ناقابل اشاعت کالم: نواز شریف، اپنا اپنا ظرف


پہلا منظر : 27 دسمبر 2007۔ عام انتخابات سے قبل اس دن صحافتی ذمہ داریوں کی ادائیگی کے لیے میں بھی مسلم لیگ ن کے سربراہ نواز شریف کی جہلم سے راولپنڈی کی طرف رواں دواں انتخابی ریلی کے ہمراہ تھا۔ ریلی ابھی راولپنڈی کے ایک گنجان بازار میں داخل ہی ہوئی تھی کہ نواز شریف کو اپنی سب سے بڑی انتخابی حریف محترمہ بے نظیر بھٹو پہ لیاقت باغ میں قاتلانہ حملے کی اطلاع مل گئی۔ نواز شریف نے فوری طور پہ ریلی منسوخ کرتے ہوئے راولپنڈی جنرل اسپتال کا رخ کیا۔

ہم بھی ان کے پیچھے بھاگتے ہوئے اسپتال پہنچے جہاں پیپلز پارٹی کے کارکنان اور رہنماؤں کی بڑی تعداد موجود تھی۔ نواز شریف کو سیکیورٹی خطرات کے باعث متعلقہ اداروں کی طرف سے اسپتال سے فوری جانے کی ایڈوائس کی گئی تاہم انہوں نے جانے سے انکار کر دیا۔ اسی دوران ڈاکٹروں نے عالم اسلام کی عظیم لیڈر بے نظیر بھٹو کی شہادت کی تصدیق کی تو ہم نے دھاڑیں مارتے جیالوں کے ساتھ نواز شریف کو بھی ہچکیاں لیتے اپنی آنکھوں سے دیکھا۔ صرف یہی نہیں بلکہ نواز شریف نے غم سے نڈھال پیپلز پارٹی کے کارکنوں کو نہ صرف دلاسہ دیا بلکہ وہیں کھڑے انہوں نے شہید بی بی کے قتل کے ذمہ داران کو کیفر کردار تک پہنچانے کا وعدہ بھی کیا۔

گزشتہ روز اسی شہید بی بی کے بیٹے اور پیپلز پارٹی کے چئیرمین بلاول بھٹو زرداری نے کوٹ لکھپت جیل میں قید نواز شریف کی عیادت کر کے نہ صرف اس قرض کو چکا دیا بلکہ مریم نواز کے سوشل میڈیا پہ شکریہ ادا کرنے پہ یہ جواب دے کر کہ ”ہم شرافت اور انسانیت سے جڑی روایات کی پاسداری کرسکتے ہیں اور ہم سب پہلے انسان اور اس کے بعد سیاست دان ہیں“ ملکی سیاست میں اخلاقیات۔ وضع داری اور بردباری کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑنے کا سبق بھی دے دیا۔

دوسرا منظر : 7 مئی 2013۔ عام انتخابات سے صرف تین دن قبل انتخابی مہم کے آخری مرحلے میں نواز شریف راولپنڈی میں ہی موجود تھے۔ یہ حسن اتفاق تھا کہ اس روز بھی صحافتی فرائض کی ادائیگی کے لیے میں اس جلسے کی کوریج پہ مامور تھا۔ نواز شریف نے لیافت باغ میں جلسہ عام سے خطاب شروع ہی کیا تھا کہ انہیں اطلاع ملی کی اس بار ان کے سب سے بڑے انتخابی حریف عمران خان لاہور میں انتخابی ریلی کے دوران گر کر شدید زخمی ہو گئے ہیں جنہیں اسپتال لے جایا گیا ہے۔ نواز شریف نے جوش سے بھرپور نعرے لگاتے کارکنوں کو مخاطب کرتے اس افسوسناک واقعے کے بارے میں بتایا اور ساتھ ہی اپنا خطاب ختم کرنے اور عمران خان سے اظہار یک جہتی کے لیے اگلے روز کی انتخابی سرگرمیاں معطل کرنے کا اعلان کیا۔

