نانا جان، مولانا یوسف لدھیانوی اور مولانا مسعود اظہر


سنہ 1976 کا سال تھا۔ مغرب ہو چکی تھی۔ گھر کے باہر سیڑھیوں پر بیٹھا تھا کہ یکے بعد دیگرے دو ٹرک گلی میں داخل ہوئے اور گھر کے سامنے رک گئے۔ مزدور سامان اتار کر گھر میں لے جانے لگے۔ معلوم ہوا کہ ڈومیلی میں مقیم نانا جان اور نانی جان نے بغرض علاج معالجہ نانی جان کراچی میں مستقل رہائش کا فیصلہ کیا ہے۔ ناناجان ہمارے والد مرحوم کے سگے ماموں اور امی کے سگے خالو تھے۔ اس لیے رہائش کے لیے ہمارے گھر کو رونق بخشنے کا فیصلہ کیا۔

نانا جان ڈومیلی میں ہائی سکول کے ہیڈ ماسٹر رہ چکے تھے اور جامع مسجد کے امام و خطیب بھی تھے۔ آپ مولانا اشرف علی تھانوی رحمتہ اللہ علیہ کے خلیفہ مجاز صحبت اور مولانا عبد المالک رحمتہ اللہ علیہ (احمد پور شرقیہ) کے خلیفہ مجاز بیعت و تلقین تھے۔ نانا جان کی آمد سے گھریلو ماحول پر واضح فرق پڑا۔ نانا جان مرحوم کے زہد و تقوی کے حوالے سے نانی اور دادی اماں پہلے ہی بتا چکی تھیں۔ حقیقت تو یہ ہے کہ نانا جان کے زہد و تقوی کے حوالے سے کچھ گوش گزار کیا جائے تو قارئین کی اکثریت دانتوں تلے انگلی دبا لے۔ سیاست کے ساتھ گھر کے بڑوں میں دینی موضوعات پر بھی گفت و شنید کا آغاز ہو گیا۔ بہشتی زیور پڑھ کر جوانی کی دہلیز پر قدم رکھنے سے پہلے ہی ذہنی طور بالغ ہو چکے تھے اور بہشتی زیور کے باب شادی بیاہ کی رسومات اور طہارت کے مسائل بہت ذوق و شوق سے پڑھتے تھے۔

سنہ 1978 میں مولانا محمد یوسف لدھیانوی نے روز نامہ جنگ کے صفحہ اقراء میں ”آپ کے مسائل اور ان کا حل“ کے عنوان سے سائلین کے سوالات کا جواب دینے کا آغاز کیا تو نانا جان مرحوم نے اس سلسلے کو پسند کیا۔ اب باقاعدگی سے اس سلسلے کو پڑھنا شروع کر دیا۔ گو کہ عمر تو اس وقت محض 14 سال تھی لیکن 1970 اور 1977 کے عام انتخابات، ان کے نتائج اور اس کے بعد پیدا ہونے والے واقعات اور سانحات ازبر تھے، چونکہ گھر کا ماحول کسی حد تک سیاسی، علمی و ادبی تھا۔

بی بی سی کا پروگرام سیربین اور حامد میاں کے یہاں گھر کے بڑے بہت ذوق و شوق سے سنتے تھے۔ اخبار، اخبار جہاں، اخبار خواتین اور بچوں کے رسالے نونہال وغیرہ پڑھنا بھی چھوٹوں بڑوں کا معمول تھا۔ بچپن اور لڑکپن سے ہی ابن انشا، مشتاق احمد یوسفی، کرنل شفیق الرحمن اور محمد خان کی کتابیں پڑھنے کا موقع ملا گو کہ پڑھنا علم کے حصول کے لیے نہیں، محض تفریح طبع کے لیے ہوتا تھا۔

قصہ مختصر مولانا محمد یوسف لدھیانوی شہید کے خاموش قاری و عقیدت مند یونے کے با وجود مذہب سے کوسوں دور تھے۔ نہ ان سے کبھی ملاقات کا شوق چرایا اور نہ کسی سے ان کے ساتھ غیبی عقیدت کا تذکرہ کیا۔ جب عمر عزیز کے 29 سال پورے ہوئے تو کچھ ذاتی وجوہ کی بنا پر چھوٹی خالہ مرحومہ کے گھر رہائش اختیار کی۔ خالہ مرحومہ کے رہائشی بلاک کی جامع مسجد میں جمعہ پڑھا لیکن بات کچھ جمی نہیں۔ کزن سے کہا، اگلا جمعہ کہیں اور پڑھیں گے۔ اگلا جمعہ جس مسجد میں پڑھا وہاں کے مولوی صاحب کی تقریر و خطبے کا انداز نہایت سادہ تھا، جو دل کو بھا گیا۔ مولوی صاحب کے متعلق معلومات کیں تو پتا چلا کہ مولانا محمد یوسف لدھیانوی ہیں۔

بس اب اسی مسجد میں نماز پڑھنی شروع کی اور مولانا شہید سے مناسبت اس حد تک بڑھی کہ ان کا کرایہ دار رہنے کا شرف بھی حاصل ہوا۔ جب مکان کرائے پر لے لیا تو پتا چلا کہ مولانا شہید کا مکان ہے۔ ایڈوانس کی رقم قرض لے کر ادا کی تھی۔ پڑوس کی خواتین ملنے آئیں تو بیگم اور امی سے کہا کہ آپ خوش نصیب ہیں جو اس مکان میں رہنا نصیب ہوا۔ یہاں کا کرایہ دار جب یہاں سے جاتا ہے تو اس کا اپنا مکان ہوتا ہے۔ میں یہ سب سن کر چپ رہا، کہتا بھی کیا اور بتاتا بھی کیا، چونکہ ایڈوانس کی رقم تک تو قرض لے کر پوری کی تھی۔ بہرحال اس گھر میں رہائش اختیار کرنے کے دو سال بعد ذاتی رہائش کا خواب پورا ہوا۔ یہ سب کب اور کیسے ہوا، موقع ملا تو تفصیل پھر کبھی سہی۔

جب مولانا شہید سے عرض کیا کہ ذاتی رہائش کا بندوبست ہوگیا ہے اور منتقل ہونے کا ارادہ ہے تو فوری رد عمل اور سوال تھا کہ کیا قریب میں کوئی مسجد ہے؟ عرض کیا جی مسجد بطحی ہے۔ منتقلی کے بعد مسجد بطحی میں فجر کی نماز کے بعد تلاوت قرآن میں مشغول تھا کہ مسجد کمیٹی کے صدر تشریف لائے اور مسجد کمیٹی کا ممبر بننے کا کہا۔ مشورہ کر کے جواب دینے کا کہا اور مولانا شہید کی اجازت سے مسجد کمیٹی کا ممبر بننے کی ہامی بھر لی۔ چند دن بعد اراکین کمیٹی نے صدر کی ذمے داری سونپ دی۔ جب مسجد کے معاملات کا جائزہ لیا تو جہاں معاملات میں شفافیت نہیں تھی، وہیں مسجد کی تعمیر بھی عارضی بنیادوں پر ہوئی تھی۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3