جنگ کے موسم میں تاریخ کا پہلا ڈرافٹ


روایتی صحافت فریق ِ مخالف کو انسانیت کے د رجے سے گرا کر شیطان کے روپ میں پیش کرتی ہے (demonize) ہے جب کہ امن کار صحافت دونوں فریقین کو سہو و خطا کا کی صلاحیت رکھنے والے انسانوں کے گروہوں کے طور پر پیش کرتی ہے۔ روایتی صحافت اپنے گروہ کے سبھی لوگوں کو خطاؤں سے پاک فرشتے قرار دیتی ہے اور فریق ِ مخالف کے سبھی لوگوں کو شیطانوں اور شرانگیزوں کا ٹولہ۔ اس کے برعکس امن کار صحافت حقیقت پسندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس حقیقت کو تسلیم کرتی ہے کہ انسانی گروہوں میں کوئی ایک گروہ شر کا اور دُوسرا خیر کا ٹھیکہ دار نہیں ہوسکتا۔ دونوں فریقین میں کچھ لوگ شر پسند اور کچھ امن پسند لوگ موجود ہیں۔ اس طرح روایتی صحافت جہاں ایک طرف کے جھوٹ اور افواہوں کا پول کھولنے اور دوسری طرف افواہیں اور جھوٹا پروپیگنڈا پھیلا رہی ہوتی ہے امن کار صحافت دونوں اطراف کی افواہوں کا پول کھولنے کا کام کرتی ہے۔

جنگ اور پرتشدد تنازعات کے دوران دیکھا جاتا ہے کہ روایتی صحافت عام طور پر تشدد کے رویت پذیر یا دکھائی دینے والے (visible) واقعات پر نظر رکھتی ہے۔ مثال کے طور پر روایتی صحافی آپ کو صرف یہ بتاتا ہے کہ فلاں واقعے میں کتنے لوگ ہلاک یا زخمی ہوئے اور اس قدر مالی نقصان ہوا۔ امن کار صحافی اس کے ساتھ ساتھ تشدد کے ان اثرات پر بھی نگاہ رکھتا ہے جو انسانی اور کیمرے کی آنکھ کو بھی دکھائی نہیں دیتے یا پھر نظر انداز کردیے جاتے ہیں۔

تشدد کے دکھائی نہ دینے والے اثرات میں گہرے صدمات، نفسیاتی زخم، شناختی گھاؤ، ثقافتی تخریب کاری اور انسان کے لطیف اثاثوں اور فنون کو لاحق ہونے والے نقصانات شامل ہیں۔ اس لئے جہاں روایتی صحافت جنگ یا پُر تشدد تنازعات کے اثرات کو اُوپر اُوپر سے، ظاہری، سطح بین اور طائرانہ نگاہ (bird ’s eye) سے دیکھتی ہے وہاں امن کار صحافت ان واقعات کے اثرات کو اندر سے، داخلی اور گہری انسان دوست نظر سے دیکھتی ہے جیسے مچھلی پرندے کے برعکس سمندر کو اندر سے دیکھتی ہے۔ امن کار صحافی کی آنکھ پرندے کی نہیں مچھلی کی آنکھ (fish eye) ہوتی ہے۔ روایتی صحافی روایتی و سطحی مورخ جیسا ہے جو صرف یہ بتاتا ہے کہ فلاں جنگ یا فلاں پرتشدد واقعہ ہوا۔ امن کار صحافی موشگاف ادیب جیسا ہے جو یہ بتاتا ہے کہ مذکورہ جنگ اور پرتشدد واقعے کا شکار ہونے والوں پر کیا گزری۔

جنگ اور پرتشدد واقعات کا شکار ہونے والوں کے صدمات، ان کی لطیف نفسیات اور جذبات پر پڑنے والے گہرے گھاؤ منظرِ عام پر لانے کی وجہ سے امن کار صحافت انسان دوست ہوتی ہے جبکہ روایتی صحافت با اختیار اور مفاد یافتہ گروہوں کی زبان اور ہیت مقتدرہ (establishment) کے اختیارات و مفادات کی محافظ۔ اس لئے اول الذکر طرزِ صحافت کی توجہ کا مرکز وہ لوگ ہوتے ہیں جو جنگی جنون کے نقار خانے میں امن کی بات کررہے ہوں۔

آخر میں امن کار صحافت اور روایتی صحافت کے مابین فرق یہ بھی ہے کہ روایتی صحافی اس غلط فہمی کا شکار ہوتا ہے کہ جنگ کا نتیجہ ایک فریق کی فتح اور دوسرے کی شکست کی صورت میں نکلتا ہے۔ روایتی صحافی یہ سمجھتا ہے کہ امن کا مطلب فتح یاپھر جنگ بندی ہے۔ اس کے برعکس امن کار صحافی اس واضح حقیقت کو تسلیم کرتا ہے کہ جنگ باہمی تباہی اور امن کا مطلب عدم تشدد اور تنازعات کا پائیدار حل ہے۔ اس لئے امن کار صحافی امن کی اس تعریف کی روشنی میں اٹھائے گئے قیامِ امن کے اقدامات پر اپنی بھرپور توجہ مرکوز رکھتا ہے۔

اس کے برعکس روایتی صحافی ایسے اقدامات کو دھند میں لپیٹنے کی کوشش کرتا ہے۔ اس کی کوشش ہوتی ہے کہ تاریخ کا پہلا ڈرافٹ ہی کچھ یوں مرتب کرے جس میں عدم تشدد اور تنازعات کے پائیدار حل کی بات کرنے والے تاریخ میں زندہ نہ بچ پائیں جبکہ امن کار انہیں تاریخ میں دوام بخشنے کی کوشش کرتا ہے تاکہ ایسے پرامن اقدامات ہر دور کی مثل اور مشعل راہ بن سکیں۔ یہاں پر یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ روایتی صحافی کی کوشش ہوتی ہے کہ تاریخ کا پہلا ڈرافٹ کچھ ایسے لکھا جائے جو آئندہ پرتشدد واقعات یا پھر جنگوں کی راہ ہموار کرسکے جبکہ امن کار تعاون پر مبنی نئی تاریخ کا وہ ڈرافٹ لکھتا ہے جو لوگوں پر نرمی اور مسائل پر سختی کا فن سکھا کر پائیدار امن کی راہیں روشن کرے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3