اس دوران ان کے یہ الفاظ آج بھی رکارڈ کا حصہ ہیں کہ ”بطور انسان ہمارے دل نرم ہیں اور ہمیں دشمنوں کا بھی خیال رکھنا چاہیے“ یہی نہیں انہوں نے مسلم لیگ ن کے کارکنوں کو عمران خان کی جلد صحتیابی کے لیے دعا کرنے کی بھی ہدایت کی۔ اسی دوران نواز شریف نے لاہور میں موجود اپنے چھوٹے بھائی شہباز شریف کو فوری طور پر عمران خان کی صحت بارے جاننے کے لیے اسپتال پہنچنے کی ہدایت کی۔ اس کے بعد وہی نواز شریف عام انتخابات کے فوری بعد پندرہ مئی کو شوکت خانم اسپتال پہنچا جہاں اس نے نہ صرف بیڈ پہ لیٹے عمران خان کی عیادت کی بلکہ ان کا ہاتھ پکڑ کر کہا کہ آپ جلدی سے صحت یاب ہو جائیں پھر آپ سے فرینڈلی میچ کھیلیں گے۔ اس موقع پہ نواز شریف نے عمران خان کو خیبر پختونخوا میں پاکستان تحریک انصاف کی کامیابی جبکہ عمران خان نے انہیں پنجاب اور دیگر علاقوں میں کامیابی پہ مبارک باد بھی پیش کی۔ نواز شریف نے ملک کی ترقی اورعوامی مسائل کے حل کے لیے آئندہ بھی مل کر چلنے کے عزم کا اظہار کیا اوراسپتال سے رخصت ہو گئے۔

تیسرا منظر: 12 مارچ 2014۔ نواز شریف اب وزیر اعظم پاکستان تھے جبکہ عام انتخابات کے نتائج کو تسلیم کرنے اورنواز شریف کو کامیابی کی مبارک باد دینے والے عمران خان اپنا پسندیدہ اقدام یو ٹرن لے کر چار حلقے کھولنے کے مطالبے پہ حکومت کے خلاف احتجاج کرنا شروع ہو گئے تھے۔ ملک میں بد امنی اور دہشت گردی عروج پہ تھی۔ بطور وزیر اعظم نواز شریف نے عسکری قیادت کے ساتھ مشاورت کے ذریعے طالبان کو ہتھیار پھینکنے پہ قائل کرنے کی آخری کوشش کے طور پہ مذاکرات کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔

نواز شریف نے سول عسکری قیادت کے فیصلے پہ اعتماد میں لینے کے لیے عمران خان سے ملاقات کرنے کا فیصلہ کیا۔ نواز شریف کو وزیراعظم ہونے کے باعث ان کے رفقاء نے عمران خان کو ملاقات کی دعوت دینے کا مشورہ دیا لیکن نواز شریف نے انہیں جواب دیا کہ نہیں عام انتخابات گزر چکے ہیں ان عمران خان حریف نہیں سیاسی رہنما ہیں جن سے وہ مل کرچلنے کا وعدہ کر چکے ہیں اس لیے وہ خود ان کے پاس جائیں گے اور پھر 12 مارچ 2014 کو نواز شریف خودچل کر عمران خان سے ملنے بنی گالہ گئے جہاں انہوں نے عسکری قیادت کی مشاورت سے کیے گئے فیصلوں پہ انہیں اعتماد میں لیا۔

چوتھا منظر: 11 ستمبر 2018۔ ایون فیلڈ ریفرنس میں سزا کے بعد اپنی صاحبزادی مریم نوازکے ساتھ ملک کے سابق وزیر اعظم نواز شریف اڈیالہ جیل میں قید تھے۔ وہ احتساب عدالت سے سزا سنائے جانے کے بعد لندن میں اپنی اہلیہ کلثوم نواز کو بستر مرگ پہ چھوڑ کر بیٹی کے ہمراہ سزا بھگتنے آئے تھے جہاں انہوں نے سزا کے ساتھ بائیس منٹ والی اس بے بسی کو بھی بھگتا کہ باؤ جی کو آخری سانسیں لیتی اپنی کلثوم کی خیریت دریافت کرنے کے لیے ٹیلی فون پہ بیٹے سے بات تک کرنے کی اجازت بھی نا ملی۔

