینے سے باز آجائیں ہمارے وزیراعظم نے اگرچہ اچھی تقریر کی ہے لیکن خود کش حملے کی کھلے لفظوں میں مذمت نہ کرنا بھی قابلِ مذمت ہے اس سلسلے میں تحفظات، تاخیر یا سستی کی ستائش نہیں کی جا سکتی۔

جنگ آزادی کے دعویداروں کو بھی صاف بتا دیا جانا چاہیے کہ جس طرح دہشت گردی کو جہاد نہیں کہا جا سکتا اسی طرح ایسی جد وجہد جس میں تشدد اور دہشت گردی کی آمیزش ہو گی اسے آج کی مہذب دنیا کسی بھی دلیل سے قابلِ ہمدردی نہیں سمجھے گی چاہے واویلا کرتے ہوئے آپ کڑھ کر مر جائیں۔ جس کے اپنے پنجے خونخوار ہوں گے وہ کبھی انسانی یا عالمی ہمدردی کے قابل نہیں گردانا جائے گا۔ اس حوالے سے اگر ہم دنیا کو بے وقوف سمجھتے ہیں تو یہ ہماری اپنی حماقت اور ناسمجھی ہے جس طرح سانپوں کے انڈوں سے امن کی فاختائیں پیدا نہیں ہو سکتیں اسی طرح تشدد اور دہشت کی کوکھ سے امن و سلامتی کے بچے پیدا نہیں کیے جا سکتے۔ مت بھولیں کہ تشدد ہمیشہ ایک دوسرے بڑے تشدد کو جنم دیتاہے یہی قانون فطرت ہے۔

درویش بی جے پی کی قیادت اور نظریہ جبر پر یقین رکھنے والوں سے یہ کہنا ضروری سمجھتا ہے کہ عصرِ حاضر جبر دشمن ہے اگر کسی وقت آپ نے جبر سے آواز اعتدال کا گلا گھونٹ دیا تھا تو لازم نہیں کہ یہ نسخہ آج بھی کارگر یا کارآمد ثابت ہو جائے آج جبر سے کوئی باپ اپنے بچوں کو ساتھ نہیں رکھ سکتا چہ جائیکہ لاکھوں انسانوں کو جبری ہتھکنڈوں سے ساتھ لے کر چل سکے۔ آپ نے اگر کسی کو اپنے ساتھ لے کر چلنا ہے تو وہ صرف پیار محبت دلجوئی اور دلنوازی سے ممکن ہے آپ اپنے ناراض بھائیوں کے دکھ درد کو سمجھیں ان کے شکوے شکایات کو نہ صرف سنیں بلکہ ان کا تدارک کریں یہی واحد صورت ہے جس سے آپ اٹوٹ رنگ کے دعوے کر سکتے ہیں یا خطے میں امن و سلامتی لا سکتے ہیں۔

یہی اپروچ اپنے ہمسائے کے لیے بھی اپنائیں۔ اگر دور بیٹھے اس خطے والوں کے ساتھ آپ محبت کا رویہ اپنا سکتے ہیں جہاں سے مسلمانی پھوٹی تھی اور وہ آج آپ کے گھر آکر آپ کو اپنا بڑا بھائی کہہ رہے ہیں تو کیا اسی طرزِ فکر و عمل کا مظاہرہ اپنے ان بھائیوں کے لیے نہیں کر سکتے ہیں جو صدیوں آپ کے ساتھ ایک کنبے کی طرح رہے ہیں؟ اگر پانچ تلخ باتیں ہیں تو پچانوے شیریں یادیں بھی ہیں آپ اپنی کوتاہیوں پر بھی ایک نظر ڈال لیں پلوامہ حملے میں آخر آپ اپنی سیکیورٹی ناکامی کو کیسے نظر انداز کر سکتے ہیں بارود سے بھرا ٹرک پاکستان سے تو نہیں گیا مقامی سطح پر ہی یہ پورا اہتمام ہوا جب یہ ٹرک اپنے ٹارگٹ کی طرف رواں دواں تھا تو روک ٹوک یا چیک کرنے والے ذمہ دار ادارے کے لوگ کہاں تھے؟ دوسروں پر الزام دھرنے سے پہلے خود احتسابی کا جذبہ پیدا کریں مت بھولیں کہ یہ حملہ نہ پہلاتھا اور نہ ہی آخری۔

