جنگ کے موسم میں تاریخ کا پہلا ڈرافٹ


ہمارے ہاں اکثر لوگ تنازعات کے ایسے حل کو ناقابلِ حصول آئیڈیل یا دیوانے کی بڑ قرار دیں گے مگر ایسے ہی حل کی ایک مثال حجراسود نصب کرنے کے مسئلے پر اسلامی تاریخ میں بھی ملتی ہے۔ اسلامی تاریخ میں دل چسپی رکھنے والے جانتے ہیں کہ پیغمبر اسلام نے چار قبائل کے مابین حجر اسود نصب کرنے کے تنازعے کو کچھ ایسے تخلیقی انداز میں حل کیا کہ ایک کی فتح، ایک کی جیت دوسرے کی بھی جیت بن گئی۔ ہمارے ہاں مذہبی تاریخ بھی عام طور پر ثواب یا پھر عسکری و تزویراتی غرض سے لکھی اور پڑھائی گئی ہے لیکن اس سے تنازعات کے حل، زندگی کی مہارتوں، سماجی جڑت اور دیگر علوم کے لئے اصول اخذ نہیں کیے جاتے وگرنہ تنازعات کا ایسا حل جو اس واقعے سے سامنے آتا ہے اس حقیقت کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ اگر انفرادی و گروہی سطحی پر تعلقات اور تنازعات کو کھیل سمجھ لیا جائے (جیسے روایتی صحافت میں سمجھا جاتا ہے ) تو پھر آپ یا تو جیت سکتے ہیں یا پھر ہار سکتے ہیں اور یوں ایک شخص یا گروہ کی جیت کسی دوسرے شخص یا گروہ کی ہار سے مشروط ہوگی۔

ہار جیت پر بنیاد رکھنے والی دنیا میں ہر شخص اور گروہ یہ کوشش کرے گا کہ اُسے کبھی شکست کا ذائقہ نہ چکھنا پڑے اور وہ دنیوی تگ و تاز کو ”زیرو سم گیم“ (zero۔ sum game) یا پھر ایسی صورتِ حال سمجھے گا جس میں وسائل محدود ہیں اور زیادہ سے زیادہ وسائل ہتھیانے کے لئے کسی کا حق چھیننا یا کسی کو اس کے جائز حق سے محروم کرنا لازم ہے۔ یوں دنیا اس جڑت سے محروم ہوجائے گی جس سے جنگی صحافت کو سنجیدہ لینے والے محروم ہوجاتے ہیں۔

روایتی صحافت اور امن کی صحافت میں دوسرا بڑا فرق یہ ہے کہ اول الذکر میں میں عام طور پر تنازعات کی اصل وجوہات کو دھند میں ملفوف کرنے کے لئے انہیں بلند بانگ موقف اور دعوؤں کے بظاہر خوبصورت نقاب میں چھپایا جاتا ہے اور ثانی الذکر میں تنازعات سے ایسی دعوؤں کی گرد ہٹا کر انہیں شفاف بنایا جاتا ہے۔

ایسے موقف اور دعوؤں کی واضح مثال مذہبی اخبارات میں ملتی ہے جن میں مذہبی سیاسی و عسکری جماعتیں اپنا موقف اس طرح پیش نہیں کرتیں کہ انہیں اقتدار میں حصہ چاہیے بلکہ یہ کہتی ہیں کہ وہ خُدا کی زمین پر خُدا کی حکمرانی چاہتی ہیں۔ ایسی صورتِ حال میں امن کار صحافی کا کام یہ ہوتا ہے کہ وہ انٹرویوز کے ذریعے سیاسی جماعتوں اور حکومتوں کے اس قسم کے دعوؤں اور موقف کے پیچھے چھپے مفادات (جو بہت حد تک جمہوری ریاستوں میں جائز ہوسکتے ہیں ) کو شفاف بنائے اور ایسی جماعتوں کو غیر واضح اور لوگوں کو جذباتی بنانے والے موقف پیش کرنے سے باز رکھ کر کوئی زمینی منصوبہ پیش کرنے پر تیار کرے۔ یوں عام انتخابات کے دوران شفاف کاری (crystallization) کے اس عمل کی ایک مثال یہ بھی ہوسکتی ہے کہ امن کار نامہ نگار سیاسی جماعتوں کے موقف اور منشور کو شفاف بنانے کے لئے کام کریں۔