اسی روز 11 ستمبر 2018 کو ان کی کلثوم اس دار فانی سے رخصت ہو گئیں۔ باپ بیٹی کو پیرول پہ رہا کر کے آخری رسومات میں شرکت کے لیے اڈیالہ جیل سے لاہور پہنچایا گیا۔ اب وزیر اعظم کے عہدے پہ عمران خان فائز تھے جنہوں نے نہ اس وقت اور نہ نواز شریف کی ضمانت سے رہائی کے بعد ان کے پاس جا کر فاتحہ خوانی کرنے کو مناسب سمجھا۔ یہاں ان باتوں کا تذکرہ تنگی کالم کے باعث محض ایک تکرارجو کلثوم نواز کی بیماری کے دوران کہی جاتی رہیں۔

پانچواں منظر: 5 مارچ 2019 کوٹ لکھپت جیل میں قید نواز شریف کی صاحبزادی مریم نواز نے ان سے ملاقات کے بعد ٹویٹ کیا کہ ان کے والد کو گزشتہ ایک ہفتے میں چار بار انجائنا کا اٹیک ہوچکا ہے لیکن نواز شریف نے کہا ہے کہ چاہے جو بھی ہو جائے وہ نہ تو کسی کو بتائیں گے اور نہ ہی کوئی شکایت کریں گے۔ العزیزیہ اسٹیل ملز میں قید کاٹنے والے نواز شریف کو جنوری کے اوائل سے دوبارہ دل کا عارضہ لاحق ہونا شروع ہوا جبکہ ان کی میڈیکل رپورٹس کے مطابق وہ گردے، بلڈ پریشر اور شوگر کے امراض سے بھی دوچار ہیں۔ ان کے ذاتی معالج ڈاکٹر عدنان کا یہ خدشہ ایک طرف کہ دل کے عارضے کی پیچیدہ ہسٹری کے باعث ان کی زندگی کو شدید خطرہ ہے اب تک بنائے جانے والے پانچ میڈیکل بورڈز بھی اپنی رپورٹس میں یہ واضح کر چکے ہیں کہ انجائنا کے باعث انہیں سخت ہارٹ اٹیک کا خطرہ موجود ہے جبکہ انہیں تمام سہولیات سے آراستہ کارڈیک اسپتال اور ہمہ وقت کارڈیالوجسٹ اور نیفرالوجسٹ کی ضرورت ہے۔ گردے کی بیماری کے باعث انہی بورڈز نے اینجیوگرافی کو بھی ان کے لیے خطرناک قرار دیا جس وجہ سے نواز شریف نے تھیلئیم اسکین کرایا۔

اپنی بیماری کی سنگینی کا احساس کرتے ہوئے نواز شریف نے تو سینئر صحافی نصراللہ ملک کے مطابق جیل سپرنٹنڈنٹ کو اپنی میت فوری اہلخانہ کے سپرد کرنے کی وصیت سے بھی آگاہ کر دیا ہے۔ وزیر اعظم کے عہدے پہ فائز ہوتے ہوئے بھی اپنی والدہ کے جھک کر پاؤں چھونے والے نواز شریف اب اس ماں کے کہنے پر بھی کسی اسپتال جانے کو تیار نہیں ہیں کیونکہ وہ حکومت وقت کی طرف سے علاج کے نام پہ کی جانے والی تضحیک کوبرداشت نہیں کر پا رہے۔

اس سے بڑا مذاق کیا ہو سکتا ہے کہ دل کے عارضے کے باعث زندگی کے خطرے سے دوچار تین بار وزیر اعظم رہنے والے شخص کو علاج کے نام پہ سروسز اور جناح اسپتال بھیج دیا جائے اور اس سے زیادہ شرم کا مقام کیا ہوسکتا ہے کہ اس دوران وزیر اعظم سے وزراء تک انہیں ڈیل اور این آر او کے طعنے دیں۔ قارئین ان پانچ مناظر کے ذریعے ان میں دیے گئے کرداروں کے ظرف کا تعین میں آپ پہ چھوڑتا ہوں اورہاں اس دوران مسلم لیگ ن کے ان رہنماؤں اور ارکان کے ظرف کا اندازہ لگانا بھی مت بھولیں جنہوں نے ووٹ تو نواز شریف کے نام پہ لئے لیکن آج اپنے اسی قائد کے حق میں آواز بلند کرتے ان کی زبان پہ آبلے پڑتے ہیں۔

کیا نواز شریف کو پہلے بھی بیماری تھی؟ سپریم کورٹ


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).