اپنی اصلی قیادت کی خدمت میں درویش یہ عرض کرنا چاہتا ہے کہ آخرکوئی تو بات ہے دہشت گردی کی واردات کہیں بھی ہو جائے عالمی نگاہیں فوری ہماری طرف ہی کیوں اٹھتی ہیں؟ انڈین ہمسائے تو رہے ایک طرف افغانستان اور ایران جیسے ہمارے مسلم ہمسائے بھی ہمہ وقت کیوں ہم سے شاکی و نالاں ہیں اور تمامتر دہشت گردی کے الزامات ہم پر کیوں عائد کرتے ہیں؟ اندر خانے چین جیسا ہمسایہ بھی ہمیں سنکیانگ کے حوالے سے کیوں بارہا توجہ دلا چکا ہے۔

انتہا پسندانہ سوچوں کے حاملیں آخر ہمارے درمیاں ہی کیوں آسودہ ہیں؟ اقوام ِ متحدہ کو مطلوب وہ کون سی شخصیت ہے جسے ہم با ر بار چین کے ویٹو سے بچا رہے ہیں؟ ایسے ”عظیم لوگوں“ کو پال کر آخر ہم نے دنیا سے کون سا خزانہ نکالنا ہے؟ اپنے تمام تر وسائل جھونک کر ستر سالوں میں جو مدعا ہم حاصل نہیں کر سکے الٹے آدھا ملک ہم گنوا بیٹھے آگے چل کر کیا نکال لیں گے؟ کیا بہتر نہیں ہے کہ ہم احمقوں کی جنت سے نکل کر حقائق کی دنیا میں آجائیں اور جو کچھ میسر و موجود ہے اُسے بنانے کی تگ و دو کریں آپ نے جماعتہ الدعوہ اور فلاح انسانیت فاؤنڈیشن جیسی شدت پسند تنظیموں پر پابندی لگا کر یقینا مستحسن اقدام اٹھایا ہے جس کی ستائش کی جانی چاہیے لیکن یہ جائزہ بھی لینا چاہیے کہ سانحہ پشاور کے بعد ہم نے شدت پسندی کے خلاف جس نیشنل ایکشن پلان پر ایکا کیا تھا اس پر عمل کرنے میں کیوں ناکام رہے؟

ہم نے کالعدم لشکروں یا جیشوں کو نام بد ل کر کام کرنے کی اجازت کیوں دی؟ جن کے متعلق ہمارے کئی فوجی جرنیل بشمول پرویز مشرف، جنرل حمید گل اور جنرل اسد درانی بھارتی میڈیا کے سامنے بہت کچھ اظہارِ خیال کر چکے ہیں جنرل پرویز مشرف تو انڈین میڈیا کے سامنے یہاں تک کہہ چکے ہیں کہ مجھ پر قاتلانہ حملہ بھی حبشِ محمد نے کروایا تھا۔

درویش کی دانست میں پاکستان اور انڈیا میں بسنے والے ڈیڑھ ارب انسانوں میں سے شاید 5 فیصد بھی شدت پسندانہ سوچ کے حاملین نہیں ہوں گے 95 فیصد سے زائد انسان پیا ر محبت، امن اور دوستی پر یقین رکھتے ہوئے ترقی، خوشحالی اورا ستحکام کے متلاشی اور لبرل سوچ کے حاملین ہیں لہٰذا وہ ایک دوسرے کے خلاف بولنے کی بجائے اپنی صفوں میں موجود شدت پسندی کے مائنڈ سیٹ کی مرمت کریں یہ وہی مائنڈ سیٹ ہے جس نے مہاتما گاندھی شریمتی اندرا گاندھی اور راجیو گاندھی کو قتل کیا جس نے محترمہ بے نظیر بھٹو اور ان کے والد کی جان لی۔ ہم تشدد پر یقین و ایمان رکھنے والی اس منفی ذہنیت کو ماریں۔ مل جل کر اس غیر انسانی سوچ یا اپروچ کا خاتمہ کریں تو جنگی جنون یا نفرت و دشمنی کا ازخود خاتمہ ہو جائے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).