مثال کے طور پر ہمارے ہاں اکثر سیاسی جماعتیں اس قسم کے نعروں کے ذریعے ووٹ ہتھیانے کی کوشش کرتی ہیں کہ ’ہمارامنشور قرآن ”یا پھر“ ہمیں ووٹ دے کر جنت کمائیں ”۔ ہمارے ہاں یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ دیہی علاقوں میں انتخابات کے دوران ایسی افواہیں عام اور سادہ دیہاتی لوگوں میں پھیلا دی جاتی ہیں کہ اگر وہ انتخابات میں حصہ لینے والے کسی پیر یا گدی نشین کو ووٹ نہیں دیں گے تو ان بھینسیں دودھ دینا بند کردیں گی۔

انتخابات کے دنوں میں سیاسی جماعتوں کے منشور کی شفاف کاری سے سب سے بڑا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ سیاسی جماعتوں کے اقتدارمیں آنے کے بعد ان کا احتساب آسان ہوجاتا ہے۔ جماعتیں زمینی و ترقیاتی منصوبے پیش کرتی ہیں تو بعد ازاں ان کی کارکردگی کی قدر پیمائی (evaluation) ممکن ہوتی ہے وگرنہ زمین پر خُدا کی حکومت، قرآن ہمارا منشور، ووٹ کے بدلے جنت، دیگر جماعتوں کے خلاف انتقامی جذبات اور بھینسوں کے دودھ نہ دینے کے ہوائی دعوؤں کو ہی سب کچھ مان لیا جائے تو جماعتوں کی کارکردگی کی پیمائش ممکن نہیں رہتی۔

منشور اور منصوبوں کی شفاف کاری سے بعد از انتخابات تنازعات سے بچا جاسکتا ہے، لوگوں کا معیارِ زندگی بلند کرکے معاشرے سے جرائم اور تشدد کے واقعات میں کمی لائی جاسکتی ہے۔ یہاں پر واضح رہے کہ امن کار صحافی کا کام نہ صرف انتخابات کے دنوں میں شفاف کاری ہے بلکہ وہ ریاستی ایجنڈے پر بھی گہری نظر رکھتا ہے کہ کہیں ریاستی ادارے کوئی ایسا ایجنڈا تو پیش نہیں کررہے جس کا مقصد کسی سیاسی و تزوایراتی مفاد کو بڑے بڑے نعروں کے پیچھے چھپا کر لوگوں کو بے وقوف اور جذباتی بنانا ہے۔

جہاں روایتی صحافت میں ایک فریق کی تباہی پر جشن منایا جاتا ہے، یہاں تک کہ سویلین آبادیوں میں ہونے والے نقصان پر بھی خوشی منائی جاتی ہے اور اپنے ساتھ ہونے والے ظلم کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا جاتا ہے وہاں امن کار صحافت تنازعہ کے ایک فریق کی بجائے دونوں فریقین کی آواز بنتی ہے۔ پرتشدد تنازعات کا شکار بننے والوں کے لئے درمندی، ہم دلی (empathy) اور ہمدردی کے جذبات پیدا کرتی ہے اور یہ کوشش کرتی ہے کسی فریق کے تشدد کا شکار ہونے والے لوگوں کو انسانوں کے درجے سے گرانے (dehumanize) کی زہریلی کوشش نہ کی جائے اور نہ ہی ایک فریق کو مطلق خیر اور دوسرے کو مطلق شر قرار دیا جائے۔

پرتشدد تنازعات اور جنگ کے دوران عام طور پر روایتی صحافت کا فارمولا ”ہم بمقابلہ وہ“ یا پھر ”حق بمقابلہ باطل“ ہوتا ہے اور یہ اصول پہلے سے طے ہوتا ہے کہ ہر فریق کے صحافی نے صرف اپنے فریق کی وکالت کرنی ہے اور یہاں تک کہ مظالم اور زیادتی کے حق میں بھی جذباتی دلائل تراشنے ہیں۔ اس کے علاوہ روایتی صحافت رپورٹنگ سے قبل تشدد کے واقعات کی منتظر رہتی ہے جب کہ امن کار صحافت تشدد کے واقعات کی پیشگی روک تھام کی کوشش کرتی ہے۔ اس لئے ہم کہہ سکتے ہیں کہ روایتی صحافت ردِ عمل (reaction) پر مبنی ہوتی ہے اور امن کار صحافت تشدد کی روک تھام کے لئے پیش عملی (pro۔ action) پر یقین رکھتی ہے۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3