بریگیڈیئر ریٹائرڈ اسد منیر بنام ریاست


قومی احتساب بیورو یعنی نیب کا قیدی میاں جاوید اقبال، سرگودھا یونیورسٹی لاہور کیمپس کا سابق چیف ایگزیکٹو، جس کی لاش کو لگی ہتھکڑیاں حساس دلوں کی دھڑکنوں کو آج بھی اتھل پتھل کر دیتی ہیں۔

الزام: یونیورسٹی کے نئے کیمپس کھول کر لوٹ مار
کیا الزام ثابت ہوا؟ تاحال جواب نامعلوم

پنجاب یونیورسٹی کے 80 برس کے اساتذہ کی ہتھکڑیاں
الزام ثابت ہوا؟ نہیں معلوم
سابق وائس چانسلر پنجاب یونیورسٹی مجاہد کامران اساتذہ کی ایڈہاک تقرریوں کے الزام میں گرفتار تھے۔

دورانِ حراست ان کی زبانی کہانیاں سنیں تو یقین نہیں آیا کہ یہ وہی مملکت خداداد ہے جس کا نظام اسلامی ہے، آئین بنیادی حقوق کی پاسداری کا یقین دلاتا ہے، ’انصاف کا بول بالا‘ کے نعرے لگائے جاتے ہیں۔

حالت یہ ہے کہ لاشوں کو ہتھکڑیاں لگا کر ہسپتالوں میں بھیجا جاتا ہے اور محض الزام کی بنیاد پر عزتوں کا جنازہ نکالا جاتا ہے۔
مجاہد کامران صاحب بتاتے ہیں کہ سرگودھا یونیورسٹی کے پروفیسر صاحب سے 25 سال کا افسر مخاطب تھا اور کہہ رہا تھا ’میں تمہارا مار مار کر بھرکس نکال دوں گا۔‘
جواب میں پروفیسر صاحب صرف اتنا ہی کہ سکے ’آپ کا انداز گفتگو مناسب نہیں ہے۔‘

مجاہد کامران بتاتے ہیں کہ نیب کی حراست میں نندی پور میں محض ایک ماہ کام کرنے والا ڈرائیور بھی تھا جس نے اپنے موبائل سے آئل کی چوری کی ویڈیو بنائی اور الٹا اس معاملے میں اسے ہی اندر کرا دیا گیا۔

مجاہد کامران کہتے ہیں کہ انھیں نہیں معلوم کہ انصاف ملے گا یا نہیں۔
بہرحال، انھیں انصاف کی کوئی توقع بھی نہیں ہے۔

نون لیگ کے رہنما راجہ قمر الاسلام پر صاف پانی منصوبے میں مقدمہ کیا گیا اور عین انتخابات سے 30 دن قبل نیب نے انھیں گرفتار کر لیا۔
راجہ قمر الاسلام کا عام انتخابات میں نون لیگ کے کسی وقت کے طاقتور ترین رہنما چوہدری نثار سے مقابلہ تھا۔ ان کی ضمانت آٹھ ماہ بعد عمل میں آئی۔

عدالت نے فیصلے میں لکھا کہ یہ ثابت نہیں ہو سکا کہ راجہ قمرالاسلام کے یا ان کے کسی رشتے دار کے اکاؤنٹ میں کوئی رقم منتقل ہوئی ہو۔ مزید برآں متعلقہ ٹھیکہ بھی بورڈ آف گورنرز کی رضامندی سے عطا کیا گیا۔
رہائی کے بعد راجہ قمر السلام یہ سوال کرتے دکھائی دیتے ہیں کہ گذشتہ آٹھ ماہ کی قید اور اُن کی عزت اور ساکھ کا حساب کون دے گا؟

بریگیڈیئر ریٹائرڈ اسد منیر دو سال سے نیب کی انکوائری بھگت رہے تھے۔ ان کے خاندان کے بقول جمعرات کی شب ٹی وی پر چلنے والے ٹکرز سےانھیں پتہ چلا کہ ان کے خلاف نیب کا ریفرنس دائر کیا جا رہا ہے، جو اُن کی خودکشی کا باعث بنا۔

بریگیڈیئر ریٹائرڈ اسد منیر اس قدر عزت دار شخص تھے کہ اُن کا نام گذشتہ دو سال سے محض الزام کی بنیاد پر ای سی ایل پر ڈالا گیا تو اس بات کا تذکرہ بھی انھوں نے سوائے اپنی اہلیہ اور بیٹی کے کسی سے نہیں کیا۔

خاندان کے مطابق دو واقعات نے اسد منیر کو بے حد بے چین کر دیا تھا۔
ایک انکوائری کے دوران سابق چیئرمین سی ڈی اے سے بدتمیزی اور دوسرا ممبر فنانس سی ڈی اے کے ساتھ نیب اہلکاروں کا رویہ۔

اور پھر خود ۔۔۔ دوران تحقیق نیب کی ایک خاتون افسر جو سلجھی ہوئی تھیں اور گفتگو کے دوران نرم لہجہ اختیار کرتی تھیں، بریگیڈیئر ریٹائرڈ اسد منیر نے ان سے پانی مانگا۔
جواب میں نیب کا ایک نوجوان افسر جس طرح اُن سے پیش آیا، وہ اُس رات سو نہیں سکے۔

عزت نام اور مرتبے کے ساتھ زندگی گزارنے والے بریگیڈیئر ریٹائرڈ اسد منیر نہیں چاہتے تھے کہ اُن کے ہاتھوں میں ہتھکڑیاں لگیں، ان سے بہت جونیئر ان سے بدتمیزی کریں، یا انھیں اور ان کے خاندان کو بقیہ ساری زندگی اپنی بے گناہی کی قسمیں کھانی پڑیں۔

انھیں انصاف کی توقع نہیں تھی اسی لیے موت کو گلے لگایا، تاکہ ان کی بے گناہی کی تحقیقات ہو سکیں۔

سوال یہ نہیں کہ احتساب نہ ہو، سوال یہ ہے کہ احتساب بلا تفریق اور شفاف ہو۔
سوال یہ بھی ہے کہ محض الزام کی بنیاد پر گرفتاری اور اس کے بعد تحقیقات، یہ کیا قانون ہے اور یہ کہاں کا انصاف ہے؟
سوال یہ بھی ہے کہ الزام لگنے کے بعد اور تحقیقات ہونے سے قبل میڈیا ٹرائل کیوں؟

سوال یہ بھی ہے کہ شور مچانے والی سیاسی جماعتوں نے یہ قانون کیوں نہ بدلا؟
سوال یہ بھی ہے کہ کیا موجودہ حکومت بھی اس قانون کو تبدیل نہیں کرے گی؟
سوال یہ بھی ہے کہ کیا اسد منیر کو انصاف ملے گا اور جس مقصد کے لیے اسد منیر نے جان دی ہے وہ حاصل ہو گا؟

سوال بہت سے ہیں ۔۔۔ مگر جواب شاید کسی کے پاس نہیں۔
اب بھی وقت ہے کہ حکومت اور اپوزیشن نیب قوانین میں تبدیلی عمل میں لائیں، ورنہ خدانخواستہ تاریخ خود کو دہرا بھی سکتی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).